جویریہ اعظم
فقط آزادی نہیں ہر دن کی ہے یہ تجدید
اے پاک وطن تیری حرمت کے پاسباں رہیں گے ہم
یکم اگست سے ہی ہر طرف پرچموں کی بہار جشنِ آزادی کی رونقوں میں اضافہ کر دیتی ہے اور ہر چھوٹا بڑا بھرپور طریقے سے آزادی کا جشن مناتا ہے۔ ایک محدود طبقہ آج بھی یہ سوال کرتا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ افسوس کہ وہ آزادی کی قدروقیمت سے واقف نہیں اور انہیں آزادی کی اہمیت کا احساس ہی نہیں اور یہ آزادی کیوں حاصل کی؟ بٹ کے رہے گا ہندوستان… بن کے رہے گا پاکستان‘ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الاللہ کے نعرے بلند کیے‘ اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ تیری سرزمین پر تیرا نظام نافذ کریں گے اور یہ منصب‘ یہ ذمے داری تو اللہ نے ہر فرد کو دی ہے۔ خلیفۃ اللہ فئی الارض بنایا ہے۔ اب اگر ہم اس سرزمین پہ اسلام کے نفاذ کی جدوجہد نہ کریں تو کہیں ہمارا حال یہ تو نہیں کہ ’’ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ۔ 13) اللہ سے عہد کیا جائے اوراس کو توڑدیا جائے تو کیسے دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوں۔
لوگ کہتے ہیں ہم نماز پڑھتے ہیں‘ روزہ رکھتے ہیں‘ اخلاقی برائیوں سے بھی دور رہتے ہیں۔ ہاں ہم مسلمان ہیں اور اسلام کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن حقیقت کیا ہے؟ فخر سے کہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہیں لیکن قرآن نماز قائم کرنے پر زور دیتا ہے‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اس کے اثرات نظر نہیں آتے کہ زکوٰۃ کا نظام قائم نہیں‘ عبادت کرتے ہیں لیکن قبول بھی ہوتی ہیں یا نہیں کہ حرام لقمہ ہمارے منہ میں جارہا ہے اس لیے کہ ’’نظام سود اور رشوت پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النسآء میں فرماتا ہے کہ ’’امانتیں اہلِِ امانت کے سپرد کرو۔‘‘ اور یہاں ملک کا نظام چور لٹیروں کے ہاتھ میں ہے۔ یاد رکھیں ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔‘‘
وہ افراد آج بھی موجود ہیں جو اللہ سے اپنا عہد نبھانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ چراغ اب بھی ہوا کی زد پہ جلائے جارہے ہیں‘ قوم کی اکثریت اسلام کو چند عبادات تک محدود کرنا چاہتی ہے جب کہ اللہ فرماتا ہے ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔‘‘ (سورۃ البقرہ 208)۔
اسلام کے نفاذ کی جدوجہد جاری رہے گی‘ حق تو غالب آکر رہے گا۔
منزل مجھے ملے نہ ملے اس کا مجھے غم نہیں
مجھے یہ خوشی اس جستجو میں میرِ کارواں تو ہے
۔’’لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے‘ ہمارا کام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہو جائیں‘ خدا ہی کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی‘ اس احسان کا شکر یہی ہے کہ ہم اپنے لہو سے چراغ جلاتے جلاتے مر جائیں۔‘‘ (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)۔
معاشرے میں ہر طرف جو ذہنی انتشار اور بے راہ روی پھیلی ہوئی ہے‘ ان حالات سے مایوس ہوکر بیٹھ جائیں… نہیں… ہم مایوس کیوں ہوںایمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ہم نا امید نہیں ہوں گے روشن صبح کے لیے چراغ جلاتے رہیں گے‘ اللہ کا وعدہ ہے اور اس کے وعدہ تو صدا سچ ہے ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: 81)۔
اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے مشکلات سے گزرنا ہی پڑتا ہے اور راہیں جنت کی کب آسان ہوتی ہیں‘ جب تک ایک سانس بھی باقی ہے ہم بے دم نہیں ہوں گے‘ ان شاء اللہ اس پاک سرزمین پر اسلام کا پرچم لہرائے گا ضرور۔