اردو ادب میں منفرد پہچان رکھنے والے صفِ اول کے خاکہ نگار عرفان جاوید کی “سرخاب”۔

1748

نعیم الرحمن
عرفان جاوید نے بہت مختصر عرصے میں اردو ادب میں اپنی منفرد پہچان بنالی ہے۔ افسانوں کے بعد شخصی خاکوں میں عرفان جاوید نے بالکل مختلف انداز اختیار کیا ہے۔ انہوں نے خاکے اور سوانح کی درمیانی راہ چنی ہے۔ وہ جس فرد کا خاکہ تحریرکرتے ہیں، اس کا کوئی بالکل انوکھا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیںکہ قاری کبھی اسے بھلا نہیں پاتا۔ عرفان جاوید لاہور میں پیدا ہوئے، کالج لاہور، انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور اور سندھ یونی ورسٹی حیدرآباد سے تعلیم حاصل کی۔ بیرون ملک سے بھی انہوں نے کئی کورسز مکمل کیے۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز دورانِ تعلیم 90 کی دہائی میں احمد ندیم قاسمی کے مستند ادبی رسالے ’’فنون‘‘ سے کیا۔ ان کی تخلیقات پاک و ہند کے بیشتر نمایاں اور مؤقر رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’کافی ہاؤس‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جس کی ادبی حلقوں نے بھرپور انداز میں پذیرائی کی۔ آصف فرخی اور محمد الیاس کے افسانوں کا انتخاب مع تنقیدی تعارف کے ’’سمندر کی چوری‘‘ اور ’’مورتیں‘‘ کے نام سے شائع ہوئے، جس کے بعد عرفان جاوید کے خاکوں کی پہلی کتاب ’’دروازے‘‘ نے دھوم مچادی اور انہیں صفِ اوّل کے خاکہ نگاروں میں شامل کردیا۔ اس کتاب میں شامل خاکے ادبی جرائد اور مقامی اخبار کے سنڈے میگزین میں شائع ہوکر قبولِ عام کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ’’سرخاب‘‘ کے نام سے عرفان جاوید کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ شائع ہوا، جس میں ممتاز قلم کاروں، فن کاروںکی رنگ رنگ داستانیں، تذکرے اور قصے شامل ہیں۔ اس کتاب کے بھی بیشتر خاکے ادبی رسائل اور اخبار کے میگزین میں شائع ہوئے۔
کتاب کا انتساب ’’اپنے احمد ندیم قاسمی صاحب اور شکیل عادل زادہ صاحب کے نام‘‘ ہے۔ بڑے سائزکے 248 صفحات کی کتاب سنگِ میل کے روایتی انداز میں عمدگی سے شائع ہوئی ہے، جس کی قیمت 900 روپے ہیں۔ سرخاب میں علم و ادب کی 12 شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔ ہر شخصیت کے خاکے کو عرفان جاوید نے منفرد عنوانات دیے ہیں جن سے متعلقہ شخصیت کی تصویر قاری کے ذہن میں بن جاتی ہے۔ عرفان جاوید خاکے کا آغاز ہی ایسے جملے سے کرتے ہیں کہ قاری کی پوری توجہ اس کی جانب مبذول ہوجاتی ہے۔
مثلاً کتاب کا پہلا خاکہ ادیب، دانش ور اور بیوروکریٹ خالد حسن کا ہے، جسے انہوں نے ’’انوکھا لاڈلا‘‘ کا نام دیا ہے۔ خاکے کی ابتدا کچھ یوں ہوئی ہے: ’’میں خالد حسن سے کبھی نہیں ملا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی، محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری کے ایچ خورشید کے برادر نسبتی، پیرس، اوٹاوا اور لندن میں سفارت کار، چالیس کتابوں کے مصنف، باخبر اور حاضر دماغ صحافی، انگریزی کے اپنے وقت کے صاحب ِ طرز اور صفِ اوّل کے کالم نگار اور شاندار مترجم خالد حسن سے میں کبھی نہیں ملا۔‘‘
یہ پیرا اپنی دل چسپی اور انوکھے پن سے قاری کو پورا خاکہ پڑھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ذرا ان کا انداز ملاحظہ کریں: ’’پر شاید میں اس سے مل چکا ہوں۔ بھٹو کی رنگین و سنگین صحبت کے رازداں، امیلیا ہوٹل، ڈرموں والے چوک اور کشمیرکی پہاڑیوں کے قدموں میں آباد سیالکوٹ کو ٹوٹ کر چاہنے والے، دمکتے ہیروں میں سجی میڈم نورجہاں کی محبت میں گرفتار، بچپن کے یاروں کے یار، فیض احمد فیض، قرۃ العین حیدر، اے حمید کے دوست، بے نظیر بھٹو کے شناسا، پرانی اقدار اور نفیس ریشمی نکٹائیوں کے عاشق، راج کی اونچی ناک والی روایات کے امین، نک سک سے درست، نٹ کھٹ، چلبلے، 75 برس کی عمر تک کھلنڈرے رہنے والے خالد حسن سے میں کہیں مل چکا ہوں، جوانی کے خوابوں کی طرح لڑکپن کی محبتوں کی طرح یاد ہے، پر ذرا ذرا سا۔ بے شمار کالموں، یادداشتوں کی شان دار کتاب ’’مقابل ہے آئینہ‘‘ (مترجم راجا انور)، مضامین، خطوط اور سیالکوٹ کے مشترکہ شناسائوں کی معرفت گویا اس سے رسم ِ شنائی رہی ہے۔‘‘
مختصر لفظوں میں خالد حسن کی پوری شخصیت، پسند ناپسند اور طرزِ زندگی اس طرح بیان کردیا کہ پڑھنے والا بھی اُن سے پوری طرح آشنا ہوگیا۔ ایسا انوکھا اور منفرد اسلوب شاید ہی کسی مصنف کا ہو، جو قاری کو مکمل طور پر چند جملوں میں اپنے سحر میں گرفتار کرلے۔ خالد حسن کے خاکے میں بعض دل چسپ واقعات بھی درج کیے گئے ہیں۔ ایک دل چسپ واقعہ ملاحظہ ہو: ’’بھٹو کی پھانسی کے بعد اُس کے بہت سے ساتھیوں کو ضیا الحق کی مارشل لائی حکومت نے گرفتارکرلیا۔ انہیں قید و بندکی سزائیں دی گئیں، کوڑے لگائے گئے اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہی میں سے ایک خالد حسن کا شناسا جب حراست سے لوٹا تو خالد نے اُس سے گرفتاری کا احوال پوچھا۔ اُس نے بتایا کہ دیگر لوگوں کو تو کوڑے لگائے گئے، پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ اسے ایک نوجوان کپتان کے سامنے پیش کیا گیا تو کپتان نے اس کا شناختی کارڈ دیکھا اور کہا تم 51 برس کے بوڑھے ہو، ہم تمہیں تمہارے بڑھاپے کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں۔ بعد ازاں اس نے دکھی لہجے میں خالد سے کہا کہ اگر وہ مجھے کوڑے مار دیتے تو شاید اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی 51 برس کے بڑھاپے کا سن کر ہوئی۔‘‘
اسی طرح ایک دل چسپ واقعہ ہے کہ ’’تاشقند میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے معاہدے کے بعد وہیں دل کا دورہ پڑنے سے شاستری کا رات گئے انتقال ہوگیا۔ بھٹو کو اطلاع دی گئی تو مطلع کرنے والے نے فقط اتنا کہا ’’سر شیطان مر گیا۔‘‘ اس پر بھٹو نے آنکھیں مَلتے ہوئے تاریخ ساز جملہ کہا ’’کون سا شیطان؟ اُن کا یا ہمارا؟‘‘
اس طرح کے دل چسپ واقعات پڑھتے ہوئے 15 صفحات کا طویل خاکہ کب ختم ہوا، قاری کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ انوکھا، دوستوں کا لاڈلا، کھیلن کو ماضی کا نقرئی چاند مانگنے والا خالد حسن 74 برس کی عمر میں واشنگٹن میں فوت ہوگیا۔ پاکستان کی ثقافت و ادب سے عشق کرنے والا اور سیاست میں سرگرم ذہین و فطین، انگریزی زبان کے ادیب، مترجم، نامہ نگار اور کالم نگار کو عمرِ عزیزکی آخری دہائیاں بہ سلسلہ معاش بیرون ِ وطن گزانا پڑیں۔ اس کا دل یہاں کے سونا رنگے گیہوں کے کھیتوں، رہٹ کے ٹھنڈے ٹھار پانیوں، چاندی رنگے آبشاروں، قدیم شہروں کی پُرپیچ و پراسرار گلیوں، چوباروں اور رنگا رنگ بولیوں کے ساتھ ایک طلائی زنجیر سے بندھا رہا۔ ارضِ پاک کے میدانوں، ویرانوں کی دھول اُس کی آنکھوں کا سُرمہ بنی رہی۔
پروین شاکرکا خاکہ ’’پارو‘‘ کے نام سے ہے۔ استاد دامن کے خاکے کا عنوان ہے’’دم دم دامن‘‘۔ اردوکے بے مثال افسانہ نگار سعادت حسن منٹوکے خاکے کا عنوان ہے ’’مہامنٹو‘‘۔ جون ایلیاکے خاکے کا نام ہے’’جون صاحب‘‘۔ افسانہ نگار منشا یاد کا خاکہ ’’یادگار‘‘ کے نام سے ہے۔ تصدق سہیل کے خاکے کو ’’جلاوطن‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ بھارت کے نامور افسانہ نگار، شاعر، ہدایت کار، فلم ساز اور نغمہ نگار سمپورن سنگھ عرف گلزار کے خاکے کو اُن کے آبائی شہر دینہ کے حوالے سے ’’دینہ کا لال‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مشہور شاعر، کالم نگار، ڈراما نگار، ماہرتعلیم امجداسلام امجد کا خاکہ سب سے طویل یعنی تقریباً چالیس صفحات پر مشتمل ہے جسے ’’وارث‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ منفرد ناول وافسانہ نگار محمد الیاس کے خاکے کا نام ہے’’کوزہ گر‘‘۔ شاعر اور ٹی وی پروڈیوسر ایوب خاور کا خاکہ ’’اک تارا‘‘ کے نام سے ہے۔ کتاب کا آخری خاکہ ’’ٹھیک ٹھاک آدمی‘‘ افتخار بخاری کا خاکہ ہے۔ ہرخاکے سے پہلے صاحبِِ خاکہ کا اسکیچ بھی ہے۔
شاعرہ اور بیوروکریٹ پروین شاکر کے خاکے ’’پارو‘‘ کا کیا دلچسپ آغاز ہے:’’پروین شاکر دادی بنی تو اُسے فوت ہوئے اُنیس برس پانچ روز گزرچکے تھے۔ سارے میں پروین مدھم لوری، گیت، مرثیے، اپنے بیٹے گیتو کو پکارتی ہوئی، سرگوشی کرتی صدا گونجتی ہے اور دل مسل دینے والے نوحے ’گھبرائے گی زینب‘ پر دھیرے دھیرے دم توڑ دیتی ہے۔ پروین، بانو، پارہ، پارو ایک ہی لڑکی کے نام ہیں جو جانے تب کتنی تنہا تھی جب اس کے بالوں کی لٹ اس کی کشادہ خوں آلود پیشانی چوم رہی تھی اور وہ بہ مشکل سانس لے رہی تھی۔ وہ جو رات کی رانی کی مہک کی عاشق تھی، موتیے کے پھولوں کے پاس چہل قدمی کیاکرتی اورگلاب کی ڈالیوںکے پاس دیر تک کھڑی رہتی تھی۔ اس کے اردگرد موت کی بو پھیلی تھی۔‘‘
پروین شاکر کے خاکے میں عرفان جاوید نے ایک حیرت انگیز واقعہ تحریرکیا ہے۔ پروین اپنی سہیلی رفاقت جاوید کے ساتھ دِلّی کے مشہورِ عالم جوتشی چوہان سے مل کر آئی تھی۔ جوتشی چوہان کا عالی شان گھر دہلی کے سرسبز و شاداب نواح میں واقع تھا۔ پروین شاکر وہاں گئی تو اُس کی آنکھوں میں بے یقینی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ وہ ایسے شعبدہ بازوں پر یقین نہ رکھتی تھی۔ البتہ جب وہ واپس آئی تواُس کی پیشانی پر تفکر کی لکیریں اور چہرے پر سنجیدگی تھی۔ ایسا کیا ہوا تھا جس نے پروین کی سی پُریقین خاتون کو بوکھلا کر رکھ دیا! چوہاں صاحب نے بہ غور پروین کی طرف دیکھا، اُس کا سنِ پیدائش معلوم کیا، والدہ کا نام پوچھا اور اُس کے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے گمبھیر آواز میں بولے ’’بیٹا! عمر بہت چھوٹی لکھوا کر لائی ہو‘‘۔ چوہان نے پروین کو اس کی تعلیم کے بارے میں سرسری بتایا جسے اُس نے سنجیدگی سے نہ لیا تھا۔ البتہ جب انہوں نے عین حقیقت کے مطابق کہا ’’بیٹا! اب تک چار کتابیں لکھ پائی ہو، بہت شہرت بھی کمائی، اور اس کی قیمت بھی خوب ادا کی‘‘ تو پروین چونک گئی۔ نجومی کاغذ پر حساب لگا رہا تھا۔ اُس کی غمگین آواز کمرے میں گونجی ’’ان چارکتابوں کے بعد پانچویں کتاب نظر نہیں آرہی۔ تمہارا بہت بڑا حادثہ ہوگا، ڈرائیور موقع پر مرجائے گا‘‘۔ پروین نے اُن کی بات کاٹی ’’میں بچ توجاؤں گی؟‘‘ چوہان نے پروین کی بے چینی اور پریشانی بھانپتے ہوئے، اُسے مصنوعی دلاسا دیا ’’تم ٹانگ سے محروم ہوجاؤگی۔ خون ہی خون نظر آرہا ہے۔ رام رام، تمہارا ماضی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتا، تمہاری ساس سخت مزاج تھیں، تمہیں تصویر اُتروانے سے نفرت ہے‘‘۔ انہوں نے جس تیقن سے درست طور پر پروین کے ماضی کے حالات و واقعات کا نقشہ کھینچا۔ پروین کو اُن کی چار کتابوں تک محدود زندگی کی پیش گوئی پر یقین آگیا۔ وہ سوچوں کے دھندلکے میں گم ہوگئی۔‘‘
جوتشی کا واقعہ پروین شاکر کی سہیلی رفاقت جاوید نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ یہ ایک دل چسپ اور پروین کے بارے میں معلومات سے بھرپور خاکہ ہے۔ اس طویل خاکے میں پروین شاکر کی زندگی کے کئی نئے رُخ پیش کیے گئے ہیں۔
استاد دامن پنجابی زبان کے بے مثال شاعر تھے۔ انہوں نے تمام زندگی عوامی شاعری کی۔ استاد دامن کا پیدائشی نام چراغ دین تھا۔ استاد کا کمال صرف عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی جانے والی شاعری ہی نہیں تھی، بلکہ وہ جملہ باز، جگت، نکتہ آرائی اور سامعین کے مزاج پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ وہ ہنستے تھے، ہنساتے بھی تھے، روتے تھے، رلاتے بھی تھے، البتہ اپنی زندگی کے اہم ترین حادثے پر وہ تنہا روئے تھے۔ وہ غم ساری عمر اُن کے اندر سرطان کی رسولی کی طرح پلتا رہا تھا۔ ان کی بیوی اغوا ہوگئی تھی۔ ان کی بیوی غیر مسلم تھی اور اُس کا نام کیتھرائن تھا۔ چوں کہ استاد نے بہت چاؤ اور لاڈ سے کیتھرائن سے بیاہ کیا تھا اور وہ غیر مسلم تھی، اس لیے کسی الجھاؤ اور تنازعے سے بچنے کے لیے استاد نے اس شادی کو لوگوں سے چھپا کر رکھا تھا۔ تقسیم کے بعد فسادات میں استاد کو لاہور میں خاصا مشکل وقت دیکھنا پڑا۔ ان کی دکان تک جلا دی گئی اور انہیں بادشاہی مسجد کے برآمدے میں منتقل ہونا پڑا۔ بیٹا پیدائش کے کچھ عرصے بعد وفات پا گیا۔ ان کے خاکے کی ابتدا یوں ہوئی: ’’پنڈت جواہر لال نہروکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے جذباتی ہوکر اپنے پرانے سیاسی رفیق، پنجابی زبان کے معروف عوامی شاعر استاد دامن کو بھارتی شہریت اختیارکرنے کی دعوت دی۔ استاد دامن نے جواب دیا ’’پنڈت جی! میں پاکستان ہی میں رہوں گا، چاہے وہاں مجھے جیل ہی میں رہنا پڑے۔‘‘ یہ واقعہ ہے دِلّی کے لال قلعے میں 1955ء میں منعقد ہونے والے مشاعرے کا، جس کی صدارت بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کی۔ ہندوستان کی تقسیم اور قیام ِ پاکستان کے بعد دونوں ملکوں کے لوگوں کے بیچ دکھ بھرے فاصلے دَر آئے تھے۔ وہیں پنڈت نہرو نے استاد دامن کو بھارتی شہریت کی پیش کش کی جسے استاد نے بہت محبت سے رَد کردیا۔ استاد دامن نے وہاں پنجابی نظم پڑھی جس میں دونوں جانب کے عوام کی آنکھوں میں گریے کی وجہ سے اُتر آنے والی سرخی کو مشترکہ دکھ کہا گیا۔ ’’لالی اکھیاں وچ پئی دس دی اے، روئے تُسیں وی اور روئے اسیں وی آں۔‘‘ استاد دامن کی وفات کے ساتھ پنجاب کی، پنجابی زبان کی، پورے ملک کی، مجبور و غریب عوام کی نمائندہ لوک، عوامی شاعری کا آخری بھاری بھرکم چاندی میں ڈھلا دروازہ بند ہوگیا۔
ایسے منفرد اور ہر صاحبِ خاکہ کے واقعات نے ’’سرخاب‘‘ کو انتہائی پُراثر اور دل چسپ بنادیا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے خاکے ’’مہامنٹو‘‘ میں فرقان جاوید لکھتے ہیں ’’منٹو ابھی خوب صورت، گول مٹول معصوم کشمیری لڑکا ہی تھا تو اُس کا باپ اسے تھپڑوں سے پیٹتے ہوئے کہتا تھا ’’تُو جیل جائے گا یا پاگل خانے‘‘۔ اردوکے صفِ اوّل کے ادیب سعادت حسن منٹو نے دو عشق کیے، ایک محبت کی، ایک رومانی شیفتگی میں مبتلا ہوا۔ میٹرک میں دو مرتبہ اردو کے مضمون میں فیل ہونے کے باوجود اردو کا اہم ترین ادیب ٹھیرا۔ فلمیں لکھیں، سیکڑوں افسانے، خاکے، ڈرامے، کالم، مضامین اور خطوط تحریر کیے۔ خودکشی کی ناکام کوشش کی، ہندوستان میں کسی قدر معاشی خوش حالی کے دن گزارے، تقسیم کے بعد قسمت آزمائی کے لیے کچھ عرصہ ہندوستان میں رکا رہا۔ حالات دگرگوں ہوتے دیکھ کر سمندر کے راستے پہلے کراچی اور پھر لاہور پہنچ گیا۔ 42 برس کی جواں عمری میں وفات پائی۔
معروف ناول و افسانہ نگار محمد الیاس کا خاکہ ’’کوزہ گر‘‘ سرخاب کا سب سے دل چسپ خاکہ ہے، جس میں گوشہ نشین محمد الیاس کی زندگی کے کچھ نئے گوشے قاری کے علم میں آتے ہیں: ’’یہ ایک باپ اور بیٹے کی دل کو چھو لینے والی محبت کی سچی کہانی ہے۔ بیٹا سب بچوں میں سب سے چھوٹا، باپ کا لاڈلا تھا۔ اُس کی عمر پانچ ایک برس ہونے کو تھی۔ وہ ایک رات بھی باپ کے بغیر نہیں سویا تھا، کبھی رات کے اندھیرے میں اس کی آنکھ کھل جاتی تو وہ بے چینی سے بستر ٹٹولتے ہوئے باپ تک پہنچ جاتا اور اس کے سینے سے لگ کر سکون سے سو جاتا۔ اُن کی ایسی دوستی تھی کہ بیٹا باپ کو یار کہہ کر بلاتا، اور باپ اسے جی او کہہ کر لپٹا لیتا۔ باپ بیٹا وفورِ محبت میں مہمل لفظوں کا تبادلہ کرنے لگتے۔ وہ بے انتہا لاڈلا، ہنس مکھ اور زندہ دل بچہ جب اپنی محبت کے جال میں سبھی کو بری طرح جکڑ چکا تو بیمار رہنے لگا۔ جلد تھک جاتا اور جسم دبوانے لگتا۔ اس معصوم کو کینسر تشخیص ہوا، بون میرو کینسر، جو اپنی آخری اسٹیج پر تھا۔ اس انکشاف نے باپ کو پُرعزم کردیا۔ اس نے اپنی پوری جائداد نیلام کرنے کا ارادہ کرلیا اورتہیہ کیا کہ وہ جھولی پھیلائے گلیوں، بازاروں میں بھیک مانگے گا۔ اپنے منے کا دنیا کے بہترین اسپتالوں میں علاج کرائے گا۔ ایک دن پہلے پہر بچے نے سرخ قے کی اور آنکھیں موند لیں۔ باپ نے بے قرار ہوکر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر سانس بحال کرنے کے لیے اسے کھینچا تو منہ خون سے بھر گیا۔ بچے کا جگرکٹ کے منہ میں آگیا۔ باپ کی ساری زندگی کے گزرے لمحات اورآنے والے دن اس ایک بوسے کی نذر ہوئے۔ وہ آخری بوسہ جو محمد الیاس نے اپنے لختِ جگر حیدر سانول کا لیا تھا۔‘‘
بہت دل گداز قصہ ہے۔ ایک ادیب اپنی ذاتی زندگی میں کس کرب سے گزرتا ہے۔ اس کا اپنا المیہ کس قدر دردناک ہوتا ہے۔ یہ پڑھ کر قاری کا بھی دل ہل جاتا ہے۔ ’’سرخاب‘‘ میں شامل تمام بارہ خاکے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ہر خاکے میں صاحبِ خاکہ کی سوانح اور بعض انتہائی منفرد واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ایک بار نہیں بار بار پڑھنے پر بھی کتاب کی دل چسپی میں کوئی کمی نہیں آتی، بلکہ قاری خود کو عرفان جاوید کے ایسے ہی مزید خاکوں کا انتظار کرنے پر مجبور پاتا ہے۔

حصہ