۔14 اگست اس سال!!۔

457

ہادیہ امین
اس سال 14 اگست یوں منفرد رہی کہ عید قرباں کا تیسرا روز بھی اسی دن آن ٹہرا۔۔ اس “کو انسیڈنس” کے ساتھ مزید “کوانسڈنس” کراچی کی گلیوں میں طوفانی بارش کا پانی اور اس کے ساتھ قربان ہونے والے جانوروں کا خون تھا۔۔
لوگوں کی شکایتیں عروج پر ہیں کہ کسی کہ ہاں گٹر کا پانی لائن کے پانی میں مل گیا، کوئی گلی میں موجود گندگی کے باعث گھر میں محصور ہو کر رہ گیا۔ نیز ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی پیشن گوئیاں کہ کھڑے گندے پانی میں پیدا ہونے والے جراثیم نجانے کیا کیا بیماریاں لائینگے جن میں ملیریا،ٹائفائیڈ،چکن گونیا،ہیضہ اور دیگر سرفہرست ہیں۔۔
یہ تو شہر کے اندرونی حالات تھے۔ ملک کی شہ رگ پہ نظر ڈالیں جہاں بہنیں بیٹیاں محفوظ نہیں،معصوم کشمیری سالوں سے آزادی کی خاطر جان کے نظرانے دے رہے ہیں اور ابھی تک ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ یہ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم قنوت نازلہ اور استغفار کی کثرت کریں بحیثیت پاکستانی صفائی کا خیال کرتے ہوئے اپنے اوپر عائد ہونے والے فرض کو پورا کریں۔
تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے!! بہت سے تعلیمی اداروں میں عید قرباں کی وجہ سے جشن آزادی قبل از وقت ہی منایا گیا جس کی وڈیوز اسکول کی طرف سے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئیں۔ دل تو پہلے ہی حالات دیکھ کر خون کے آنسو رو رہا تھا مگر اب ان وڈیوز کو دیکھ کر غم و غصہ عروج پہ جا پہنچا۔ کہیں ننھی بچیاں گانوں پر رقص کر رہی ہیں تو کہیں ہاتھوں میں بینڈ باجے لے کر جشن منایا جا رہا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حال کے تو کیا ہی کہنے۔ مستقبل بھی زوال پزیر ہے۔ یہ درس گاہوں میں کیا درس دیا جا رہا ہے۔ ناچو، گائو، اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کو بھول کر جشن منائو، ان ننھی کلیوں کو کیا رول ماڈلز دیے جا رہے ہیں؟ مزید نیچے والدین اور رشتہ داروں کے سراہتے ہوئے کمنٹس، ہم بحیثیت مجموعی سوتی ہوئی قوم بنتے جا رہے ہیں۔۔ ایسے مواقع نئی نسل کو شعور دینے کے لیے بہترین ٹہرتے مگر ہم نے ہر موقع پر ناچ گا کر اس قوم کو نا کوئی فاطمہ جناح دی،نہ کوئی بی اماں نہ ہی کوئی عظیم لیڈر۔۔ اتنی فیسیں لے کر بھی نہ کوئی جابر بن حیان بنتا ہے،نہ کوئی الخوارزمی وجود میں آتا ہے،جو کچھ بن بھی جاتے ہیں ان کو وہ قدر نہیں ملتی جو ان کا حق ہے۔۔بس، یہ تھوڑا بہت پتا ہے کہ دجال آئیگا اور ایک آنکھ کا ہوگا۔ اگر کسی پاکستانی سے “شکوہ جواب شکوہ” کا مطلب پوچھو،اس کا مقصد،اسکی عظیم سوچ کا پوچھو،اسکا ایک مصرعہ مکمل کرنے کا ہی کہ دو تو ٹوٹا پھوٹا جواب دے کر کہیں گے “معذرت!اردو میں ہم اتنے اچھے نہیں تھے” ہم کسی میں بھی اچھے نہیں تھے،نہ اردو نہ انگلش،نہ دین نہ دنیا،نہ ادب نہ تہذیب،نہ اخلاق نہ دیانت، ہاں !! یہاں اچھے گلوکار ضرور پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ اسکول کالج کے اسٹیج پر رقص کرتے پھولوں اور کلیوں کو جتنے لائکس ملتے ہیں، جتنا سراہا جاتا ہے اس سے پتا چلتا کہ ہم ایمان اور قابلیت سے زیادہ آواز اور ہلے گلے کے شیدائی ہیں۔۔
جو قربانی کرنے کے بعد صرف اپنے گھر کی دھلائی کر کے باقی محلے کی طرف سے بے پرواہ ہوجائے وہ کشمیر کا کیا خاک غم منائے گا؟؟ مایوسی کفر ہے،اللہ سب کو بہترین بنا کر صراط مستقیم کی طرف گامزن کرے،اللہ اس قوم کو بہادر اور سمجھدار بنائے مگر خدارا نئی نسل کی ذہن سازی کرتے ہوئے کچھ تو عقلمندی کا ثبوت دیں۔ یہ جو ننھے ذہن آج ہمارے ہاتھ میں ہیں،ہی ہمارا مستقبل،ہمارا کل ہیں،ان کے سامنے مثالی کردار بن کر دکھائیں،اللہ ان میں شوق جہاد پیدا کرے اور مجاہدین کو نصرت عطا کرے آمین۔۔

حصہ