آج ادب اپنے قاری سے محروم ہے

1150

شاعر، مصور، مترجم اور نیوز کاسٹر شہاب الدین شہاب سے جسارت میگزین کی گفتگو

طارق رئیس فروغ
شہاب الدین شہاب ایک خوبصورت شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصور ، مترجم اور ٹی وی اور ریڈیو کے ایک معروف نیوز کاسٹر بھی ہیں۔ شکارپور سندھ سے تعلق کی بناء پر شہاب الدین شہاب کو اردو کے ساتھ ساتھ سندھی زبا ن پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔
شہاب الدین شہاب کی جسارت سے ہونے والی گفتگو نذر ِ قارئین ہے:
جسارت میگزین:اپنی ابتدائی زندگی ، تعلیم اور ادب سے رغبت کے بارے میں کچھ فرمائیے۔
شہاب الدین شہاب:میری پیدائش سندھ کے شہر شکارپور میں 1956ء میں ہوئی۔ آبائی تعلق بریلی اور رام پور سے ہے۔ دادا، والد اور چچا وہاں سے ہجرت کرکے شکارپور سندھ میں آباد ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم شکار پور ہی میں حاصل کی۔1972ء میں سیاسی اور سماجی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے بہت سے خاندان کراچی منتقل ہوگئے جن میں ہمارا خاندان بھی تھا۔ چونکہ بچپن شکارپور سندھ میں گزرا، گھر میں ہم اردو بولتے تھے اور باہر سندھی بولتے تھے۔ اس طرح مجھے اردو اور سندھی دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا۔ اردو اور سندھی سنگت کے تحت مشاعرے اور نشستیں ہوتی تھیں۔ اردو اور سندھی کے شاعر اور ادیب ایک دوسرے کے کاموں سے واقف تھے اور ایک دوسرے کو سراہتے تھے۔ اس سلسلے میں پروفیسر آفاق صدیقی نے اپنی خوبصورت یادداشتوں میں اس زمانے کی پوری تصویر کشی کرتی ہیں۔ بہت ساری مشہور شخصیات شکار پور سے سیاست اور ادب میں آئی ہیں۔ ان میں ایک مشہور نام معروف سندھی ادیب شیخ ایاز کا نام بھی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شعر کہنے کی ابتداء کہاں سے ہوئی تو اس سلسلے میں یہ کہوں گا کہ میرے ایک چچا انور بریلوی تھے ۔ جن کا شمار استاد شعراء میں ہوتا تھا۔ان کا ایک مجموعہ سنجیدہ شاعری کو کُن کے نام سے شائع ہوا تھا۔ویسے ان کی شہرت مزاح نگار کی حیثیت سے تھی۔ وہ خود شیوا بریلوی کے شاگرد تھے گویا ایک طرح سے عارف عثمانی کے استاد بھائی ۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ شکارپور میں ایک ادبی ماحول تھا۔ مجھے مثالی اساتذہ ملے ۔ ان اساتذہ کی دی ہوئی تعلیم اور کچھ اس ماحول کے نتیجے میں ادب کا ذوق و شوق پیدا ہوگیا تھا۔ جب میں نے شعر کہنا شروع کیا تو زانوئے تلمذ انور بریلوی کے سامنے ہی طے کیا۔ چھٹی جماعت سے ہی ذہن مصوری کی راغب تھا۔ اور میں نے چھٹی جماعت ہی میں پہلا پورٹریٹ بنایا تھا۔ اس کے بعد مزید پورٹریٹ بنائے ۔میرے اسکول پرنس کریم آغاخاں شکارپور کی دیواروں پر میری بنائی ہوئی پینٹنگز لگی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک پورٹریٹ بنایا تو شعر ہوگیا۔ اس طرح شاید وہ ہی میرا پہلا شعر تھا۔’’ ایک معصوم وحسین و دلکش رنگیں خیال؍ جنبشِ دستِ مصور سے بنا ہے لازوال۔ اس کے علاوہ مجھے افسانے اور سائنس فکشن سے بھی لگائو رہا۔ نویں جماعت میں سائنس فکشن تحریر کیا اس سے پہلے ایک افسانہ لکھا تھا۔ پھر شاعری کی طرف سفر شروع کیا۔
جسارت میگزین:کیا آپ نے شکار پور کے زمانے میں نشستوں یا مشاعروں میں شرکت کی تھی۔
شہاب الدین شہاب:شکار پور کی ایک ادبی شخصیت ظہور بھائی تھے۔ جن کے ہاں بیٹھک ہوتی تھی، جہاں ہم بھی بطور طالب علم شرکت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ محمود احمد مودی اور صنم انبالوی تھے جو ہم سے تین چار سال سینئر تھے۔ وہ کالج میں پڑھتے تھے اور شعر کہا کرتے تھے۔ اس طرح جب کراچی آنا ہوا تو ادبی ذوق و شوق ساتھ آیا۔
جسارت میگزین:کراچی آنے کے بعد آپ کی بیٹھک کن احباب کے ساتھ رہی۔
شہاب الدین شہاب:چونکہ علم کی طلب کا رجحان تھا اس لیے کراچی آنے کے بعد ایسے افراد کی تلاش رہی جن سے حصول علم ہوسکے۔ کراچی ایک خوش قسمت شہر تھا کہ اس زمانے میں بڑی تعداد میں نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ہماری رہائش انچولی میں تھی۔ ہمیں پتا چلا کہ کچھ ہی فاصلے پر سلیم احمد صاحب کے ہاں نشست ہوتی ہے۔ اور ہر منگل کو شہر کے تمام جید ادیب اور شاعر وہاں جمع ہوتے ہیں۔ہم بھی بطور طالب علم ایک وہاں ایک گوشے میں جاکر بیٹھنے لگے۔ اس نشست میں گفتگو ہوتی تھی اور تخلیقات پڑھی جاتی تھیں ان سے ہم سیکھتے تھے۔ پھر قمر جمیل صاحب کے ہاں نشستوں کا سلسلہ رہا جہاں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میرے ایج گروپ کے بہت سارے لوگ ایک ساتھ شعر کہہ رہے تھے۔ یہ اسّی کی دہائی تھی۔ لیاقت علی عاصم تو ہم سے سینئر تھے۔ ہمارے ساتھ جو احباب شعر کہہ رہے تھے ان میں جاوید صباء، عقیل عباس جعفری، شاداب احسانی، سہیل احمدتھے۔ دبستان کورنگی میں اختر سعیدی، شاداب احسانی ، عزم بہزاد تھے۔ جبکہ ملیر میں راشد نور، اقبال خاور ، عشرت آفریں ، عارف امام، حسنین جعفری، احمد نوید، وغیرہ۔ اس زمانے میں کئی جگہوں میں مشاعروں اور نشستوں میں جانا ہوتا تھا۔ زاہد حسین زاہد ہم سے سینئر ہیں وہ ملتان سے شعر کہتے ہوئے آئے تھے ، ادبی دنیا میں بہت متحرک نام ، خاص طور سے تنقید کے حوالے سے زاہد حسین کا نام بہت اہم ہے۔ پھر فیڈرل بی ایریا میں کچھ شاعروں نے مل کر کریٹیو سرکل کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنائی ۔ جس میں کئی لوگ تھے آصف صدیقی،علی وجدان، سہیل احمد، جاوید صبا، عقیل عباس جعفری، محمد اشفاق۔ ہوٹل درویش آباد اور سپر وے ، ڈیلکس ہوٹل میں ہماری بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ ذیشان ساحل بھی اس زمانے میں بہت اہم نام تھا خاص طور سے نثری نظم کے حوالے سے۔ ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت زرخیز دور تھا۔ اسّی یا اِکیاسی میں سلیم احمد کی زیر صدارت ڈائو میڈیکل کالج میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا تھا۔ اس کے بعدسب کی اپنی اپنی مصروفیات ہوگئیں۔ملاقاتیں کم کم ہوگئیں۔1986ء میں دبستان لوح و قلم کے نام سے ایک تنظیم نے طویل تعطل کے بعد پہلا پاک و ہند مشاعرہ کرایا تھا ، جس میں میزبانی کا فریضہ بھی میں نے ادا کیا تھا۔ جو کہ ہاشو آڈیٹوریم میں ہوا تھا۔جس میں خمار بارہ بنکوی سے لے کر تازہ کار شعراء شریک ہوئے تھے۔ 1988میں ہندوستان جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں چند نشستیں اوربمبئی میں ایک بہت بڑے کُل پاک و ہند مشاعرے میں شرکت کی۔
جسارت میگزین:مصوری کا شوق آگے بڑھا یا نہیں۔
شہاب الدین شہاب:مجھے یاد ہے کہ آخری پورٹریٹ اسکیچ میں نے 1988میں بنایا تھا اس کے بعد موقع نہیں مل سکا اور مصروفیت کے باعث سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ میرا خیال ہے کہ تخلیقی جوہر جب آپ کے اندر ہوتا ہے تو وہ مختلف ہئیتیں اور فارم تلا ش کرتا ہے۔ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ تخلیقی اظہار کے لیے آپ مختلف میڈیم استعمال کرتے ہیں اور کسی ایک میڈیم میں جس میں آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ آپ کا تخلیقی اظہار ہو پارہا ہے، اسے پھر اختیار کرلیتے ہیں۔ اور باقی میڈیم جو آپ نے کبھی اختیار کیے تھے وہ پس ِ پشت چلے جاتے ہیں۔
جسارت میگزین:آپ کس صنف سخن کو زیادہ پسند فرماتے ہیں۔
شہاب الدین شہاب: بات یہ ہے کہ میں زود گو کبھی نہیں رہا۔ کم کم لکھا۔ غزل بھی کم لکھی ، نظم بھی کم لکھی۔ ہائیکو بھی لکھی۔ یہ تین میڈیم ہیں جن کو میں نے اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔
جسارت میگزین:ہائیکو کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔
شہاب الدین شہاب: اردو نے دوسری زبانوں سے آنے والی بہت ساری اصناف کو اپنے اندر جذب کیا۔ ہمارے ہاں جب مثنوی لکھی جارہی تھی اور پھر اس کی ایکسٹینشن میں نظم لکھی جارہی تھی تو اس زمانے میں ہمارے ہاں سانٹ بھی آئی، نظم معریٰ بھی آئی، نظم آزاد بھی آئی، ہمارے ہاں ترائیلے بھی آیا۔اسی طرح جاپان سے ہائیکو کی صنف آئی۔ جن شعراء کا رجحان مناظر فطرت کی طرف زیادہ تھا، انھوں نے ہائیکو کو اپنے مزاج سے قریب پایا اور انھوں نے ہائیکو لکھنا شروع کردیا۔ ہائیکو مجھے شاید زیادہ سوٹ کرتا تھا اس لیے کہ مزاج میں نیچر کی طر ف ایک رجحان ہے ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جاپانی ہائیکو کے جواصول اور تقاضے ہیں اس سے قریب رہ کر روایتی ہائیکو کہہ سکوں۔ تجربے ان کے ہاں بھی بہت ہوئے ہیں،بہت تبدیلیاں اس میں آئی ہیں۔ جیسے’ باشوجو اُن کا ماسٹر پوئٹ کہلاتا ہے، اس کے ہاں یہ اہتمام بھی تھا کہ ہائیکو میں منظر ہو لیکن اس کے ایک زیریں معنیٰ یا انڈر کرنٹ بھی ہو۔ تاکہ جب اسے پڑھا جائے یا سنا جائے تو اس کے دوسرے معنیٰ بھی کھلیں۔ لیکن بعد میں شکی او ربوساں وہ شاعر ہیں جنھوں نے اس اہتمام کو اختیار نہیں کیا۔ نیچر پر ان کی بہت مضبوط گرفت تھی۔بنیادی طور پر ہائیکو فطرت کے حُسن کی تصویر کشی ہے۔ وہاں تو لوگ اس کے لیے باقاعدہ مراقبہ کرتے ہیں اور سفر کرتے ہیں۔ مناظر کو دیکھتے ہیں ، اسے اپنی روح میں جذب کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس کو اظہار میں لاتے ہیں۔ پھر ان کے ہاں ایک پابندی ’کی گو‘ kigoکی بھی ہے۔ یعنی ایسا لفظ بھی ہونا چاہیے جو اشارہ کرے کہ ہائیکو کس موسم میں تحریر کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں مختلف شعراء نے اس میں وسعت بھی پیدا کی۔ حمدیہ ہائیکو، نعتیہ ہائیکو وغیرہ۔ چونکہ ہمارے ہاں غزل کے مضامین زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ اس لیے بیشتر شعراء نے یہ بھی کیا کہ غزل کے مضامین کو ہائیکو میں شامل کیا۔ لیکن کچھ شعراء نے یہ اہتمام کیا کہ ہائیکو کی جو اساس ہے اس سے جڑے رہیں۔ اردو میں بڑی وسعت ہے۔ ہائیکو کے اوزان پہ بہت ساری بحثیں بہت دن تک چلتی رہیں۔ پھر دبستان کراچی میں ہائیکو کا وزن طے ہواجو کہ فعلن فعلن فعلن فاہے۔ یہ طے ہوا کہ اسی پر ہائیکو کہے جائیں گے ۔ہائیکو سترہ سیلیبل کی نظم ہے۔ پہلے مصرعے میں پانچ سیلیبل، دوسرے مصرعے میں سات سیلیبل اور تیسرے مصرعے میں پانچ سیلیبل ہوںگے۔اگرچہ جاپان کی دیگر اصناف ’واکا ‘اور’ نانکا‘ دو اصناف آئیں، وہ بھی ہمارے ہاں لکھی گئیں۔ لیکن ہائیکو کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ جاپانی کلچرل سینٹر کراچی میں سالانہ ہائیکو مشاعرے ہوتے تھے جس سے ہائیکو بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ جہاں شعراء نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔
جسارت میگزین:آپ ہائیکو کا مستقبل پاکستان میں یا اردو ادب میں کیسا دیکھتے ہیں۔
شہاب الدین شہاب: جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ پاکستان میں یا اردو زبان میں ہائیکو کا مستقبل کیا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جو گاہے بہ گاہے مختلف اصناف کے سلسلے میں اٹھتا رہا ہے۔ مثلاً جب سانٹ لکھا جارہا تھا ، یا دیگر ترائیلے اور نثری نظم کے بارے میں بھی یہ سوالات اٹھے۔ کہ اردو زبان میں تو نثری نظم کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کا تو کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ لیکن نثری نظم لکھی جاتی رہی۔ اور بعض شعراء نے اتنی اچھی نثری نظمیں لکھیں کہ وہ خود اپنے ہونے کا جواز ہیں۔ اسی طرح عمدہ ہائیکو لکھے گئے ہیں۔ جو کہ اس صنف کے اردو زبان میں ہونے کا جواز ہیں۔ یہ فیصلہ تو بعد میں ہوگا کہ کون سی صنف باقی رہتی ہے اور کون سی صنف کی اردو زبان میں گنجائش نہیں بنتی۔ میرا خیال ہے کہ اچھی تخلیقات جن کی ہئیت کوئی بھی ہو، وہ زندہ رہتی ہیں۔ اور وہ خود اپنے ہونے کا جواز ہوتی ہیں۔
جسارت میگزین:غزل اور نظم کے مقابلے میں ہائیکو اور نثری نظم عام قاری تک نہیں پہنچ پارہیں یا ان کی مقبولیت ابھی کم ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں۔
شہاب الدین شہاب:ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں ادب پڑھا جاتا تھا۔ انٹرٹینمنٹ کے بہت زیادہ ذرائع اس وقت موجود نہیں تھے اور لوگوں کے پاس وقت تھا۔ لوگ سنجیدگی سے ادب کا مطالعہ کرتے تھے۔ حتیٰ کہ مردوں کے علاوہ گھروں میں خواتین بھی رسائل و جرائد میں ادب پڑھتی تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ جب رجحانات تبدیل ہوئے تو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ قاری غائب ہوگیا ہے اور اب جو ادب لکھا جارہا ہے اس کا قاری کہاں ہے۔ اس کو تلاش کیا جائے۔ میرا خیال یہ ہے کہ بدلتے ہوئے رجحانات کے ساتھ ہم نے قاری کی تربیت نہیں کی۔ اور اسے بدلتے ہوئے رجحانات سے آگا ہ نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب نئے رجحانات آئے تو قاری جو پرانے رجحان کے تحت تخلیق کردہ ادب پڑھنے اور سننے کا عادی ہوچکا تھاوہ کہیں پیچھے رہ گیا۔ اس نے کہا کہ یہ جو نئی تخلیقات یا نئی ہئیتوں میں لکھا گیا ادب ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ فرانس، امریکہ اور انگلستان میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ ادب میں آنے والی نئی تحریکوں اور رجحانات سے قاری کو مکمل آگاہی فراہم کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہے اور پڑھی بھی جاتی ہے کیونکہ اس کا قاری موجو د ہے۔ یعنی اس تربیت کی ضرورت ہے۔
جسارت میگزین:آج کل اردو ادب میں کی جانے والی تنقید کے بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں۔ کیا آپ ان سے مطمئن ہیں۔
شہاب الدین شہاب:جو تاثراتی یا تقریباتی مضامین پڑھے یا لکھے جاتے ہیں ، اسے تنقید کا درجہ تو نہیں دیا جاسکتا۔ ہاں البتہ تنقید ہمارے ہاں لکھی جارہی ہے، اس پر سنجیدہ کام ہورہا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ تخلیق اوّلیت رکھتی ہے، تنقید ہمیشہ اس کے پیچھے چلتی ہے۔ ہمارے ہاں ناقدین نے اس میں خاصا کام کیا ہے۔ لیکن مزید کام ہونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
جسارت میگزین:اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی اہمیت پر آپ کی کیا رائے ہے ۔
شہاب الدین شہاب:ترقی پسند تحریک جو ہمارے ہاں آئی وہ 1935-36 کا دور ہے۔سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے اس کا منشور مرتب کیا اور ادب میں اس کے گول بھی مقرر کیے گئے۔ جس کے تحت عوامی مسائل اور عوام سے جڑے ہوئے معاملات کو ادب میں سر ِ فہرست رکھا جائے گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ ادب ہمیشہ سے آزاد رہاہے ، ادب کسی منشور کے تحت نہیں لکھا جاسکتا۔ اس لیے جو ادبی ترقی پسند تحریک سے پہلے لکھ رہے تھے اور انہوں نے ترقی پسند تحریک سے اتفاق کرتے ہوئے اس سے اپنا تعلق بھی قائم کرلیا۔ لیکن جو ادب تخلیق ہورہا تھا اور جو اس کے بعد ہوا، وہ بڑے ادیب اس تحریک سے پہلے بھی بہت اچھا لکھ رہے تھے اور اس کے بعد بھی بہت اچھا لکھتے رہے۔ البتہ چند ادیبوں کے استثنا ء کے ساتھ انھوں نے ترقی پسند تحریک کے منشور کے تحت اپنی تحریروں میں ان موضوعات کا نعرہ لگایا لیکن ہمارے نقاد نے اس تخلیق کو ہمیشہ ثانوی درجہ دیا۔ اس تحریک کے بعد جو ادب تخلیق ہوا دراصل وہ ان بڑے لکھنے والوں کا زیادہ مرہون ِ منّت تھا ، نہ کہ ترقی پسند تحریک کا۔ ترقی پسند تحریک کے بعد جو ادب ہمارے ہاں تخلیق ہوا ہے چاہے وہ فکشن ہو چاہے وہ شاعری ہو، اس کا قاری بڑے وسیع پیمانے پر موجود تھا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ بہت سارے سماجی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ وہ پڑھنے لکھنے کا دور تھا، جب ادب کو وسیع پیمانے پر پڑھا اور سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جو سماجی تبدیلیاں ہمارے ہاں آئی ہیں اس سے لوگوں کی ترجیحات تبدیل ہوگئیں۔ اطلاع اور ابلاغ کے بہت سارے دیگر ذرائع آگئے۔ اس سے بھی ہمارا قاری متاثر ہوا۔
جسارت میگزین:آپ ایک بہترین براڈکاسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر آپ اپنے خوبصورت انداز میں خبریں پڑھا کرتے تھے۔ اس بارے میں کچھ فرمائیے۔
شہاب الدین شہاب:جو بچپن اور لڑکپن کا زمانہ تھا وہ ریڈیو کادور تھا۔ ٹیلی ویژن اس وقت تک نہیں آیا تھا۔ جب ریڈیو سننے کا اتفاق ہوتا تو عجیب سا احساس ہوتا، بعض آوازیں بہت متاثر کن ہوتیں۔ میں اکثر ایسے اسٹیشن لگا لیا کرتا تھا جن کی زبان میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ جیسے عربی، فارسی ، جرمن نشریات وغیرہ۔ اسی لیے آوازوں سے دلچسپی بچپن ہی میں ہوگئی تھی۔ بہرحال دوستوں کے مشورے پر ریڈیو تک رسائی حاصل کی اور آڈیشن دیا۔ ابتداء میں سندھی اناونسمنٹ کے لیے میری آواز ایپرو ہوگئی، اور اناونسمنٹ شروع کردیا۔ اسی دوران ٹی وی جانا ہوگیا اور ایک سندھی پروگرام میں شرکت کی۔ پھر مجھے مشورہ دیا گیاکہ آپ کی آواز خبروں اور دستاویزی پروگراموں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اسّی کی دہائی میں انجمن جدید مصنفین کی نشستیں باقاعدگی سے ہورہی تھیں۔ ان نشستوں میں کئی سینئر ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں محمود واجد، نور الہدی سید، شاہد کامرانی، رئیس فروغ و دیگر شامل تھے۔ انھی نشستوں میں شاہد کامرانی صاحب جو کہ ٹیلی ویژن پر نیوز ایڈیٹر تھے ، انھیں میری آواز پسند آئی اور انھوں نے مجھے ٹی وی پر خبریں پڑھنے کی آفر کی۔ اور اس طرح باقاعدہ آڈیشن ہوا جس میں تین سو سے زائد افراد نے حصہ لیا اور اس میں مجھے منتخب کرلیا گیا اور میں ٹی وی پر باقاعدہ خبریں پڑھنے لگا۔
جسارت میگزین:آپ نے مصوری کے موضوع پر ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا ہے ۔ اس بارے میں بتائیے۔
شہاب الدین شہاب:مارجری حسین جو کہ مصوری کی بہت بڑی نقاد ہیں۔دنیا کی کوئی آرٹ گیلری ایسی نہیںجو انھوں نے نہ دیکھی ہو۔دنیا بھر کا مصوری کا کام ان کی نگاہ میں ہے۔ اب انھیں تنقید کا حق پہنچتا ہے۔ میں نے مارجری حسین کی کتاب Aspects of Artکا اردو ترجمہ ’’ آرٹ کے پہلو‘‘کے نام سے کیا۔اس کتاب کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا تھا۔ اور یہ کتاب کراچی اسکول آف آرٹس اور مختلف اداروں میںدرسی کتب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی ہے۔
جسارت میگزین:آپ کا مجموعہ کلام کب تک آرہا ہے۔
شہاب الدین شہاب: یہ کسب معاش کے معاملات بہت مصروف رکھتے ہیں۔ کئی مرتبہ ارادہ کیا لیکن شائع نہیں کرسکا۔ جی مجموعہ بھر کلام موجود ہے۔ اور بہت جلد شائع ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
شہاب الدین شہاب کی شاعری

وقت نے دھندلادئیے ہیں خدوخال
تو مجھے پہچان کر آواز دے
سناٹے میں گونج رہی تھی اپنے ہی قدموں کی چاپ
مڑ کر دیکھا کوئی نہیں تھا رستے میں خاموشی تھی
اس کے پاس الفاظ بہت تھے علم نہیں تھا جس کے پاس
علم جسے حاصل تھا اس کے حصے میں خاموشی تھی
اک پرندہ سرِ دیوار جوآبیٹھا ہے
کون جانے کہ کہاں اس پہ شجر تنگ ہوا
بچھڑنے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے
لگائے رکھنا دریچوں سے عمر بھر آنکھیں
وہ آئینہ جو ترے حسن سے گزر آیا
دکھا رہا ہے ابھی تک مجھے جمال نئے

ہائیکو

سونا ہے دوبھر
بوندیں شور مچاتی ہیں
ٹین کے چھجے پر

بارش کامنظر
تیز ہوا لے آئی ہے
کھڑکی کے اندر

نظم۔ یاد
بارشوں کے موسم میں
کھڑکیوں کے شیشوں پر
جھلملاتے قطروں میں
کس کی یاد روشن ہے۔

حصہ