کشمیر

617

تنویر اللہ
امریکا کے 33کروڑ، بھارت کے135کروڑ، پاکستان کے 22 کروڑ، یعنی 190 کروڑ انسانوں پر ٹرمپ، مودی اور جناب عمران خان حکمران ہیں۔ یہ تینوں حضرات کسی وقت بھی، کسی جگہ بھی اورکچھ بھی کرسکتے ہیں۔
ڈونلڈ جان ٹرمپ کی عمر 73 برس ہے، گزشتہ بتیس برس سے سیاست میں سرگرم ہیں، دوخواتین کے شوہر رہ چکے ہیں اور ایک کے اب بھی ہیں۔ یعنی ہمارے عمران خان کی طرح تین مرتبہ دولہا بن چکے ہیں۔ ان کی تینوں بیگمات میڈیا، شوبز سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب کہ ہمارے عمران خان کی پہلی دو بیگمات میڈیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ امریکا کے پہلے ارب پتی صدر ہیں، امریکا کے پہلے ایسے صدر ہیں جس نے کوئی فوجی یا سرکاری ملازمت نہیںکی ہے، ٹرمپ جھوٹے بیانات دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ نازیبا گفتگو، اسکینڈلز، متنازع اور نفرت انگیز بیانات ٹرمپ کا معمول ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی فیکٹ چیکر رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت کے 888 دنوں میں دس ہزار ایک سو گیارہ ایسے دعوے کیے جو سراسر جھوٹ پر مبنی تھے۔ معالجین کے مطابق ٹرمپ جسمانی لحاظ سے ایک فٹ فاٹ آدمی ہیں، لیکن ان کی دماغی کیفیت مشکوک ہے۔
ٹرمپ ایک دشمن دار شخصیت ہیں، وہ منیر نیازی کے مصرعے ’’کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ پر پورا اترتے ہیں۔ ان کی تقریبِ حلف برداری کے دن امریکا سمیت ٹوکیو، برلن، فلسطین سمیت دنیا کے کئی ملکوں اور شہروں میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ ٹرمپ نے اپنی پوری انتخابی مہم میں الزامات، دھمکیوں، دعووں، بڑھکوں کا خوب استعمال کیا۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ یعنی ایک مافیا کی طرح وہ فتح کے سوا کچھ قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔
شمالی اور جنوبی کوریا دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں، ٹرمپ نے ان کی سرحد پر چہل قدمی کا انوکھا کام کیا۔ ٹرمپ اپنی عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ایک بار اور صدر بن سکتے ہیں اور امریکی قانون کے مطابق بھی وہ مزید ایک ٹرم اور لے سکتے ہیں۔ ٹرمپ اپنے پیچھے کوئی سیاسی وارث بھی نہیں رکھتے، لہٰذا اپنے ووٹ بینک کو سنبھال کر رکھنا ان کی ضرورت نہیں ہے۔
ان خصوصیات کے حامل شخص کے لیے کچھ بھی کرنا آسان ہے۔
نریندر دامودر داس مودی عرف مودی بھی ٹرمپ کی طرح انتہائی متنازع شخصیت ہیں۔ سترہ برس کی عمر میں ان کی شادی جشودابین نامی عورت سے ہوئی، لیکن بیوی سے نباہ نہیں ہوسکا اور دونوں کبھی ساتھ بھی نہیں رہے اور قانوناً الگ بھی نہیں ہوئے۔ مودی کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ عمومی طور پر لاولد آدمی کی نفسیات صاحبِ اولاد سے مختلف ہوتی ہے، وہ دنیا کو صرف اپنی زندگی تک ہی دیکھتا ہے۔ جب کہ اولاد والا قیامت تک اپنی نسل کو چلتا پھرتا دیکھتا ہے، لہٰذا اس کا منصوبہ اپنے مرنے کے بعد تک کا ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ لاولد ہونے کی وجہ سے اپنے ووٹ بینک کو سینت کر رکھنا مودی کی بھی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا وہ خود ہی امر ہونا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گزریں گے۔
ٹرمپ، مودی اور ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان تقریباً ایک سی خصوصیات کے حامل ہیں۔ ایک بڑا فرق ان تینوں میں یہ ہے کہ ہمارے عمران خان کی شخصیت میں بڑا کرزما(Charisma) ہے، جس سے بقیہ دونوں حضرات یکسر محروم ہیں۔
ٹرمپ، مودی، عمران… یہ فارمیشن دنیا میں کسی بھی بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ نامعلوم یہ کوئی خدائی منصوبہ ہے یا انسانوں کی نقشہ گری ہے، اللہ خیر کرے۔ یہ موضوع مزید بھی چل سکتا تھا، لیکن کشمیر کے بارے میں انڈیا کی واردات نے اور تمام موضوعات کو غیر اہم بنادیا ہے۔
86 ہزار مربع کلومیڑ زمین اور ڈیڑھ کروڑ انسانوں پر مشتمل کشمیر تین ایٹمی قوقوں کا ہمسایہ ہے۔ اس کا ایک پڑوسی چین، دوسرا انڈیا اور تیسرا پاکستان ہے۔ لہٰذاکشمیر پر جنگ انڈیا، پاکستان، کشمیر کے 159 کروڑ انسانوں کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے، ساتھ ہی یہ خطۂ زمین ہمیشہ کے لیے بنجر ہوسکتا ہے۔
اب تک پاکستان میں حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پر کشمیر کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ گزشتہ دس برس سے مولانا فضل الرحمان صاحب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے جو اُس زبان سے ہی نابلد ہیں جو دنیا کو سمجھ میں آتی ہے، ساتھ ان کی شخصیت بھی دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ لہٰذا مسئلہ کشمیر سے دنیا کو آگاہی دینا نہ مولانا کے بس میں تھا اور نہ ہی دنیا اُن کی بات پر توجہ کرتی۔ مولانا ایک مشاطہ کی سطح کے آدمی ہیں۔
موجودہ حکومت نے شہبازگل کو جو تیز زبان رکھتے ہیں اور باہر کی دنیا کو بھی جانتے ہیں، جیمز بانڈ بناکر نوازشریف کی سرکوبی پر لگا دیا ہے، اور جناب فخر امام صاحب کو اس پیرانہ سالی میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادیا ہے۔ جو خود سہارے کے بغیر ہل نہیں سکتے وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کیا پیش رفت کریں گے؟
حکمرانوں نے اس کمیٹی کو ہمیشہ سیاسی رشوت کے لیے استمعال کیا ہے، اور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی حالیہ مجرمانہ واردات پر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کوئی حمایت نہیں ملی، صرف ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ہمارے وزیراعظم کو تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انھوں نے کیا یقین دہانی کرائی ہے یہ بھی دنیا کو نہیں بتایا گیا۔
جرمنی نے کہا ہے کہ امید ہے خطے میں جاری کشیدگی میں اضافہ نہیں ہوگا، ہم نے کشمیر میں موجود اپنے شہریوں کو سیکورٹی الرٹ جاری کردیا ہے، ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارتی حکومت متاثرہ ریاست کے لیے جو بھی منصوبہ رکھتی ہے اس میں علاقے کے عوام کے شہری اور آئینی حقوق کو پیش نظر رکھے۔ اقوام متحدہ نے تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ امریکا نے بھی پاکستان اور بھارت سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔ چین نے جو احتجاج کیا وہ لداخ سے متعلق ہے جسے وہ اپنا حصہ کہتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران خاموش ہیں۔ اوآئی سی نے بھی رسمی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے تو کمال ہی کردیا، اُس کا سفیر فرماتا ہے کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے، بھارت پہلے بھی ریاستوں کی تنظیمِ نو کرتا رہا ہے، بھارت پہلے بھی عدم مساوات کو ختم کرنے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایسا کرتا رہا ہے، انھوں نے امید ظاہر کی کہ بھارت کے اس فیصلے سے سماجی حالات میں بہتری آئے گی اور امنِ عامہ اور حکومتی کارکردگی اچھی ہوگی۔ ایسے بے شرمی کے مؤقف سے تو اچھا تھا کہ یو اے ای کچھ نہ کہتا۔
جب کہ عوامی سطح پر کشمیر صرف جماعت اسلامی کا موضوع رہا ہے۔ پہلی بار پانچ فروری کو مرحوم قاضی حسین احمد نے یومِ یکجہتیِ کشمیر کا اعلان کیا تھا، اس کے کئی برس بعد حکومت کی جانب سے اس دن چھٹی دے دی گئی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جناب شہبازشریف فرما رہے تھے کہ مودی کے ہاتھ کاٹ دینے چاہئیں۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اس کا انھوں نے طریقہ نہیں بتایا۔ یقینا شہبازشریف کے پاس اپنی اس تجویز پر کوئی منصوبہ بھی ہوگا، لہٰذا مودی کے ہاتھ کاٹنے کا کام ان ہی کے ذمے کردینا چاہیے۔
جناب عمران خان کی تقریر اچھی تھی، انھوں نے ہندو ذہنیت کو اچھی طرح واضح کیا، بھارت کا رویہ بیان کیا۔ بھارت کیا کررہا ہے اس سے آگاہی دی، اسلام کی آئیڈیا لوجی بتائی، قائداعظم کی دوراندیشی کا اعتراف کیا۔ ان کی تقریر کا بڑا حصہ اقوام متحدہ کے فورم سے خطاب کے لیے موزوں تھا۔ انھوں نے کشمیر کے بارے میں اپنا لائحہ عمل بھی بتایا، مثلاً انھوں نے کہا کہ ہم ہر فورم پر اس مسئلے پر لڑیں گے، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں جائیں گے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جائیں گے، دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت سے بات کریں گے، میڈیا پر اس مسئلے کو اجاگر کریں گے۔ لہٰذا ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اُن کے پاس بھارت کو کائونٹر کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے، لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ وہ جوکچھ کہہ رہے ہیں اس پر عمل نہیں کرسکیں گے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپوزیشن رہمنائوں میں سب سے جامع اور دل کو چھونے والی تقریر جناب سراج الحق نے کی۔ انھوں نے بجا طور پر دنیا سے شکوہ کیا کہ جب جنوبی سوڈان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، بوسنیا کا یوگوسلواکیہ سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے، مشرقی تیمور کا معاملہ حل ہوسکتا ہے، تو کشمیر کا مسئلہ کیوں نہیں حل ہوسکتا؟ سراج الحق نے بھی اس حوالے سے مؤثر تجاویز دیں۔
جب برطانیہ میں ایک علاقے کی علیحدگی پر رائے شماری ہوسکتی ہے اور امریکا میں ٹیکساس کو الگ کرنے کے لیے دستخطی مہم چل سکتی ہے تو کشمیریوں سے اُن کی رائے کیوں نہیں معلوم کی جاسکتی؟
کشمیریوں کی جدوجہد بھارتی آئین کی کسی شق کے مطابق نہیں ہورہی تھی، لہٰذا کسی شق کو ختم کرنے سے آزادی کی یہ جدوجہد ختم بھی نہیں ہوگی۔ بھارت نے جو شق 270 اور 35-A کا خاتمہ کیا ہے اس کا مقصد مسلمانوں کو کشمیر میں اقلیت بنادینا ہے۔ یہودی ساری دنیا سے جمع ہوکر اسرائیل میں آبسے ہیں، کیا اس سے فلسطین کی جدوجہد کو ختم کیا جاسکا ہے؟ جو کشمیر میں ہندوئوں کو بساکر بھارت کشمیریوںکی جدوجہد کو ختم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے؟
کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر رہے گی۔ ہمیں اور دنیا کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ کس طرف کھڑے ہیں۔
آج دنیا نے اگر اپنا فرض ادا کیا تو کشمیر میں بہنے والا خون روکا جاسکتا ہے، ورنہ کشمیر میں اور خون بہے گا۔ کشمیر میں اگر سرکاٹنے والوں کی کمی نہیں ہے تو سر کٹوانے والے بھی کم نہیں ہیں۔ کشمیر میں بہنے والے خون کا ہر قطرہ ایک نیا مجاہد پیدا کرے گا، ساتھ ہی ناحق بہنے والا یہ خون دنیا کی ناانصافی کو ننگا کرتا جائے گا۔

حصہ