سیدہ عنبرین عالم
میرا نام بشریٰ ہے، میرے ابو اپنے تین بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور بہت نیک مزاج کے ہیں۔ ہمارا گھر پرانے طرز کا بنا ہوا ہے، چاروں طرف کمرے اور بیچ میں صحن ہے۔ بہت لوگوں نے کہا کہ توڑ کر کئی منزلہ فلیٹ سسٹم بنا لو، مگر ابا کہتے ہیں کہ ایسے گھر صحت کے لیے نقصان دہ ہیں جہاں ہوا کے آرپار ہونے کی جگہ نہ ہو، ڈبے پہ ڈبا بنائے جانا کہاں کی عقل مندی ہے! میرے دو چچا بھی ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ تینوں بھائیوں میں چار چار کمرے تقسیم ہیں۔ باورچی خانے بھی الگ الگ ہیں۔ ابا کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیمے الگ الگ ہی ہونے چاہئیں کہ دیور سے بھی پردہ ہے اور چچازاد بھائیوں سے بھی۔ اگر سب مل کر رہیں گے تو پردہ نہیں رہے گا، اس لیے کمروں کے آگے راہ داری میں چلمنیں ڈال دی گئی ہیں، البتہ عشاء کے بعد جب سب رات کا کھانا کھا چکیں تو صحن میں چارپائیوں پر بیٹھک لگتی ہے۔ میری امی لیموں والی سبز چائے اور ساتھ کبھی خشک میوہ، کبھی چنے، کبھی بتاشے یا ابلے انڈوں کا انتظام کرتی ہیں۔ کئی مسئلوں پر بات چیت ہوتی ہے۔ میرے دونوں چچا میرے ابو کی ہر بات مانتے ہیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ گپ شپ رہتی ہے، پھر سب اپنے کمروں میں جاکر سوجاتے ہیں۔ خرچا بھی تینوں بھائی مل کر کرتے ہیں جیسے بل وغیرہ دینا، یا بقرعید پر قربانی وغیرہ۔ اگر بچوں کے بال کٹوانے ہوں تو ایک ہی بھائی جاکر گھر کے تمام بچوں کے بال کٹوا دے گا۔ اگر یونیفارم دلانے ہیں تو ایک ہی بھائی گھر کے سب بچوں کے یونیفارم لے آئے گا۔ اس تمام حساب کتاب کا بھائیوں میں کیا انتظام ہے، یہ کبھی بیویوں اور بچوں کو پتا نہیں لگا۔
کل رات ابا نے بتایا کہ ان کی والدہ کی کوئی دور پار کی کزن ہیں، ان کا نام سلمیٰ اماں ہے، وہ دو بہنیں تھیں، غیر شادی شدہ ہی بوڑھی ہوگئیں، ایک گھر میں رہتی تھیں، اب ایک بہن کا انتقال ہوگیا ہے اور سلمیٰ اماں تنہا رہ گئی ہیں، لہٰذا ابا ان کو اپنے گھر لا رہے تھے۔ پہلے بھی کئی برس سے دونوں بہنوں کو خرچہ ابا ہی دیتے تھے، اور چھوٹے چچا ان کے گھر کے کئی کام کرکے ہی آفس سے گھر واپس آتے تھے۔ ابا نے ہم لوگوں سے کہا کہ ایک کمرہ خالی کردو۔ مگر ہم سات بہن بھائی ہیں تو انور چاچو نے اپنا ایک کمرہ خالی کردیا، ان کے دو ہی بچے ہیں، مگر نعیمہ چاچی اس بات پر سخت ناراض تھیں، یعنی انور چاچو کی بیوی۔ بہرحال سلمیٰ اماں گھر آگئیں۔ سیاہ کالا رنگ اور اس پر سفید چٹے بال، جھریوں سے بھرا چہرہ اور اندر دھنسے ہوئے گال۔ ہلکے ہلکے چلتی تھیں، کم بولتی تھیں۔ کیوں کہ وہ انور چاچو کے ساتھ رہتی تھیں، تو ان کی ذمے داری نعیمہ چاچی پر آگئی تھی۔
ہم سب بچے سلمیٰ اماں کے کمرے مں جمع تھے، ہمیں جیب خرچ دینے کی ذمے داری ابا نے سلمیٰ اماں کو دے دی تھی۔ گھر کے سارے بچوں کے جیب خرچ کی رقم سلمیٰ اماں کو دی جاتی اور وہ ہم میں تقسیم کرتی تھیں۔ ان کے گھر کا کرایہ بھی آنے لگا تھا جو ابا جوں کا توں ان کے ہاتھ پر رکھ دیتے تھے۔ اس لیے سلمیٰ اماں بچوں کو بہت عیش کراتی تھیں۔ ہم سب ان سے مانوس ہوگئے تھے اور اکثر ان کے کمرے میں ہلا گلا کیا کرتے تھے، اور اس بات سے نعیمہ چاچی بڑی عاجز تھیں۔
ایک رات میری آنکھ کھلی، پھر خاصی دیر تک نیند نہ آئی، سوچا باورچی خانے میں جاکر کچھ کھا لیتی ہوں۔ خاموشی سے اٹھی کہ دوسرے بہن بھائیوں کی نیند خراب نہ ہو، اور دبے قدموں سے باورچی خانے پہنچی۔ وہاں مجھے کھسر پھسر سنائی دینے لگی، دروازے کے پیچھے سے جھانکا تو کیا دیکھتی ہوں کہ سلمیٰ اماں فریج سے مٹر والے چاول نکال کر کھا رہی ہیں۔ سوچا منع کروں کہ ٹھنڈے چاول نہ کھائیں، طبیعت خراب ہوجائے گی، مگر پھر سوچا کہ وہ شرمندہ ہوں گی کہ میری چوری پکڑی گئی۔ پھر انہوں نے ایک کینو بھی کھایا اور چائے بھی بنا کر پی۔ پھر سب برتن دھوکر چل دیں۔ میں چھپ گئی تاکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکیں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے بھی باورچی خانے میں جاکر کچھ کیلے وغیرہ کھائے اور جاکر سوگئی، مگر ایک خفت رہی کہ سلمیٰ اماں چور ہیں۔
صبح اٹھ کر میں نے امی کو سارا قصہ سنایا تو وہ ہنس دیں۔ ’’ارے بھئی! ان کو بھوک لگی، انہوں نے کھانا کھا لیا، اس میں چوری کی کیا بات ہے! جہاں گھر کے نو افراد کا کھانا بنتا ہے، وہاں ایک آدھ فرد کی گنجائش بھی اسی کھانے میں سے نکل آتی ہے، یہ چوری نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
اس کے بعد امی نے رات کو تازہ چاول پکاکر رکھنے شروع کردیے۔ سلمیٰ اماں روٹی نہیں کھا سکتی تھیں، ساتھ میں امی ایک کٹوری میں سالن گرم کرکے بھی رکھ دیتیں۔ روز سلمیٰ اماں رات کو تین بجے کے قریب آکر کھا پی کر چلی جاتیں۔ ان کے اس معمول سے امی ابو اور ہم بہن بھائی سب واقف تھے، مگر ان کے سامنے اظہار نہیں کرتے تھے۔ پھر جب بچوں کو جیب خرچ دیتیں تو الگ سے اپنے پیسے دے کر بسکٹ، جوس، چپس وغیرہ بھی اپنے لیے منگواتیں۔ جب ابو کو پتا چلا کہ وہ کھانے پینے کی اتنی شوقین ہیں تو وہ اکثر انہیں پھل وغیرہ لاکر دینے لگے، جو اکثر بچوں میں ہی بٹ جاتے۔ سلمیٰ اماں اکیلے کھانے کی قائل نہ تھیں۔
پھر ایک رات میں نے دیکھا کہ سلمیٰ اماں ہمارے پورشن سے کھانا کھاکر نکلیں تو سامنے عاقل چاچو کے پورشن میں چلی گئیں، وہاں سے کچھ لے کر نکلیں اور جلدی جلدی واپس اپنے انور چاچو والے پورشن میں چلی گئیں۔ صبح عاقل چاچو کی بیوی صبیحہ چاچی نے غل مچا دیا کہ نیا نیا صابن نکال کر رکھتی ہوں اور ہر دو تین ہفتے میں ایک صابن چوری ہوجاتا ہے۔ کل تو کپڑے دھونے والا سرف چوری ہوگیا… مجھے یقین تھا کہ یہ چوری سلمیٰ اماں نے کی ہے لیکن کہتے ہوئے مروت آڑے آگئی، مگر اپنی امی کو میں نے بتادیا۔ وہ بھی پریشان ہوگئیں کہ سلمیٰ ایسے کیوں کررہی ہیں! پھر امی نے سلمیٰ اماں کو نہانے کے تین صابن، کپڑے دھونے والا ایک صابن، شیمپو، پائوڈر، پرفیوم اور دو جوڑے سلوا کر تحفتاً دیے اور کہا کہ جو ضرورت ہو یا کوئی مسئلہ ہو تو مجھ سے کہیے۔ سلمیٰ اماں مگر چپ ہی رہیں۔
پھر یوں ہوا کہ دو دن سلمیٰ اماں رات کی محفل میں بھی نہ آئیں اور دن میں بھی ان کا کمرہ بند ہی رہا۔ ہم بچے ان سے ملنے جاتے تو نعیمہ چاچی کہتیں کہ اماں کو تنگ نہ کرو، ان کی طبیعت بہتر نہیں ہے۔ آخر تیسری رات سب نے فیصلہ کیاکہ ان کی مزاج پرسی کی جائے۔ نعیمہ چاچی نے بہت منع کیا کہ سلمیٰ اماں کو تنگ نہ کیا جائے، سب تو رک گئے مگر ابو نہ مانے اور امی کو لے کر سلمیٰ اماں کے کمرے میں گئے۔ نعیمہ چاچی پیچھے پیچھے بھاگتی گئیں کہ کسی طرح ابو کو روک لیں، مگر ابو نہ مانے… اور کیا دیکھتے ہیں کہ سلمیٰ اماں فرش پر بے ہوش پڑی ہیں، شاید باتھ روم میں اپنے کپڑے دھو رہی تھیں کہ فرش پر پھسل کر گر پڑیں، نعیمہ چاچی انہیں گھسیٹ کر کمرے کے فرش تک تو لے آئیں، مگر ظاہر ہے وہ اکیلی انہیں پلنگ کے اوپر تو نہیں لٹا سکتی تھیں، کسی کو بتایا اس لیے نہیں کہ شامت آجائے گی کہ سلمیٰ اماں اپنے کپڑے خود کیوں دھو رہی تھیں؟ کھانا تو پہلے ہی نہیں دیتی تھیں جس کی وجہ سے سلمیٰ اماں کو چرا کر کھانا پڑتا، اب تو پانی بھی بند۔ خود نعیمہ چاچی نے بتایا کہ میں انتظار کررہی تھی کہ سلمیٰ اماں کا انتقال ہوجائے تو سب کو بتائوں گی کہ گر کر مر گئیں، ابھی بتاتی تو سلمیٰ اماں سب بتادیتیں کہ میں نہ کھانا دیتی ہوں نہ ضرورت کی کوئی اور چیز۔ انور چاچو کا غصے سے برا حال تھا، مگر ابو نے سمجھایا کہ یوں وقت ضائع نہ کرو، پہلے سلمیٰ اماں کو اسپتال لے کر چلو۔
سلمیٰ اماں کی حالت بڑی نازک تھی، تین جگہ سے ہڈی ٹوٹی تھی۔ دو دن بغیر کھانے پانی کے رہنے کی وجہ سے جان الگ جوکھم میں پڑ گئی تھی۔ 4 دن ICU میں اور وارڈ میں دو ہفتے رہیں۔ پھر پلستر لگواکر گھر تو آگئیں مگر انتہائی خوف زدہ کہ کہیں پھر نعیمہ کے ہاں نہ رہنا پڑے۔ منتیں کرتی تھیں کہ میں نے تو کسی سے نعیمہ کی شکایت نہیں کی، پھر اُس نے مجھے جان سے مارنے کی کوشش کیوں کی؟ ابو نے پھر سلمیٰ اماں کو اپنے ہی پورشن میں ایک کمرہ دے دیا اور اوپر ٹین کی چھت والے دو کمرے اور بنوا لیے۔ پھر یتیم خانے سے ایک اور خاتون کو لے آئے جن کا آگے پیچھے کوئی نہ تھا، انہیں دن رات سلمیٰ اماں کی خدمت پر مامور کردیا۔ سلمیٰ اماں چھ سال اور زندہ رہیں، امی اور صبیحہ چاچی سے چوریوں کی معافی مانگتی رہیں، آخری وقت تک نعیمہ چاچی کو دیکھ کر ڈر جاتی تھیں۔ جاتے جاتے اپنا مکان ابو کے نام کرگئیں۔ ان کے جانے کے بعد بھی یتیم خانے والی خالہ ہمارے ہاں ہی رہتی ہیں، امی کا ہاتھ بٹا دیتی ہیں اور ہم سب سے بہت پیار کرتی ہیں۔ امی نے ان کو نماز، قرآن، اردو وغیرہ سب سکھا دیا ہے، اب تو ماشاء اللہ اخبار پڑھ لیتی ہیں۔
اس واقعے کو بیس برس گزر گئے، اب ہم سب بچوں کی شادیاں ہوگئی ہیں، ابو کا انتقال ہوگیا ہے، عاقل چاچو اب ابو کی ذمے داریاں نبھاتے ہیں، انور چاچو کو فالج ہوگیا ہے، ان کے دونوں بچے ملک سے باہر چلے گئے، نعیمہ چاچی عمر کے اس حصے میں آج اتنی ہی اکیلی اور بے بس ہیں جتنی کبھی سلمیٰ اماں تھیں، آج بھی اپنی اس بے حسی کو یاد کرکے روتی ہیں جو انہیں سلمیٰ اماں سے نہیں برتنی چاہیے تھی۔ یتیم خانے والی خالہ بھی اب بہت بیمار رہتی ہیں، امی اور خالہ کو ایک دوسرے کا آسرا ہے۔ بچے تو اب سب ہی بہت مصروف ہوگئے ہیں، مگر الحمدللہ بزرگوں کی جو عزت اور خدمت گھٹی میں پلا دی گئی، اس کے سبب امی اور خالہ آج بھی ایک باوقار زندگی گزار رہی ہیں۔ پھر تیس سال اور گزر گئے۔
میں آج کل امریکا میں ہوں اور اپنی بیٹی عالیہ کے گھر رہتی ہوں۔ بوڑھی ہوچکی ہوں۔ عالیہ کی تین بیٹیاں ہیں، وہ اور اس کا شوہر نوکری پر جاتے ہیں، بچیوں کو میں ہی دیکھتی ہوں۔ میری بڑی نواسی جو 13 سال کی ہے، بہت سمجھ دار ہے، اس کا نام ذکیہ ہے۔
ذکیہ: نانی! ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت اچھا نظام دیا، مگر انہوں نے بے سہارا عورتوں کے لیے ادارے بنائے نہ یتیم خانوں کا رواج ڈالا، نہ اولڈ ہائوسز قائم کیے، یعنی معاشرے کے کمزور طبقے کے لیے منظم ادارے قائم نہ کیے، کیا نظام میں ایک خلا نہیں رہ گیا؟
بشریٰ: میری بیٹی! دینِ اسلام کا سب سے بڑا درس محبت اور بھائی چارہ ہے، جب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سجدہ کرتے تو ان کے نواسے ان کی پیٹھ پر چڑھ جاتے، مگر میرے نبیؐ نے انہیں کبھی نہ ڈانٹا۔ فتح مکہ پر بدترین دشمنوں کو معاف کردیا، حضرت بلالؓ جو غلام تھے، ان کو تین رات تک جاگ کر جَو پیس کر دی، صرف محبت ہی محبت… وہ بے سہارا لوگوں کو کیسے بے پروائی سے چھوڑ دیتے!
ذکیہ: مگر آپؐ نے تو بے سہارا لوگوں کے لیے بنیادی ادارے قائم نہ کیے، جیسے آپ سلمیٰ اماں کا بتاتی ہیں؟
بشریٰ: بیٹا! اسلام میں ادارے کم ہیں اور خاندانی تحفظ زیادہ ہے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں سے حُسنِ سلوک اور ان کی کفالت کی اس کثرت سے تاکید کی کہ مثال نہیں ملتی۔ یتیموں کو اپنے خاندان کا حصہ بنانا ہے، ان کو ماں باپ کی شفقت اور تربیت دینی ہے۔ کوئی بہترین ادارہ سہولیات اور تربیت تو دے دیتا ہے لیکن محبت نہیں دے سکتا، اور محبت کی کمی انسان کو توڑ دیتی ہے۔ آج ہر طرح کے ادارے موجود تو ہیں مگر انسان کو خاندانی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ہم اپنے کمزور طبقے کو اپنے خاندان کا حصہ نہیں بنانا چاہتے، انہیں عزت اور شفقت نہیں دینا چاہتے، ہم یتیم خانے کو چندہ تو دے دیتے ہیں مگر کسی ایک یتیم کو بھی خاندانی تحفظ نہیں دینا چاہتے۔ ہم انہیں نیچ اور اچھوت سمجھ کر بھیک تو دے دیتے ہیں مگر اپنی خوشیوں میں شریک نہیں کرتے۔ حالانکہ اسلام محبت سکھاتا ہے، وہ محبت جو انصارِ مدینہ نے بے سہارا مکی مہاجرین سے کی۔ ہم ادارے نہیں بناتے بلکہ بے سہارا کمزور طبقہ ہمارے گھروں میں، خاندان میں جذب ہوجاتا ہے۔
ذکیہ: (بات سمجھ کر) اچھا نانی! جیسے آپ لوگوں نے سلمیٰ اماں اور یتیم خانے والی خالہ کو اپنے خاندان میں شامل کرلیا، اپنے بزرگوں کی طرح ان کی خدمت کی اور تادم مرگ انہیں اپنے ساتھ ہی رکھا۔
بشریٰ: بالکل بیٹا۔ یتیم بچیوں اور بے سہارا خواتین کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے، ان کو صرف خوراک اور بنیادی اشیاء کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انہیں تحفظ بھی چاہیے ہوتا ہے جو انہیں معاشرے کی ضرر رسانیوں اور ہوس سے محفوظ رکھے، ایسی صورت میں میرے نبیؐ نے تو اپنے امتیوں کو ہی حکم دیا ہے کہ ایسے کمزور ترین طبقے کی ذاتی طور پر مدد کرکے انہیں معاشرے کا مفید حصہ بنایا جائے، لیکن آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں اگر کوئی حکومت باقاعدہ ادارے قائم کرکے کمزور طبقے کو تحفظ اور بنیادی ضروریات فراہم کرنا چاہتی ہے تو یہ اسلام میں ممنوع نہیں، بالکل ہی لاوارث چھوڑ دینے کے مقابلے میں منظم ادارے قائم کردینا قدرے مستحسن عمل ہے۔
ذکیہ: آپ نے درست فرمایا، لیکن بہترین اجر تو یہی ہے کہ ہم کسی بیمار، بوڑھی، بے سہارا خاتون یا معذور کی ذاتی طور پر اپنے خاندان کے فرد کی حیثیت سے مدد کریں، بغیر احسان جتائے، بغیر ناک بھوں چڑھائے اور بغیر بے عزت کیے، اللہ ہمیں راہِ راست دکھائے۔
بشریٰ: شاباش بیٹا، اچھا برا وقت کسی پر بھی آسکتا ہے، جیسے نعیمہ چاچی۔ وہ انتہائی خوش حال اور بااختیار تھیں اور اسی غرور میں انہوں نے سلمیٰ اماں کے ساتھ برا رویہ اختیار کیا، لیکن دن میرے رب کی انگلیوں کے بیچ گردش کھاتے ہیں، کوئی ہمیشہ کے لیے نہ بادشاہ رہ سکتا ہے نہ ہمیشہ کے لیے فقیر۔ اللہ اپنے بندوں کو جس طرح چاہتا ہے آزماتا ہے۔