روداد ایک ادبی نشست کی

1067

صبیحہ اقبال
ادبی محافل اگرچہ زبان اور تہذیب کو زندہ رکھتی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کی صحت مندی کی فکر بھی رکھتی ہیں۔ تعمیری ادبی محفلیں ایک طرف زبان کی ترقی و ترویج کا ذریعہ ہوتی ہیں تو دوسری جانب ان کی بڑی خوبی معاشروں پر چھائے جمود کو توڑنا بھی ہوتا ہے۔
’’حریم ادب‘‘ کے نام سے بننے والی تنظیم کا مقصد اسلامی ثقافت اور زوال پذیر معاشرتی اقدار کو فروغ دینے کے لیے قلم اٹھانا اور مسلسل اٹھائے رکھنا ہے۔ بے شک درمیان میں کچھ عرصے تعطل کا شکار ہوئی، لیکن آپا اُم زبیر، اُم اکبر آپا، بنت السلام بہن، عذرا جمال بہن، فریدہ ظہیر صاحبہ اور عقیلہ اظہر کی محنتوں اور کوششوں سے بوئے گئے بیج آج الحمدللہ تناور درخت ہیں، اور یہاں سے وہاں تک نئے لکھنے والوں کو اپنی ٹھنڈی چھائوں فراہم کررہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک نشست محترمہ غزالہ عزیز صاحبہ جنرل سیکریٹری حریم ادب کے تعاون سے مدرسہ فرقانیہ میں 27 جولائی کو منعقد ہوئی، جس میں آسیہ بنتِ عبداللہ مصنفہ ناول ’’دل شکن‘‘اور افسانوں کے مجموعے کی قلم کار بھی تشریف لائیں، جو قلم کاروں کے لیے باعثِ مسرت امر تھا۔
دیگر قلم کاروں میں امت السلام آپا (واضح رہے یہ آپا کا لاحقہ ہم اُن کی دینی فہم و فراست کے اعتراف میں احتراماً لگاتے ہیں)، محترمہ غزالہ اسلم، رفعت فرقان صاحبہ، آپا ممتاز صاحبہ، فہمیدہ باجی صاحبہ، حور مختار بہن، سلمیٰ مدثر، قمر جہاں قمر اور راقم الحروف نے شرکت کی۔
بوجوہ تمام ساتھی اپنی نگارشات نہ لاسکیں لیکن پھر بھی لانے والوں کی تحریروں سے نشست سج گئی۔ آپا امت السلام کی دل کو چھوتی ہوئی تحریر ’’اسٹیج ڈراما‘‘ جس میں آخرت کے تصور کو بڑی دل کشی کے ساتھ سامنے لانے کی کوشش کی گئی تھی، قلم کار کے مصلحِ معاشرہ ہونے کی تصدیق تھی۔ اسٹیج ڈراما گو کہ افسانوی صورت میں نہ تھا لیکن اثرپذیری میں افسانہ ہی لگتا رہا۔ ہم میں سے ہر ایک، ایک کردار ہے جو زندگی کے اسٹیج پر اپنی اپنی کارکردگی دکھا رہا ہے، لیکن اس کردار کے خاتمے پر نہ تو تالیاں بجائی جاتی ہیں، نہ ہی ایوارڈ ملتے ہیں، اور نہ پھولوں کے ہار زیبِِ گردن ہوتے ہیں، بلکہ کفن پہناکر روتے ہوئے رخصت کردیا جاتا ہے۔
سامعین کا خیال تھا کہ چونکہ اچھے کردار کی ادائیگی کا ایوارڈ بھی فی الفور نہیں ملتا بلکہ اس کا انتظار ایک غیر معینہ مدت (قیامت) تک کرنا ہے، جب کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے، اس لیے اس کردار کی بھرپور عکاسی انسان کے کردار میں نہیں ہو پاتی، انسان اپنے کردار میں حقیقی رنگ بھرنے میں لاپروائی کا شکار نظر آتا ہے۔
غزالہ اسلم نے اپنا طویل افسانہ پیش کیا جو زمینی حقائق کا عکاس تھا۔ ایک ایسی عورت کی کہانی جس کا شوہر نشئی تھا، اور پھر بیٹا بھی وراثت میں وہی مرض پاتا ہے۔ کہانی میں زندگی رواں دواں نظر نہیں آتی بلکہ سسکتی ہے۔
آسیہ آپا کا تبصرہ تھا ’’قلم کی روانی قابلِ ذکر ہے‘‘، لیکن کچھ تنقید نگاروں کے بقول غیر ضروری طوالت کا احساس ہوا، کیوں کہ ادب کا اصول ہے: نہ اتنی طوالت جو گراں گزرے، نہ اتنا اختصار کہ بات سمجھ نہ سکو۔ بہرحال کرداروں کے مکالمے اور حقیقی انداز نے سب کو محظوظ کیا۔
دو شعری مجموعوں کی شاعرہ قمر جہاں قمرؔ نے آخر میں اپنی تازہ غزل:

ساون رت کا موسم آنکھوں میں ٹھہر گیا
جیسے کوئی راہی راہ میں ٹھہر گیا

نے سب سے داد وصول کی۔ شرکاء نے تبصرہ کیا کہ آپ کے پہلے کلام کے مقابلے میں تازہ غزل میں بہت گہرائی نظر آتی ہے۔ ان کی غزل کا مقطع تھا:

جب سے ہوا وہ رخصت میرے گھر سے قمرؔ
میرے دل میں دکھوں کا موسم ٹھہر گیا

بے حد اصرار پر انہوں نے ایک اور غزل

آگ پانی میں پھر لگا کے چلے
ِمجھ کو جو بھی ملے رُلا کے چلے

سنائی۔آخر میں قمر جہاں قمرؔ نے اپنا نعتوں کا مجموعہ کلام ’’صدائے قمر‘‘ اور حمد باری تعالیٰ کا مجموعہ ’’ندائے قمرؔ‘‘ صدرِ مجلس کو پیش کیا، اور قلم کی اثر پذیری و آبیاری کی دعا کے ساتھ یہ مختصر سی نشست اختتام کو پہنچی۔

حصہ