پہلی قسط
بچو! میں جب بھی کہانی سناتا ہوں ہمیشہ اس کہانی سے متعلق یہ بات ضرور کہتا ہوں کہ یہ کہانی مجھے میرے بچپن میں میری باجی نے سنائی تھی۔ یہ بات اس لئے کہتا ہوں کہ ایک تو واقعی اب تک میں نے جتنی بھی کہانیاں آپ کو سنائی ہیں ہیں وہ میں نے اپنی باجی سے ہی سنی تھیں اور یہ بات یوں بھی کہتا ہوں کہ آج کے اس دور میں جو بچے اور بچیاں کہانی پڑھنے کے اب بھی شوقین ہیں ان میں سے کوئی بھی بچہ یا بچی میری باجی کی طرح باجی یا بھائی جان بن جائے تو اس کے چھوٹے بھائی بہنوں یا خالہ، ماموں، چچا یا تایا زاد بھائی بہنوں کی قسمت بدل جائے۔ بچے کسی بھی دور کے ہوں ان میں ہر بات سیکھنے اور آگے بڑھنے کی بڑی امنگ ہوتی ہے اور یقین مانیں وہ اپنے دور کے بڑوں سے کہیں زیادہ سیکھنے، یاد رکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انھیں بڑی بڑی نظمیں، ملی تغمے، قومی ترانے، قرآن کی آیات اور قصے کہانیاں بڑوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھے انداز اور الفاظ کے ساتھ یاد ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ نقطہ ہے جس کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ بات بھی لازمی ہو جاتی ہے کہ جو بھی بچے اپنے چھوٹوں سے بڑے اور سمجھ دار ہوں، جیسے بڑی بہنیں اور بھائی، والدین، بڑی عمر والے اہل محلہ، نانا نانی، دادا دادی وغیرہ ان کا بہت اچھا ہونا، ان کی گفتگو کا انداز، انکے الفاظ کا چناؤ، ان کی آپس میں بات چیت، ایک دوسرے کے ساتھ سلوک اور بچوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت ہی شستہ اور مہذب ہونا چاہیے اس لئے کہ ان کا ہر چھوٹا جو کچھ بھی سیکھ رہا ہوتا ہے وہ اپنے بڑوں سے ہی سیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بچہ جو کچھ بھی بڑا ہو کر بنتا ہے وہ اپنے ماحول کے مطابق بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ جس سے بھی مل کر کچھ وقت گزارتے ہیں، آپ کو اس بات کا خوب اندازہ ہوجاتا ہے کہ جس کے ساتھ آپ نے کچھ وقت گزارا وہ معاشرے کے کس طبقے، تہذیب اور علاقے سے تعلق رکھا تھا۔ دوسری بات جو باجی کے ذکر میں پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ بچے اسی بات کو قبول کرتے ہیں جو ان کے ذہن سے مطابقت رکھتی ہو۔ اگر چھوٹی عمروں کے بچوں کو بڑی عمر کے مطابق سکھانے کی کوشش کی جائے گی تو شاید وہ ان باتوں کو اپنی یادداشت میں محفوظ تو پائیں لیکن جب تک وہ ان باتوں کی عمروں تک نہ پہنچیں گے، انھیں سمجھنے سے قاصر رہیں گے اور جب تک وہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آئیں گی وہ اس وقت تک ذہنی الجھنوں کا شکار رہیں گے لہٰذا یہ بات نہایت ضروری ہے کہ جو باتیں بھی بچوں کے سامنے کی جائیں وہ ان کی عمروں اور ذہنی صلاحیتوں سے لازماً مطابقت رکھتی ہوں۔
بچو! آپ سوچ رہے ہونگے کہ آج دادا نے کہانی سنانے کی بجائے یہ کیا قصہ چھیڑ دیا تو آپ پریشان نہ ہوں میں نے جس کہانی کا ذکر کیا ہے وہ تو مجھے سنانی ہی سنانی ہے لیکن یہ بات بتانا بھی تو ضروری ہے کہ جب سے آپ کی باجیوں، امیوں، یا نانی دادیوں نے آپ کو کہانیاں سنانی ترک کی ہیں اس وقت سے آپ ایک بہت بری عادت کا شکار ہو گئے ہیں جو کئی لحاظ سے آپ کیلئے نہایت خطرناک ہے اگر آپ نے اس عادت پر اور آپ کی باجیوں، بھائی جانوں، امیوں، نانیوں اور دادیوں نے اس پر توجہ نہ دی تو مستقبل میں اس بری عادت کے جو نتائج سامنے آئیں گے ان پر قابو پانے میں کئی صدیاں لگ سکتی ہیں۔
سب بچوں اور بڑوں کو اس بات کا خوب علم ہونا چاہیے کہ کہ بڑے ہوں یا بچے، ان کا ذہن کسی وقت بھی خالی نہیں رہ سکتا اور نہ ہی وہ کسی مصروفیت کے بغیر اپنا وقت گزار سکتے ہیں۔ وہ پڑھیں گے یا لکھیں گے، یا باتیں کریں گے، یا کھیلیں گے، یا دیکھیں گے یا پھر کوئی نہ کوئی کام ڈھونڈ کر اپنے آپ کو مصروف کریں گے۔ ان سب مصروفیات میں جو بات اہم ہو گی وہ یہ ہوگی کہ وہ جو کچھ بھی کریں گے یا دیکھیں گے، اگر غیر معیاری، عمومی، عامیانی، غیر اخلاقی، منفی یا غیر مہذبانہ ہوگی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بچہ جس کو قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے وہ ایک اچھا مستقبل ثابت ہو سکے گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج کل ایک دو ڈھائی سال کا بچہ بھی موبائل کا دیوانہ ہے اور وہ اس خطرناک ہتھیار کو اپنے ہاتھ میں لیکر کوئی نہ کوئی سائیٹ کھولنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اب موبائل ہو، کمپیوٹر ہو یا ٹی وی، ان سب میں ہر طرح کے پروگرام موجود ہوتے ہیں۔ اچھی کہانیاں بھی ہیں، پاکیزہ پروگرام بھی ہیں، ملی نغمے بھی ہیں، قومی ترانے بھی ہیں اور طرح طرح کے کارٹون بھی ہیں اور یہ سب آپ کی اپنی قومی زبان میں بھی ہیں لیکن کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ ان میں سے کوئی ایک پروگرام بھی آپ کی باجی، امی، نانی یا دادی کے جیسا شستہ، پاکیزہ اور شائستہ ہے؟، کیا اس کی زبان کا لوچ آپ کی باجی کا نعم البدل ہو سکتا ہے، کیا ان کا لہجہ آپ کی امی کے جیسا ہوتا ہے، کیا ان کے ڈائیلاگ آپ کے گھر والوں کے سے ہوتے ہیں۔ ان کا ہنسنا، بولنا، باتیں کرنا، مذاق کرنا، لفظوں کا چناؤ، غرض کوئی ایک بات بھی آپ کو آپ کے گھر کے پاکیزہ ماحول کے مطابق نظر آتی ہے؟۔ آپ سب کا جواب یقیناً نہیں میں ہوگا تو پھر یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ آپ جب بڑے ہونگے تو اپنے بڑوں کی طرح نظر آئیں گے؟۔ کیا ٓپ اسی طرح بولیں گے، ویسے ہی اچھے اچھے الفاظ استعمال کریں گے، بولنے کا انداز گھر والوں کا سا ہوگا، آواز میں وہی مٹھاس اور لہجے میں وہی لوچ ہوگا، ہر انداز خاندانی شرافت کا مظہر ہوگا، لہجے میں شستگی ہوگی، لفظوں میں وہی اٹھان ہوگا، الفاظ دیوار کی طرح چنے ہوئے ہونگے اور آپ کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف میں وہی خاندانی شرافت مہک رہی ہوگی جو آپ کی اپنی تہذیب کی آئینہ دار ہے؟۔ کیاآپ باجی لگ رہے ہونگے، امی کی ادائیں ہونگی اور آپ کی گفتگو میں نانی، نانا، دادا اور دادی والی خوشبو ہوگی؟۔ بس ای لئے میں ہر کہانی میں اپنی باجی کا تذکرہ کرکے ہر باجی سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ وہ اپنے سے چھوٹے ہر بھائی بہن کو اپنے جیسا بنائے، نہایت مہذب، شستہ، شائستہ، اپنے ماحول سے ہم آہنگ اور نیک پارسا اور سمجھدار۔ جب باجیاں اپنے بہن بھائیوں کو اسی طرح وقت دیں گی جیسا ہماری باجی نے ہمیں دیا تو ہم موبائل لے کر اپنی زبان، کردار اور ماحول کو کیوں خراب کریں گے۔
بچو! اب آپ کہانی سنیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سبق آموز کہانی آپ سب بچوں کو بہت پسند آئے گی۔
ایک نوجوان غریب مچھیرا ہوا کرتا تھا۔ بہت نیک سیرت اور خوب صورت۔ والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے اور اسے اس کے رشتے داروں نے پالا تھا۔ جب وہ بڑا ہو گیا تو انھوں نے اس کی شادی اس ہی کے جیسی حیثیت والی ایک لڑکی سے کر دی۔ سچ پوچھیں تو دونوں ہی بہت نیک، اچھی صورت اور اخلاق والے تھے۔ سب ہی ان سے خوش رہتے تھے۔ مچھیرا بھی بہت محنتی تھا اور محنت کرکے ہی ترقی کرنا چاہتا تھا۔ وہ روز مچھلیاں پکڑنے دریا کے کنارے جاتا اور جو بھی اس کی قسمت میں آتا، بازار جاکر اسے فروخت کرتا اور اس سے جو بھی رقم حاصل ہوتی اس سے اپنی ضرورت پوری کرتا۔ دونوں میاں بیوی خوش رہتے اور ان کو دیکھ کر مچھیروں کی بستی والے اور خاص طور سے جن رشتے داروں نے مچھیرے کو پالا تھا وہ تو بہت ہی خوش ہوتے۔ آہستہ آہستہ مچھیرے نے ایک بڑا جال خرید لیا جس میں ایک ہی دن میں اتنی مچھلیاں قابو میں آجایا کرتیں کہ دوچار دن مزید مچھلیوں کو پکڑنے کی ضرورت نہ پڑتی اور آمدنی بھی کافی ہوجاتی جس کی وجہ سے گھر میں مزید خوشحالی بڑھنے لگی جس پر دونوں میاں بیوی بہت ہی خوش تھے۔ ایک صبح جب مچھیرے نے دریا میں پڑا جال دریا سے باہر نکالا تو اس میں ڈھیر ساری مچھلیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ وہ ان ڈھیر ساری مچھلیوں کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا لیکن اسے حیرت اس بات پر تھی ان مچھلیوں میں ایک بہت ہی خوبصورت اور بالکل سونے کی طرح سنہری مچھلی بھی موجود تھی۔ ایسا ہی لگتا تھا جیسے وہ پوری کی پوری خالص سونے کی بنی ہوئی ہے۔ مچھیرے نے سوچا کہ اگر میں اس کو بازار لے کر گیا اورا سے پانی میں زندہ رکھ کر بیچا تو مجھے اس کے منھ مانگے دام مل سکتے ہیں لیکن فوراً ہی اسے یہ خیال آیا کہ یہ تو نایاب مچھلی ہے ایسی مچھلیوں کو مارنا یا بیچنا نہیں چاہیے تاکہ ان کی نسل بڑھے اور دنیا میں ہمارے ملک کا نام ہو۔ یہ سوچ کر اس نے سونے جیسی سنہری مچھلی کو جال سے نکال کر دریا میں پھینک دیا اور دوسری مچھلیوں کو جال سے نکال کر ساحل پر پھینکنا شروع کر دیا۔ ابھی اس نے جال میں سے ایک دو مچھلیاں ہی نکال کر ساحل پر پھینکی ہونگی کہ اس کے کانوں میں ایک خوبصورت آواز آئی۔ شکریہ مچھیرے۔ اتنی خوبصورت آواز تو اس نے آج تک نہیں سنی تھی۔ وہ حیرت سے زیادہ خوف زدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن اسے ساحل پر دور دور تک کوئی نظر نہ آیا۔ اس کے کانوں میں پھر آواز آئی کہ اے رحم دل مچھیرے دریا کی طرف دیکھو، میں یہاں ہوں۔ مچھیرے نے دریا کی طرف دیکھا تو اسے وہی سنہری مچھلی نظر آئی جس کو اس نے دریا میں واپس ڈال دیا تھا۔ مچھلی کو انسانی آواز میں بولتا دیکھ کر پہلے تو وہ ڈرا لیکن پھر سوچا کہ ذرا دیکھیں تو مچھلی اس سے کہنا کیا چاہتی ہے۔ مچھیرے نے اس سے کہا کہ تم کون ہو، مچھلی نے کہا کہ میں در اصل پریوں کی ملکہ ہوں لیکن کبھی کبھی سنہری مچھلی بن کر دریا میں تیرنے آجاتی ہوں۔ مجھے دریا میں تیرنا اور نہانا بہت ہی اچھا لگتا ہے لیکن آج میں تمہارے جال میں پھنس گئی۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے پاکر تم لازماً میری قیمت وصول کرو گے لیکن تم ایک نیک دل انسان ہو اور لالچ تم میں بالکل بھی نہیں اس لئے تم نے مجھے پانی میں واپس پھینک دیا اور میری جان بچ گئی۔ مچھیرے نے کہا کہ جب تم جال میں پھنسی ہوئی تھیں تو تم کیوں نہ بولیں تو سنہری مچھلی نے کہا کہ پانی سے باہر میں بولنے کی صلاحیت اس وقت تک نہیں رکھ سکتی جب تک دوبارہ پری نہ بن جاؤں جس میں ابھی کچھ گھنٹے باقی ہیں۔ میں تم سے بہت خوش ہوں، جب تک زندہ ہوں تمہاری مدد کرتی رہوں گی اور جب بھی تم ساحل پر آکر مجھے پکارو گے میں اگر پرستان میں بھی ہوئی تب بھی مچھلی بن کر تمہاری بات سننے کیلئے آ جایا کروں گی یہ تم سے میرا پکا وعدہ ہے۔ یہ کہہ کر مچھلی نے اللہ حافظ کہا اور پانی میں غائب ہو گئی۔ مچھیرا بہت خوش ہوا اور ڈھیروں مچھلیاں لے کر بازار کی جانب روانہ ہو گیا۔
مچھیرے کی بیوی خوش بھی تھی اور حیران بھی کہ آج کل مچھیرا ڈھیروں پیسے لے کر گھر لوٹتا ہے اور خوش بھی بہت رہتا ہے۔ گھر کی صورت بھی آہستہ آہستہ بدلتی جارہی ہے۔ آمدنی میں اضافے کی وجہ سے گھر میں نئی نئی چیزوں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کپڑے اور پلنگ کی چادریں بھی نئی ہو گئی ہیں۔ ایک دن اس نے پوچھا کہ آخر تمہارے مچھلیوں کے کاروبار میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کیسے ہو رہی ہے۔ مچھیرے نے جواب دیا کہ کہ نہ جانے کیوں آج کل جب بھی میں جال دریا سے نکالتا ہوں، اس میں بیشمار مچھلیاں پھنسی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ سب مچھلیاں بڑی اور عمدہ قسم کی ہوتی ہیں۔ ان کی بازار میں بہت مانگ ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ سب کی سب اچھے داموں فروخت ہو جاتی ہیں۔
(جاری ہے)