ماں کی ممتا

1589

افروز عنایت
اللہ رب العزت اپنے بندوں سے اپنی محبت کے لیے ماں کی محبت کی مثال دیتا ہے کہ وہ ستّر مائوں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ نے اس مثال سے ماں کی محبت کو بھی واضح کیا ہے۔ اسی لیے حقوق العباد میں بندوں میں سب سے زیادہ حق ماں کو دیا گیا ہے، یہاں تک کہ ماں کے پیروں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ وہ اولاد کے لیے تکلیفیں سہتی ہے، نو مہینے اپنی کوکھ میں لیے پھرتی ہے، پھر اس کے پیدا ہونے پر درد سہتی ہے، دن رات ایک کرکے، راتوں کو جاگ کر اس کی پرورش کرتی ہے، اولاد کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہوجاتی ہے، خود تکلیف میں رہ کر اولاد کو سُکھ پہنچاتی ہے، راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کی سلامتی اور کامیابی کے لیے دعائیں مانگتی ہے۔ میں نے آس پاس متعدد ایسی عورتوں کو دیکھا ہے جو شوہروں اور سسرال کے ناروا ظلم و ستم و تکالیف کو صرف اولاد کی وجہ سے برداشت کرتی ہیں، شوہر سے علیحدگی یا خلع نہیں لیتیں کہ ان کے بچے رُل جائیں گے، ان کا مستقبل تباہ و برباد ہوجائے گا، بلکہ عورت گھر کی چار دیواری میں شوہر کے ظلم پر آواز بھی نہیں اٹھاتی کہ کہیں میرے بچوں کے ذہن پر اس کے منفی اثرات نہ ہوں، یا میرے بچے کی تربیت پر برا اثر نہ پڑے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ماں کے اس عظیم روپ کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے مکروہ چہرے بھی نظر آتے ہیں جن کے ساتھ ’ماں‘ کا عظیم رتبہ لگاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مثلاً ابھی پچھلے دنوں اخبارات و میڈیا پر ایسی خبریں گردش کرتی نظر آئیں کہ ماں نے اپنے آشنا کے لیے بچوں کو قتل کردیا، یا زہر دے کر مار ڈالا، یا محبوب کے ساتھ مل کر بچوں سے جان چھڑانے کے لیے انتہائی قدم اٹھایا۔ میں خود ایک ماں ہوں، ایسی خبروں کو سن کر یقین نہیں آتا کہ ماں جو لفظ ہی انتہائی گہرائیوں سے محبت کی چاشنی بکھیرتا ہے، اس قدر سفاکانہ قدم اٹھا سکتی ہے۔ میں جب بھی اس نوعیت کی کوئی خبر سنتی ہوں تو اپنے آپ کو بہلاتی ہوں کہ ایسا ممکن نہیں، اس کہانی کے پیچھے کچھ اور حقائق پوشیدہ ہوں گے، ’’ماں‘‘ تو ایسا کر ہی نہیں سکتی۔ لیکن چند دن پہلے ایک ایسا واقعہ میری نظروں کے سامنے سے گزرا جو دل ہلا دینے کے لیے کافی ہے، اور مجھے یقین کرنا ہی پڑا کہ اس دنیا میں ایسا بھی ہو سکتا ہے، ماں بھی بے حسی کا مظاہرہ کرسکتی ہے، بلکہ اپنی خوشی اور تسکین کے لیے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے بچوں کو بھی چھوڑ سکتی ہے۔
٭…٭…٭
طاہرہ ایک خوبصورت اور پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ شادی کرکے وہ ایسے گھرانے کی فرد بنی جہاں اسے احساس یا خوش فہمی ہوئی کہ میں ان سب سے برتر ہوں، میں اس 13-12 افراد پر مشتمل گھرانے میں ان جیسی زندگی کیوں گزاروں؟ اس کا شوہر ایک تعلیم یافتہ بزنس مین (کاروباری آدمی) تھا، لہٰذا اس نے اپنی خوبصورتی اور ذہانت (چالاکی) سے اپنے شوہر کو مٹھی میں کرلیا، اس کو اِس طرح شیشے میں اتارا کہ وہ شادی کے دو ہفتے بعد ہی نہ صرف اسے الگ گھر میں رکھنے کے لیے تیار ہوگیا بلکہ ہمہ وقت اس کی محبت کا دم بھرنے لگا۔ اس کی ہر جائز، ناجائز خواہش پوری کرنا وہ ضروری سمجھتا ۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود سلیم نے اپنی بیوی کو ایک پُرتعیش زندگی مہیا کی۔ دیکھنے والے طاہرہ کی اس خوشگوار زندگی کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے اور اسے ایک خوش قسمت عورت کہتے…
خوبصورتی، تعلیم، دولت، ذہانت سبھی سے اللہ نے اسے نوازا، صرف اولاد کی کمی تھی۔ شادی کے آٹھ سال گزر گئے، اولاد نہ ہوئی۔ لیکن سلیم نے کبھی اس سے شکایت نہ کی۔ طاہرہ اپنے طور پر علاج معالجے میں مصروف رہی، اس سلسلے میں سلیم نے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا، اور آخر اس کی دعائیں اور محنت رائیگاں نہیں گئی، رب العزت نے یکے بعد دیگرے پہلے بیٹے اور پھر بیٹی سے نوازا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اللہ کی ان تمام نعمتوں پر اس کی شکر گزار ہوتی، اور شوہر سے اس کی محبت و چاہت میں اضافہ ہو جاتا۔ لیکن آنے والے وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ رب کی اور شوہر کی بھی ناشکری عورت ہے، جسے اپنی ذاتی خوشی اور مفاد کے لیے اولاد کا احساس بھی نہیں…
سلیم کا اولاد کی خوشی کے بعد تو بیوی کی طرف جھکائو مزید بڑھ گیا۔ بقول شخصے سلیم زن مرید شوہر ہے جسے اپنے بیوی بچوں کے سوا کسی کا احساس نہیں۔ جب کہ طاہرہ کا رویہ اُس کے ساتھ ایسا کہ جیسے وہ اسے انگلیوں پر نچا رہی ہو۔ اس نے شوہر کی محبت اور سادگی سے بھرپور فائدہ نہ صرف خود حاصل کیا بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی نوازا۔ اس گھرانے کی بدنصیبی کا دور تب شروع ہوا جب بیوی نے شوہر سے ایک اور تقاضا شروع کیا کہ وہ پڑھی لکھی ذہین عورت ہے، اس لیے اسے اپنے کاروبار میں شامل کرے۔ بچے تو ویسے ہی نوکر پال رہے تھے، لہٰذا طاہرہ اب اپنے شوہر کے ساتھ کاروباری میٹنگز میں شامل ہونے لگی جس سے سلیم کو خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا۔ ان ہی میٹنگز میں طاہرہ کی ملاقات اصغر نامی شخص سے ہوئی جو ایک ارب پتی اور جوان بچوں کا باپ تھا۔ وہ طاہرہ کی ذہانت سے متاثر ہوا تو طاہرہ کا جھکائو بھی اس کی طرف بڑھا۔ میٹنگز کے علاوہ بھی وہ ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ شروع میں تو سلیم اسے کاروباری ملاقات سمجھتا رہا، جب بات آگے بڑھی تو اس نے بیوی پہ اعتراض کیا کہ اس کا یہ رویہ غلط ہے، وہ شادی شدہ اور بچوں والی خاتون ہے۔ اس بات پر دونوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ آخر طاہرہ نے شوہر سے طلاق کا تقاضا کیا اور بڑی دیدہ دلیری سے شوہر سے کہا کہ اصغر ایک ارب پتی شخص ہے، میری تمام خواہشات وہی پوری کرسکتا ہے۔ اس مطالبے پر سلیم کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی، اس نے بیوی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی، بچوں کا واسطہ دیا کہ تم اپنی خوشی پر ان کو بھینٹ چڑھا رہی ہو، لیکن اس لالچی اور خودغرض عورت پر صرف ایک ہی بھوت سوار تھا کہ یہ بچے تمہارے ہیں، انہیں تم ہی سنبھالو، مجھے ہر صورت میں خلع چاہیے تاکہ میں اصغر کے ساتھ نئی عیاشانہ زندگی شروع کرسکوں۔ آج سلیم پچھتا رہا ہے کہ اس نے اس عورت کے لیے بہن بھائی، ماں باپ سب سے بیگانگی برتی، صرف اس کا بن کر رہا اور وہ… بیچ منجدھار میں اس طرح دولت کی خاطر مجھے ٹھکرا کر نئی راہوں پر چل پڑی۔ خلع سے پہلے ہی اس نے سلیم کا گھرچھوڑ دیا اور اصغر سے نکاح کرلیا۔
جب مجھے اس واقعے کا علم ہوا تو اس ناشکری عورت اور اس کے شوہر سے زیادہ ان معصوم بے قصور بچوں کے احساس نے بے چین کردیا۔ اس کی تین سالہ معصوم بچی اور چھ سالہ بیٹے کا کیا قصور ہے جن پر اس وقت تو دنیا والے ترس کھا رہے ہیں، لیکن آنے والے کل ان کے ذہنوں اور کانوں سے یہ آواز ٹکرائے گی کہ ان کی ماں اپنے آشنا کے ساتھ چلی گئی، یا دولت کی خاطر ان کی ماں بچوں اور شوہر کو ٹھکرا کر بھاگ گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سب سنبھل جائیں گے، لیکن یہ معصوم بچے ماں کے دیے ہوئے اس زخم کو لے کر جوانی میں قدم رکھیں گے، جہاں انہیں ہزاروں تنقیدی اور نفرت بھری نگاہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
٭…٭…٭
میں طاہرہ اور سلیم کے اس واقعے کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کررہی تھی کہ سامنے ٹیرس میں بیٹھی بلی پر نظر پڑی، جس نے پچھلے ہفتے ہی تین بچوں کو جنم دیا تھا، جو سائے کی طرح اپنے بچوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی، ساری رات جاگ کر ان کا پہرہ دیتی، کیوں کہ ایک دن رات کو ایک بڑا بلا آیا تھا شاید کھانے کے لیے، بلی کے دھاڑنے اور چیخنے پر ہم سب کی آنکھ کھل گئی، اس نے اپنے آپ کو زخمی کرلیا اس بلے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے، لیکن بچوں پر آنچ نہ آنے دی۔ اس دن کے بعد ہم سب نے نوٹ کیا کہ وہ ساری رات جاگ کر پہرہ دیتی ہے اور صبح کو کھانے پینے کی تلاش میں اِدھر اُدھر منہ مارتی ہے، بلکہ اب تو وہ میائوں میائوں کرکے گھر سر پر اٹھا لیتی ہے جب تک اسے کچھ کھانے کو نہ دیا جائے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ یہ بے زبان اور ناسمجھ جانور طاہرہ جیسی مائوں سے ہزار درجہ بہتر ہے جسے اپنے بچوں کے دکھ سُکھ، درد اور تکلیف کا احساس ہے۔
٭…٭…٭
طاہرہ کی کہانی شاید سب کے لیے ایک معمولی واقعہ ہو، لیکن صاحبِ اولاد اور حساس لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ ایسی عورتوں سے بس یہی کہہ سکتی ہوں کہ صرف دولت ہی دل کا سکون نہیں کہ جس کے لیے اولاد کو بھی ٹھکرا دیا جائے، بلکہ بچوں کی خوشی اور دل کا سکون ہی عورت کے دل کا سکون اور قرار ہے۔
اگر مذکورہ بالا خاتون کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تربیت، دینی ماحول اور اچھی صحبت بھی میسر ہوتی تو یقیناً وہ انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے ایک مرتبہ شوہر کی محبت اور خلوص کا نہ سہی، بیٹی اور بیٹے کی محبت کا احساس ضرور کرتی کہ ان کو بیچ منجدھار میں چھوڑنے سے ان کی آنے والی زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔
میں نے اپنے ایک پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ اچھی بیٹی، بہن، بیوی، بہو اور ماں بننے کے لیے صرف اعلیٰ ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں، جب تک عورت کو اچھی تربیت، اچھا دینی ماحول اور مثبت و اچھی صحبت نہ میسر ہو وہ کسی بھی حیثیت سے لوہا نہیں منوا سکتی، نہ کامیاب ہوسکتی ہے۔ ویسے بھی ایک باشعور، سمجھ دار عورت زندگی کی تلخیوں کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتی جبکہ اسے اللہ کی بہت سی دوسری نعمتیں میسر ہوں۔ وہ ہر گھڑی شکر گزاری کرتی ہے۔ ایسے ہی بندوں کو اللہ مزید نوازتا بھی ہے۔ جیسا کہ رب العزت کا فرمان ہے ’’یقینا اگر تم شکر ادا کرو گے تو ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا‘‘۔ (سورۃ ابراہیم آیت نمبر 7) ۔

حصہ