کس قوم کو زنجیریں تم آئے ہو پہنانے!۔

808

افشاں نوید
فیس بک اور واٹس ایپ پر جابجا تصویریں موصول ہورہی ہیں زخمی وشہید کشمیری مجاہدین، بچوں اور عورتوں کی۔ ساتھ میں درد بھری التجا ہے کہ اس کو اتنا شیئر کریں کہ مودی حکومت کو ہوش آجائے۔
معاف کیجیے گا ہم بندر سے انسان نہیں بنے بلکہ پورے شعور و ادراک کے ساتھ خلیفہ کا منصب دے کر اتارے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے خون اور زخموں کی تشہیر کرکے خود کو کمزور کیوں کریں؟ ہم اپنا ہی خون کب تک دیکھتے اور دنیا کو دکھاتے رہیں؟ انسانی ذہن ایک حد تک ہی دکھ کی کیفیت برداشت کرسکتا ہے۔ ہم اپنی بے بسی کا خود اشتہار کیوں بنیں؟ قربانیاں مظلوم کشمیری دے رہے ہیں، کیا ان کی تشہیر کرکے یا پروفائل پکچر تبدیل کرکے ہم اپنے ضمیر کے بوجھ سے نجات پا لیں گے؟
اکثر سوشل میڈیا پوسٹوں پر وظائف و دعا کی تلقین… یہ پڑھیں، اتنی بار پڑھیں، یہ دعا اتنی بار کریں۔
دعا مومن کا ہتھیار ہے، مگر ساتھ ہی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ تین سو تیرہ سپوت جو کُل اثاثہ تھے امت کا، لاکر بدر میں پیش کردیئے گئے۔ میدانِ جہاد میں تیر کی نوک سے صفیں سیدھی کرنے کے بعد رحمتِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گریہ وزاری کرتے ہیں کہ جو کچھ ہے مولا پیش کردیا ہے، امت کا بھرم رکھ لے، یہ نفوس ناکام ہوگئے تو روئے زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا…۔
اگر دعاؤں سے تقدیر بدلتی تو سیرتِ مطہرہؐ سے اسی کا سبق ملتا کہ دعا و وظائف کرتے رہیں یا چلہ کاٹتے رہیں۔ ہم دیکھتے ہیں مدنی زندگی کے دس سال کے ہر ماہ کسی غزوے یا سریہ کا سامان ہے۔ ایک نئی ریاست پورے طور پر میدانِ جہاد سجائے ہوئے ہے۔ ریاستی امور اور آئین سازی کے بھی تمام مراحل طے پارہے ہیں اور دشمن کو بھی للکارا جارہا ہے۔کہیں سے شورش کی خبر پاکر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ ابھی ریاست کے قدم مضبوط جم جائیں، ابھی اندرونی استحکام کا وقت ہے، ابھی ذرائع و وسائل اجازت نہیں دیتے، ابھی فصلیں پکنے کا موسم ہے اس وقت کون دستیاب ہوگا؟
ہمیں تو تاریخ سے سبق ملتا ہے کہ دشمن کی للکار کا جواب للکار، توپ کا جواب توپ سے دیا جائے۔ تیر کا مقابلہ تیر ہی سے ہوگا نہ کہ جہادی نظم پڑھ کر۔
دعا، کوشش کے ساتھ کی جاتی ہے۔ کوئی طالب علم کبھی محض دعا سے ڈاکٹر یا انجینئر بن سکتا ہے؟کیا بغیر اینٹوں اور سریے کے صرف دعا سے گھر تعمیر ہوجاتے ہیں؟ آئی سی یو کے باہر ہم اپنے مریض کے لیے دعا کررہے ہوتے ہیں اور اندر ڈاکٹر اپنی تمام سعی اس کی زندگی بچانے پر مرکوز کیے ہوتے ہیں، چاہے جسم کا کوئی حصہ جدا ہی کرنا پڑے۔ کوشش کے ساتھ دعا کا حکم ہے۔
آج یہ وقت آئینہ ہے ہمارے لیے۔ اس کائنات میں ہوتا وہی ہے جو مرضیِ رب ہو۔ مگر اہلِ ایمان کے ایمان کا امتحان مقصود ہوتا ہے۔ دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعا سے آگے کچھ کرنا بھی ہوگا ہمیں۔ حکومت کے کام وہ جانے… ہم محض حکومت پر تنقید کرکے اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
معرکوں کے بلاووں میں سجدوں کی نہیں معرکوں کی حکمت عملی طے کی جاتی ہے۔ سجدے تو اخلاص کا مظہر ہوتے ہیں۔
سوچنا یہ ہے کہ کرنا کیا ہے…؟
مودی سرکار نے یہ قدم اٹھاکر انڈیا کے تمام مسلمانوں کو للکارا ہے کہ وہ کتنے غیر محفوظ ہیں۔کوئی آئینی ترمیم ان کے حقوق غصب کرسکتی ہے۔
طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ ہمارے ایمان کو للکارا گیا ہے۔ سید علی گیلانی صاحب نے امتِ مسلمہ کو جھنجوڑا ہے کہ انڈیا کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس کا جواب روزِ حشر امتِ مسلمہ کیا دے گی!کشمیریوں کے خون کے چھینٹے بہت سی آستینوں سے ٹپکیں گے۔
ضرورت ہے کہ ہم انڈیا کی ہر طرح کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں… بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بھی، کیونکہ یہودوہنود ایک دوسرے کے غم خوار ہیں۔ اس وقت نیٹو فورسز مسلمانوں کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ ہدف اسلام ہے۔
آسٹریلیا کے سپراسٹور میں ایک کارنر’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کے عنوان سے میں نے دیکھا، جہاں انڈیا کے مسالہ جات وکچن آئٹمز بالخصوص خواتین کی توجہ کا بڑا مرکز ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں ہمارے عزیز یا حلقہ احباب ہے، ہم ان کو متوجہ کریں کہ انڈیا کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔
انڈین چینلز، انڈین فلموں کے بائیکاٹ کی دنیا بھر میں مہم چلائیں۔
اب خط لکھنے اور پوسٹ کرنے کے لیے کہیں گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا۔ دنیا بھر کے سفارت خانوں کو میلز کریں اور کشمیری مسلمانوں پر بھارت کے مظالم سے آگاہ کریں۔
خود ہماری نوجوان نسل مسئلہ کشمیر سے آگاہ نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں میں آگہی مہم چلائی جائے۔
ہمارا قصور بھی کم نہیں۔کشمیر فنڈ،کشمیر سے محبت کے ترانے ہم نے بھی جزدانوں میں لپیٹ کر طاق میں رکھ چھوڑے۔
اپنے گھروں کے گلک سے پھر کشمیر فنڈ کا آغاز کریں۔
ہمارے اختلافات نے ہماری ہوا اکھیڑ دی ہے۔ اس وقت ایک قوم بن جائیں۔ ہمارا دشمن ایک ہے، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں۔
اپنے دائرۂ کار میں ہم کیا کرسکتے ہیں، خود پلان کریں۔
استغفار کی کثرت کریں، ایسا نہ ہو کہ اُن کا خون ہماری گردن پر ہو کہ ہم نے انھیں تنہا چھوڑ دیا۔
خود اپنے گھر اور بچوں کو اس جگہ رکھ کر سوچیں۔ ان کی صبحیں، ان کی شامیں کیسے تلواروں کے سائے میں ہیں۔ اب وقت قراردادوں، خطوط، کانفرنسوں، وفود بھیجنے سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ بھارت کی جارحیت دیکھتے ہوئے آگے کسی بھی ہولناک کاروائی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہاں اس وقت انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ہیں۔ فوج کے کئی ہزار تازہ دم سپاہی مقبوضہ وادی میں اتارے جاچکے ہیں۔ پہلے ہی آئے دن کرفیو، روز کی شہادتیں، ہڑتالیں… کشمیریوں نے کون سا دن سکون و چین کا دیکھا تھا! اب دفعہ 370 ختم کرنے کی جسارت کرکے مودی نے اپنے انتخابی منشور کے وعدے کو پورا کردکھایا۔
دشمن بہرحال دشمن ہی ہے، لیکن افسوس ہے اپنی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا۔ مسئلہ کشمیر پر ہم دنیا میں تنہا رہ گئے ہیں۔ اسلامی ممالک کی ہمدردیاں اگر ہمارے دشمن کے ساتھ ہوں تو اس کو خارجہ پالیسی کی ناکامی کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ کا فیصلہ سپاہیوں کی تعداد اور سامانِ رسد دیکھ کر نہیں کیا جاتا۔ جنگ کا فیصلہ دشمن کے ناپاک ارادوں کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں جنگیں ہتھیاروں سے کم ہی جیتی گئی ہیں۔ جنگ کے لیے جذبۂ جہاد سے سرشار سپاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آتشِ نمرود میں عشق بے خطر ہی کود پڑتا ہے۔ اس وقت ہمارے گھروں کے باہر قربانی کے جانور کھڑے ہیں۔ عیدِ قرباں کا ایک ہی پیغام ہے کہ حق واضح ہوجائے تو حضرت ابراہیمؑ کی طرح یکسو ہوجانا چاہیے حق کی آواز بلند کرنے کے لیے، چاہے سارا زمانہ ہی نمرود کی طرح ظالم کیوں نہ ہو۔ دشمن نے ایک زندہ قوم کو للکارا ہے۔ چناروں کے اُس پار وہ پاکستانی پرچم تھامے دیوانہ وار نعرے لگارہے ہیں اور شہادت کے جام پی رہے ہیں یا زخموں کے تمغے اپنے سینوں پر سجا رہے ہیں، اور ہم رسمی کارروائیوں سے انھیں مطمئن کررہے ہیں۔ زبانی ہمدردی اور وعدے وعید کے سوا ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں تو جان رکھیں کہ قدرت قوموں سے جو انتقام لیتی ہے اس کی تلافی صدیوں آنے والی نسلیں کرتی ہیں۔
اگر ان کا درد محسوس کرکے ہم نمازِ فجر سے قبل ایک سجدے سے بھی محروم ہیں تو محض ٹوئٹر، فیس بک اور خواہشوں سے جنگیں نہیں جیتی جا سکتیں۔ عیدِ آزادی پر لہراتے پرچم ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ… مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک تمہاری آزادی نامکمل ہے۔

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

یہ تلخ تلخ راحتیں، جراحتیں لیے ہوئے
یہ خونچکاں لطافتیں کثافتیں لیے ہوئے
یہ تار تار پیرہن عروسۂ بہار کا
یہ خندہ زن صداقتیں قیامتیں لیے ہوئے
زمین کی تہوں میں آفتاب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

جو مرحلوں میں ساتھ تھے وہ منزلوں پہ چھٹ گئے
جو رات میں لٹے نہ تھے وہ دوپہر میں لٹ گئے
مگن تھا میں کہ پیار کے بہت سے گیت گاؤں گا
زبان گنگ ہو گئی، گلے میں گیت گھٹ گئے
کٹی ہوئی ہیں انگلیاں رباب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

یہ کتنے پھول ٹوٹ کر بکھر گئے یہ کیا ہوا
یہ کتنے پھول شاخچوں پہ مر گئے یہ کیا ہوا
بڑھی جو تیز روشنی چمک اٹھی روش روش
مگر لہو کے داغ بھی ابھر گئے یہ کیا ہوا
انہیں چھپاؤں کس طرح نقاب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

خوشا وہ دورِ بے خودی کہ جستجوئے یار تھی
جو درد میں سرور تھا تو بے کلی قرار تھی
کسی نے زہرِ غم دیا تو مسکرا کے پی گئے
تڑپ میں بھی سکوں نہ تھا، خلش بھی سازگار تھی
حیاتِ شوق کا وہی سراب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

مولانا عامر عثمانی

حصہ