مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم

1047

قدسیہ ملک
۔’’اسلام نے تو عورت کو بہت حقوق دیے ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کی آمد کے بعد ہی عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہوئی ہے تو یہ بات بے جا نہ ہوگی۔ اسلام سے پہلے عورت کی کوئی وقعت نہیں تھی‘‘۔ مدرّسہ بڑے پیار سے اپنے نکات درس میں موجود خواتین کو بتا رہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ’’اسلام سے قبل عرب میں لڑکی پیدا ہونا جرم سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی پیدا ہوتے ہی زمین میں دفنا دی جاتی۔ بعض تہذیبوں میں مرد کی زندگی میں تو عورت کو حقوق حاصل ہوتے تھے، لیکن مرد کے انتقال کے بعد عورت کی حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتی، بعض اوقات تو وہ بھی مرد کے ساتھ زندہ جلا دی جاتی۔ کہیں پر سرِعام بازاروں میں عورت کی فروخت ہوتی، تو کہیں مذہب کے نام پر عورت کا استحصال کیا جاتا تھا۔ گھریلو عورت کی حیثیت ایک باندی، غلام، نوکرانی جتنی بھی نہ تھی۔ اسلام نے عورت کو بے پناہ حقوق دیئے۔ دینِ اسلام کے بعد عورت صحیح معنوں میں اپنے حقوق سے آشنا ہوئی۔ ماں ہے تو اس کے پیروں تلے جنت، اور باپ سے تین درجہ زیادہ رتبہ ملا۔ بیوی ہے تو اس کو ایک درجہ کم مردوں سے برابری کے حقوق حاصل ہوئے۔ بہن ہے تو جائداد میں حصہ، بیٹی ہے تو جائداد کی وارث، بیوی ہے تو سکون کا ذریعہ اور مرد کی جائداد کی حق دار قرار پائی۔ دینِ اسلام ہی کی بدولت عورت اپنے حقوق سے آشنا ہوئی ہے۔ قرآن میں سورہ نساء عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہی نازل کی گئی۔ اسلام نے تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حقِ ملکیت عطا کیا ہے۔ عورت نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مکمل بلا شرکت غیرے مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتے داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے‘‘۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جو کوئی نیک عمل کرے گا، وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی‘‘ (النساء124)۔ یہ سب حقوق عورت کو اس لیے دیئے گئے ہیں کہ وہ دوسرے تمام محاذوں سے بے فکر ہوکر اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرسکے، اپنے گھر کو مضبوط قلعہ بناسکے۔ ایسا مضبوط قلعہ کہ کوئی بھی اس قلعے میں نقب لگاکر اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے شوق کی تکمیل نہ کرسکے۔ اسے معلوم ہو کہ یہ ایک مسلم عورت کا مضبوط گھرانا ہے۔ اس لیے ہم عورتوں کو زیادہ سے زیادہ دینِ اسلام کی تعلیمات کو اپنے گھروں میں نافذالعمل کرنا ہے۔ اپنے شب و روز کو اسلامی طرز میں ڈھالنا ہے۔ ہمارا اللہ ہم سے کیا کہہ رہا ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے فارغ اوقات میں زیادہ سے زیادہ قرآن کو ترجمہ اور تفہیم سے پڑھنا چاہیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ہمارا معبود ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے گھرانے کی، اپنے بچوں کی، اپنی اسلامی تہذیب کی حفاظت کرنے والا بنادے، آمین‘‘۔ مدرسہ نے یہ کہہ کر مائیک ایک دوسری خاتون کی جانب بڑھادیا، جنہوں نے سب کے لیے دعا کی۔ پروگرام کے اختتام پر خاتونِ خانہ نے مختلف لوازمات رکھے تھے، جو اس نے پیٹ بھر کر کھائے اور سکون سے بچوں کو لے کر گھر آگئی۔ وہ آج بہت مطمئن تھی۔ وہ روز روز اپنی مظلومیت کا رونا سن سن کر تھک سی گئی تھی، اسی لیے اب وہ اپنے اس محدود حلقے میں جانے سے کترانے لگی تھی۔ اس کی بدزبانی کے باعث اس کا شوہر اسے زبانی اور ذہنی تشدد کے ساتھ ساتھ کبھی جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بناتا۔ ایک دن وہ ناامید ہوکر قریب ہی واقع زچہ بچہ سینٹر چلی گئی، جہاں اس کی ملاقات عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی کارکن سے ہوئی۔ اس نے اپنے تمام دکھڑے اسے کہہ سنائے، لیکن اپنی زبان درازی اس کے سامنے حذف کرلی۔ لیکن حیرانی تو اُسے اُس وقت ہوئی جب ایک دن اس کے گھر پر پولیس کے ساتھ ساتھ کیمرا مین حضرات، خواتین کی تنظیم کی صدر اور وہ کارکن موجود تھی۔ وہ چیخ چیخ کر بات کررہے تھے۔ ان آوازوں سے اس کا چھوٹا بچہ اٹھ کر رونے لگا۔ ’’جی بی بی بتایئے آپ کے شوہر نے آپ کو کیسے زدوکوب کیا؟‘‘ یہ ایک رپورٹر تھا جو اس سے مخاطب تھا۔ وہ چلّا کر بولی ’’سنیں، مجھے کسی نے زدو کوب نہیں کیا۔ آپ لوگ یہاں سے جاسکتے ہیں‘‘۔ اس نے اُس دن کے بعد اس حلقے کو خیرباد کہہ دیا اور قریب ہی درسِ قرآن کے حلقوں میں شامل ہوگئی تاکہ اس کے گھر کے ساتھ ساتھ اس کا دین بھی محفوظ رہ سکے۔ ہر ہفتے وہ لوگ کسی خاتون کے گھر درس کی محفل رکھتے، جس کے باعث وہ قرآن کی سورتوں سے آشنا ہوتی چلی گئی۔ آج بھی ایک خاتون کے گھر درس تھا۔ وہ درس سن کر گھر آگئی اور کھانا بنانے لگی۔ اس کا شوہر اسی مخصوص انداز میں گھر آتا… بدتمیزی، بچوں سے مار دھاڑ… لیکن اب اسے کچھ نہ کہتا، کیونکہ وہ بالکل خاموشی اختیار کیے رہتی۔ البتہ اس کے جانے کے بعد وہ نمازِ حاجت پڑھ کر خوب روتی اور صرف اللہ سے فریاد کرتی۔ اسے ان دروس کے باعث یہ بھی آگہی ملی تھی کہ عورت کا اصل محافظ اس کا دین اسلام ہے۔ وہ رب کا شکر ادا کرتی کہ اسے اللہ نے اسلام کی نعمت سے مالامال کیا۔
ایک حالیہ عالمی سروے کے مطابق بھارت خواتین کی اسمگلنگ اور اُن کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے، جہاں جسم فروشی، ملازمت اور جبری شادی کے لیے خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے اس سروے میں دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ساڑھے پانچ سو ماہرین نے حصہ لیا۔ سروے کا مقصد خواتین کے حقوق کی صورتِ حال اور اُن کی اسمگلنگ کے حوالے سے ایسے ممالک کا پتا لگانا تھا جہاں انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں اُن کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ادارے نے گزشتہ رپورٹ 2011ء میں جاری کی تھی۔ اُس برس کی درجہ بندی کے مطابق خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے افغانستان پہلے نمبر پر تھا، جب کہ جمہوریہ کانگو، پاکستان، بھارت اور صومالیہ بالترتیب دوسرے سے پانچویں نمبر پر رہے تھے۔ اس تازہ جائزے میں بھی ماہرین سے پوچھا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کون سے ارکان خواتین کی صحت، بہبود، اقتصادی وسائل، رسوم و رواج، جنسی و غیر جنسی تشدد اور اسمگلنگ کے حوالے سے بدترین ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق رواں برس 26 مارچ سے 4 مئی کے درمیان کیے گئے اس سروے کے مطابق عورتوں کے حقوق کی خراب صورت حال کے حوالے سے بھارت اوّل نمبر پر ہے جہاں 2012ء میں 23 سالہ لڑکی کے گینگ ریپ اور ہلاکت کے واقعے کے بعد خواتین پر ہونے والے حملوں میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ دن بدن اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت کو تین وجوہات کی بنا پر خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ ایک تو جنسی ہراسگی اور جنسی تشدد کے خطرات جن کا سامنا بھارتی خواتین کو آئے روز کرنا پڑتا ہے، دوئم سماجی اور روایتی رسوم و رواج، اور تیسری وجہ خواتین، لڑکیوں اور بچیوں کی اسمگلنگ ہے جس کے تحت انہیں جبری شادی، جنسی غلامی اور گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بھارت میں عورت پر تشدد ایک عام سی بات ہے۔ عورتوں پر تشدد کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں مثلاً خواتین کی تجارت، اعضا کی بریدگی، خواتیں کو جلانا، غیرت کے نام پر قتل، ملازموں جیسی زیادتی یا اغوا کرکے زیادتی کرنا وغیرہ۔ مگر ان تمام مظالم کی ابتدا گھریلو تشدد سے ہی ہوتی ہے۔
اُس نے ایک دفعہ اپنی درس والی باجی سے گھریلو تشدد کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا’’عام طور پر گھریلو تشدد کی چند اہم وجوہات میں تعلیم کی کمی، محدود، پرانے اور غیر عادلانہ نظریات پر مشتمل ذہنیت، گھر کے سرپرست افراد کی جاہلیت اور حقوقِ نسواں سے بے اعتنائی،غربت و افلا س، لڑکی اور لڑکے کی مرضی کے خلاف شادی جو کہ گھریلو ناچاقی کا باعث بنتی ہے، حقوق سے ناواقفیت، بے جا پابندیاں، اسلام سے دوری اور تقویٰ کا خاتمہ، عورتوں کو فرماں بردار بنانے کی خواہش، شکوک و تردد کی بنا پر تشدد وغیرہ شامل ہیں۔ تم اپنے ماحول کو صاف رکھو، اپنے بچوں کی پرورش اس انداز سے کرو کہ وہ معاشرے کے مثبت شہری بن سکیں۔‘‘
اس دن وہ شام کو گھر آئی، گھر کے تمام کام سمیٹ کر قرآن کھول کر پڑھا۔ سورۃ النساء نکالی اور بیٹھ کر عربی پڑھنے لگی۔ اس کے پاس ترجمہ والا قرآن نہیں تھا۔ اُس نے جلدی جلدی چھوٹے بیٹے عدنان کے بستے سے پنسل نکالی اور پرانی کاپی لے کر عربی کے الفاظ نوٹ کرنے لگی۔ وہ چاہتی تھی کہ ان الفاظ کے معنی جلد از جلد اپنی درس والی باجی سے پوچھے۔ شام میں وہ نیچے والے فلور پر درس والی باجی کے ہاں گئی۔ انہوں نے ان الفاظ کو پڑھا اور ان کے معنی بتادیئے۔ پہلی ہی آیت میں اللہ نے عورت مرد دونوں کو تزکیہ نفس اوراپنے محاسبے کی دعوت دی تھی۔ وہ پڑھ رہی تھی ’’اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو، اور رشتے داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو۔ بے شک اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔‘‘
اس نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ چاہے میری بیٹی ہو یا بیٹا… میں اس کی بہترین پرورش کروں گی۔ میں اپنے کنبے کو دینِ اسلام کی مکمل آگہی دوں گی تاکہ میری آئندہ آنے والی نسل اسلام کی اصل کو لے کر اللہ کے نائب کا فریضہ بحسن و خوبی ادا کرسکے۔

حصہ