ساتھی رائیٹرز ایوارڈ2019ء۔

624

محمد الیاس نواز
شہر قائد بہت ساری روشن روایتوں کا امین ہے۔ اس شہر نے اپنے دامن میں بہت سی نادر علمی، ادبی، تہذیبی اور ثقافتی روایتوں کو سمیٹ رکھا ہے۔ باقی ساری چیزوں کو کسی اور وقت پر چھوڑ کر بات کی جائے ادب اور خاص کر بچوں کے ادب کی تو اس شہرِ روایت خیز میں بہت ساری ادبی روایتیں وجود پاتی رہیں، جن میں سے کچھ تو ٹوٹتی رہیں مگر بہت سی برقرار بھی رہیں۔
یہ اعزاز بھی اسی ادب پرور شہر کو حاصل ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان سے جاری ہونے والے بچوں کے سب سے پرانے اُردو رسائل میں سے دو کراچی سے ہی شائع ہوتے ہیں، جن میں سے ایک رسالہ ’’ساتھی‘‘ ہے۔
ماہنامہ ساتھی اس حوالے سے دنیا بھر کے جرائد میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے کہ نوجوان طلباء نے اس کا اجرا کِیا اور گزشتہ بیالیس برسوں سے تسلسل کے ساتھ اس کی ادارت سے لے کر تقسیم کار تک کے سارے معاملات بھی نوجوان طلبہ ہی بحسن و خوبی چلا رہے ہیں۔ ہر دو چار سال میں اس رسالے کے ذمہ داران تبدیل ہوتے رہتے ہیں، یعنی نئے آنے والے پرانوں کی جگہ لے لیتے۔ اس طرح ادارہ ساتھی ایک ایسی درس گاہ کا کردار ادا کر رہا ہے جو ادب کے شعبے میں نوجوان تربیت یافتہ افراد تیار کرکے معاشرے کو مہیا کر رہا ہے۔
بات ہو رہی تھی شہر قائد اور اس کی ادبی روایتوں کی، تو زندہ روایتوں میں سے ایک درخشاں روایت بچوں کے ادب میں’ ساتھی رائٹرز ایوارڈ‘ کی شان دار تقریب بھی ہے، جو گزشتہ تین دہائی سے ہر دو برس کے وقفے سے منعقد ہوتی چلی آرہی ہے۔
ساتھی رائٹرز ایوارڈ کا مقصد ایسے قلم کاروں کے اعزاز میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد ہے جو کسی معاوضے اور ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنا وقت اور صلاحیتیں بچوں کے لیے لکھنے میں صرف کرتے ہیں، اور نسلِ نو کی تربیت میں رضا کارانہ طور پر اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پُروقار تقریب کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک کے ادبی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
گزشتہ اٹھائیس جولائی کو اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے پندرواں ساتھی رائٹرز ایوارڈ کا انعقاد آرٹس کونسل پاکستان، کراچی کے منظر اکبر ہال میں ہوا۔ گزشتہ ایوارڈز کی تقریبات کے برعکس اس تقریب میں کئی خوش گوار تبدیلیاں بھی نظر آئیں۔
تقریب گاہ میں داخل ہوتے ہی پہلی خوب صورت تبدیلی یہ نظر آئی کہ اسٹیج کے پس منظر میں پینا فلیکس کے پردے کے بجاے بیس فٹ کا ڈیجیٹل پردہ یعنی اسکرین جگمگا رہی تھی اور تقریب چوں کہ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسکرین پر ساتھی کی تاریخ، تحریر و تصویر کی شکل میں چل رہی تھی۔ آنے والے مہمان ایک دوسرے سے سلام دعا میں مصروف تھے کہ اتنے میں دو نوجوان نقیبوں نے اسٹیج سنبھالا اور تقریب کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا اور یہ دوسری خوش گوار تبدیلی تھی۔ یعنی اس بار نقابت کی ذمہ داری سابقہ یا موجودہ ادارت کے لوگوں کو دی گئی نہ ہی کسی ادیب کو بلکہ اس روایت کو تبدیل کرتے ہوئے دو نئے نوجوانوں کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ جنھوں نے اپنا تعارف ’محمد اطیب‘ اور ’عبدالرحمن شاہ زیب‘ کے نام سے کروایا اور اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز ’حافظ شارق احمد غوری‘ کی خوب صورت آواز میں سورۃ القلم کی ابتدائی آٹھ آیات اور ان کے ترجمے سے ہوا۔ اس کے بعد ’عبدالرحیم متقی‘ کی پر سوز آواز میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے محفل میں سماں باندھ دیا۔ تلاوت اور نعت کے بعد مدیر ساتھی ’عبدالرحمن مومن‘ نے ابتدائی کلمات میں آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
اس کے فوراً بعد ایوارڈز کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے معروف مصور ’شاہد رسام‘ سے درخواست کی گئی کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور ساتھی میں شائع ہونی والی بہترین کہانی ۲۰۱۷ء کے ایوارڈز قلم کاران کو پیش کریں۔ اس سلسلے میں شاہد رسام صاحب نے بینا صدیقی، اعظم طارق کوہستانی، نیر کاشف، زرین قمر، فوزیہ خلیل، حماد ظہیر، مائرہ ندیم، فائزہ حمزہ، جدون ادیب، الطاف حسین، ام ایمان، جاوید بسام، راحمہ خان اور محمد طلحہ نذیر کو بہترین کہانی ۲۰۱۷ء کے ایوارڈز پیش کیے۔ بعد ازاں ساتھی رائٹرز ایوارڈ کی اس تقریب میں شاہد رسام نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’بچوں کی تربیت پر توجہ دینے کا وقت بچپن کا ہوتا ہے لیکن افسوس کہ ہم بچپن کے بجاے جوانی میں اس پر توجہ دیتے ہیں کہ وہ اچھا انسان بنے۔‘‘ شاہد رسام کی گفتگو کے بعد اس کے بعد مدیر ساتھی نے شاہد رسام صاحب کو مہمان گرامی کی اعزازی شیلڈ پیش کی۔
اس کے بعد محمد اطیب نے ایک خوب صورت نظم پیش کی اور ساتھ ہی نقیبوں نے عصر کی نماز کے لیے وقفے کا اعلان کیا۔نماز عصر کا وقفہ تقریباً بیس منٹ تھا ، اس دوران مرد حضرات نے نیچے جاکر نماز ادا کی جبکہ خواتین نے ہال ہی میں نماز کا اہتمام کیا۔
نماز عصر کے فوراً بعد معروف شاعر ’پروفیسر منظر ایوبی‘ کا لکھا ہوا ’ترکاریوں کا مشاعرہ‘ پیش کرنے کا اعلان کیا گیا جو دسمبر ۲۰۱۳ء کو ماہنامہ ساتھی میں شائع ہوا۔ یہ ایک بہت ہی خوب صورت سرگرمی تھی۔ جمعیت ایجوکیشن بورڈ کے زیر انتظام چلنے والے کیمپس ’محمد عارف گلاس وئیر والا بوائز سیکنڈری اسکول‘ کے بچے ترکاریوں کا روپ دھارے اسٹیج پر تشریف لائے اور ایک خوب صورت مشاعرہ پیش کیا، جس کی صدارت ’بینگن صاحب‘ اور نظامت ’ٹماٹر صاحب‘ کر رہے تھے جبکہ شعرا میں شلجم صاحب، چقندر صاحب، آلو صاحب اور مولی صاحبہ تھیں۔
اس مشاعرے کی ہدایت کاری اسی اسکول کے اُستاد ’محمد مصطفی نذیر‘ نے کی جبکہ اس میں ترکاریوں کے کردار نبھانے والے طلباء میں، امان عباسی، محمد اذان انصاری، تقلید حسن، عبدالباسط، نوراللہ قریشی اور محسن غنی لاشاری شامل تھے۔ ان کے علاوہ معاون کردار احتشام اعظم اور محمد سعود مقصود نے ادا کیے۔ اس مزاحیہ مشاعرے سے سامعین خوب محظوظ ہوئے اور دل کھول کر طلبہ کو داد دی۔ مشاعرے کے بعد مذکورہ کرداروں اور ہدایت کار کی خدمت میں ادارہ ساتھی کی طرف سے تحائف پیش کیے گئے۔
جیسے ہی ایوارڈز کے رُکے ہوئے سلسلے کو آگے بڑھانے کا اعلان ہوتا، بعض قلم کاروں کی بے چینی چہروں سے نظر آنے لگتی، دِل دَھک دَھک کرنے لگتے، سانسیں رُک جاتیں اور گردنیں اونچی ہو جاتیں … اور کیوں نہ ہوتا کہ قلم کار ساتھی رائٹرز ایوارڈ کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں، جس کی ایک وجہ کسی ذاتی پسند نا پسند سے ہٹ کر اور خالصتاً غیر سفارشی معیار ہے۔
ایک مرتبہ پھر ایوارڈز کو آگے بڑھانے کا اعلان ہوا اور بہترین نظم ۱۸۔۲۰۱۷ء کے ایوارڈز دینے کے لیے معروف علمی اور ادبی شخصیت جناب ’معین الدین عقیل صاحب‘ کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ معین الدین عقیل صاحب نے نعیم الدین نعیم، شہیر سلال، عمران شمشاد، مدیحہ صدیقی اور منیر احمد راشد کو ایوارڈز پیش کیے۔ بعد از ایوارڈز معین الدین عقیل صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’وہ افراد جو بچوں کے ادب سے منسلک ہیں، بچوں کو لکھنے پڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسے پروگرامات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ بچوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن میں ہی پیدا کرنا چاہیے، جس کے لیے رسائل اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘
اس کے بعد مہمان گرامی جناب ’معین الدین عقیل‘ کو مدیر ساتھی کی طرف سے اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔
بعد ازاں نعیم الدین نعیم نے نظم کے چند اشعار جو انھوں نے اسی وقت لکھے تھے، پیش کیے اور ایک مرتبہ پھر ایوارڈز کے سلسلے کو وہیں سے جوڑا گیا اور معروف شاعر اور صحافی جناب ’اے۔ ایچ۔ خانزادہ‘ کو دعوت دی گئی کہ وہ نوجوان تخلیق کاروں کو ایوارڈز پیش کریں۔ جناب اے۔ ایچ۔ خانزادہ نے سیدہ عائشہ خلیق الرحمن، طوبیٰ بنت فاروق، عروبہ امتیاز، افشاں شاہد اور عمر بن عبدالرشید کو نوجوان قلم کاران کے ایوارڈز پیش کیے۔ جناب اے۔ ایچ۔ خانزادہ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ’’رسالہ ساتھی کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے اور جب بھی ساتھی کو ہماری ضرورت محسوس ہوگی تو یہ بچوں کا منفرد رسالہ ہمیں وہیں موجود پائے گا۔‘‘ اس کے بعد حسب روایت ساتھی کی طرف سے معروف صحافی اور شاعر کی خدمت میں اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ساتھی نے جہاں منجھے ہوئے ادیبوں کو شائع کیا وہیں نوآموز قلم کا روں کی تحریروں کوبھی ضروری اصلاح کے بعد ہمیشہ مناسب جگہ دی، اور وقتاً فوقتاً ان کی تربیت کے لیے تربیتی نشستوں کا بھی اہتمام کیا۔ اس طرح ساتھی نے ان بیالیس برسوں میں ایک بڑی تعداد نئے ادیبوں کی متعارف کروائی، جنھوں نے آگے چل کر بچوں کے ادب میں اپنا نام پیدا کیا۔
اس کے بعد ناچیز کاساتھی کے بھول نمبر کے لیے لکھا گیا ڈراما ’بھول وبہار‘ (قصۂ سوا چار درویش) پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے کو ادارہ ساتھی نے خاص طور پر ویڈیو کی شکل میں تیار کیا تھا، جو کہ تیسری خوش گوار تبدیلی تھی ورنہ اس سے پہلے چودہ ایوارڈز میں ایسا تجربہ کبھی نہیں کیا گیا تھا۔
برقی پردہ پر جب یہ ڈراما چلنا شروع ہوا تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مسکراہٹیں بکھر گئیں اور اس طرح ساتھی کی محنت وصول ہوگئی۔ یہاں ان فن کاروں کا ذکر نہ کیا جائے کہ جنھوں نے اس ڈرامے کو تیار کرنے میں حصہ لیا اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے تو زیادتی ہوگی۔ ڈرامے کو دو مراحل میں تیار کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں جن فن کاروں نے درویش کے کرداروں کو اپنی آواز دی ان میں شجاع اللہ خان، محمد حامد، محمد مصطفی نذیر اور ایک درویش کے طور پر ناچیز کی آواز بھی شامل کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں اس کی ویڈیو بنائی گئی اور اس میں ناظرین نے جن فن کاروں کو درویشوں کے روپ میں دیکھا، ان میں محمد حامد، عثمان عمر، رشید الحق، صداقت علی اور محمد بلال صاحب تھے۔ ڈراما بہت عمدہ انداز میں ریکارڈ کرکے کے پیش کیا گیا۔
اس کے بعد معروف شاعر اکبر الٰہ آبادی جو اپنے طنزو مزاح کی وجہ سے مشہور ہیں کی نظم ’عشرتی کے نام‘ گوش گزار کی گئی۔ یاد رہے یہ نظم ماہنامہ ساتھی نے ماہ مئی ۲۰۱۷ء کے خاص شمارے ’’بھول نمبر‘‘ میں شائع کی تھی، ملاحظہ فرمائیے:
(٭ عشرتی … اکبر الہ آبادی کے صاحب زادے عشرت حسین)

عشرتی کے نام

عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا، عہدِ وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوّیوں کا مزا بھول گئے
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں وہاں
سایہ کفر پڑا، نورِ خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمنِ ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
کیسے کیسے دل نازک کو دکھایا تم نے
خبرِ فیصلہ روز جزا بھول گئے
بخل ہے اہل وطن سے جو وفا میں تم کو
کیا بزرگوں کی وہ سب جود و عطا بھول گئے؟
نقل مغرب کی ترنگ آئے تمھارے دل میں
اور یہ نکتہ کہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
کیا تعجب ہے؟ جو لڑکوں نے بھلایا گھر کو
جب کہ بوڑھے روشِ دین خدا بھول گئے

اکبر الہ آبادی کی نظم پیش کرنے کے بعد نماز مغرب کا وقفہ کیا گیا۔ مغرب کی نماز کے بعد تقریب کا ماحول بھی اپنے عروج پر تھا۔ ایوارڈز کی تقسیم، شرکاء کی تفریح کے لیے نئے نئے آئیڈیاز، قلم کاران اور ساتھی کے سابق مدیران سے ملاقاتیں اور تقریب کی میڈیا وال پر قلم کاران اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
اس طرح کی ادبی تقریبات ایک قلم کار کی دوسرے قلم کار اور قارئین کی اپنے پسندیدہ قلم کار سے ملاقات کا نادر مواقع ہوتی ہیں۔
مغرب کی نماز کے بعد ایک بار پھر سب کی توجہ اسکرین کی طرف ہو گئی اور ساتھی کی منظوم آپ بیتی آواز بیان ہونے لگی۔ جس میں آواز اور تصاویر دونوں سے مدد لی گئی۔ یہ خوب صورت منظوم آپ بیتی ساتھی کے پینتیس سالہ نمبر کے لیے معروف شاعر ’جناب عبدالقادر‘ نے لکھی، جسے بعد میں دیگر شعراء نے آگے بڑھایا۔ ساتھی کی اس منظوم آپ بیتی کو مشہور صدا کار ’اعتصام الحق‘ نے اپنی خوب صورت آواز میں پیش کیا۔ بلاشبہ یہ ایک عمدہ چیز تھی۔
ساتھی کی ایک یہ بھی خوب صورت روایت رہی ہے کہ ہر ایوارڈ کے موقع پر ساتھی اپنے سابق مدیران کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب میں دیگر رسائل کے مدیران کی کا وشوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ اس بار بھی سابق مدیرانِ ساتھی اور دیگر رسائل کے مدیران کو ’اے اینڈ آئی گروپ اور رسالہ ساتھی‘ کی طرف سے تحائف پیش کیے گئے۔ یہ تحائف ماہنامہ نونہال کے مدیر اعلیٰ ’سلیم مغل‘ صاحب نے پیش کیے۔
ساتھی کے سابق مدیران میں آفتاب الدین، اعظم منہاس، صادق جمیل، سید شمس الدین، قاضی سراج الدین، صہیب جمال، ضیاء شاہد، میر شاہد حسین، کاشف شفیع، نجیب احمد حنفی، سید فصیح اللہ حسینی اور محمد طارق خان نے اس تقریب میں شرکت کی جبکہ دیگر رسائل کے مدیران میں محمد فیصل شہزاد (بچوں کا اسلام)، سیف اللہ قاضی (بزم قرآن)، محبوب الٰہی مخمور (انوکھی کہانیاں)، علی حسن ساجد (جنگل منگل)، سعید سعیدی (بزم منزل)، عبدا لعزیز (ذوق و شوق) شامل تھے۔
تقسیم تحائف کے بعد سلیم مغل صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ’’رسالہ ساتھی کے مدیر، ممبران اور پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ آج کل کے دور میں جو بھی استقامت کے ساتھ کام کر رہا ہو، وہ مبارک باد کا مستحق ہے۔ اسی سلسلے میں ساتھی کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جو پچھلے بیالیس برسوں سے بچوں کے ادب کے لیے کام کررہے ہیں۔‘‘
ایوارڈ کے سلسلے کو ایک بار پھر آگے بڑھاتے ہوئے متفرق ایوارڈ کا اعلان کیا گیا اور مدیر اعلا جسارت اطہر علی ہاشمی صاحب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ اطہر علی ہاشمی صاحب نے متفرق ایوارڈ کے سلسلے میں مندرجہ ذیل قلم کاران کو ایوارڈ پیش کیے۔
محمد الیاس نواز (بہترین ڈرامہ نگار)، عظمیٰ ابو نصر (بہترین اسلامی کہانی)، محمد فیصل شہزاد (بہترین سفرنامہ)، گل ِرعنا (بہترین ترجمہ)، رانا محمد شاہد (بہترین مضمون نگار)، ڈاکٹر الماس روحی (بہترین محاورہ کہانی)۔
ایوارڈز کی تقسیم کے بعد اطہر علی ہاشمی صاحب نے اپنے تاثرات میں کہا کہ ’’جب میں نقاد کی حیثیت سے ساتھی میں شائع ہونے والی غلطیاں نکالتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ ایک کہانی نویس کتنی مشکل سے کہانی لکھتا ہے اور میں اس میں سے غلطیاں نکال رہا ہوتا ہوں لیکن میرا مقصد لوگوں کی اُردو کو بہتر کرنا ہوتا ہے تاکہ بچپن میں ہی بچوں کی اُردو بہتر کی جا سکے۔‘‘ مدیر اعلیٰ روزنامہ جسارت اطہر علی ہاشمی صاحب کی گفتگو کے بعد مدیر ساتھی نے شکریہ کے ساتھ مہمان گرامی کی شیلڈ پیش کی۔
تقریب کے دوران میڈیا سے تعلق رکھنے والے احباب قلم کاران اور مہمانانِ گرامی کے ساتھ ساتھ شرکاء کے بھی تاثرات ریکارڈ کرتے رہے۔ جو غالباً سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وقتاً فوقتاً نشر کیے جائیں گے۔
اس کے بعد پھر مرحلہ آیا بہترین کہانی ۲۰۱۸ء کے ایوارڈز دینے کا۔ جس کے لیے معروف شاعرہ اور آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کی چیئر پرسن، محترمہ ’عنبرین حسیب عنبر ‘کو دعوت دی گئی۔ انھوں نے سیما صدیقی، راحت عائشہ، شازیہ فرحین اور فاطمہ نور صدیقی کو بہترین کہانی کار ۲۰۱۸ء کے ایوارڈز پیش کیے۔ عنبرین حسیب عنبر کا کہنا تھا کہ ’’بچوں کی چالاکی کو ذہانت میں کیسے تبدیل کرنا ہے، یہ کام ہمارے قلم کاران کے کرنے کا ہے جو شاید وہ اس طرح نہیں کر رہے جس طرح اس کا حق ہے۔ یہ بھاری ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم کس طرح اس ذمہ داری کو احسن طریقے انجام دیتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ان لوگوں کو نشان سپاس پیش کیے گئے۔ جنھوں نے بچوں کے ادب میں گراں قدر خدمات انجام دیں لیکن آج وہ ہم میں نہیں ہیں۔ نشان سپاس پانے والوں میں، افق دہلوی (معروف بچوں کے شاعر)، ابصار عبدالعلی (بچوں کے معروف شاعر اور کہانی کار)، شمعون قیصر (ادیب اور ساتھی کے سابق مدیر)، چودھری بلال حنیف (ادیب اور سابق نائب مدیر ساتھی) شامل ہیں۔ (اللہ تعالیٰ ان تمام کی کاوشوں کو قبول فرماے اور ان کے درجات بلند فرماے۔ آمین) مذکورہ افراد کی خدمات کو سراہتے ہوئے نشان شپاس کا ایوارڈ پیش کرنے کے لیے ڈائریکٹر اسلامک سوسائٹی آف چلڈرن ہوبیز، عمر احمد خان کو دعوت دی گئی۔ شمعون قیصر کا ایوارڈ حماد ظہیر نے قبول کیا جبکہ بلال حنیف کا اُن کے بھائی حسین حنیف نے قبول کیا۔
ساتھ ہی اس رائٹرز ایوارڈ کی تقریب میں خصوصی تعاون کرنے والے باصلاحیت افراد کو اعزازی شیلڈز بھی پیش کی گئیں، جن میں، محمد حامد (ڈرامہ اداکار)، شجاع اللہ خان (صدا کار)، اعتصام الحق (صدا کار)، فائز اقبال (فوٹو گرافر)، محمد امین (پرنٹنگ)، محمد عثمان (اداکار)، صداقت علی (اداکار)، سید عبد الرشید (اداکار) اور محمد بلال (اداکار) سر فہرست ہیں۔
اعزازی شیلڈ پیش کرنے کے بعد ڈائریکٹر بزم ساتھی ’ڈاکٹر احسان الحق‘ کو دعوت دی گئی، انھوں نے ساتھی کی ٹیم کو اعزازات تقسیم کیے۔ بلاشبہ ساتھی کی پوری ٹیم کی گراں قدر کاوشوں سے ہی ایسی شان دار تقریب دیکھنا ممکن ہوا۔
وقت کی رفتا ر نے معلوم ہی نہ ہونے دیا کہ کب تقریب کے اختتام کا وقت ہوگیا اور نقیب داروں نے پرجوش انداز میں اس خوب صورت تقریب کے اختتامی کلمات اور دعا کے لیے مدیر ساتھی عبدالرحمن مومن کو مدعو کیا۔ مدیر ساتھی نے اس تقریب کے تمام مہمانان، قلم کاران، شرکاء، معاونین کا شکریہ ادا کیا اور دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پزیر ہوئی۔ جس کے بعد ایک بہترین عشائیہ حاضرین کا منتظر تھا۔
اس سلسلے میں یہاں ان کمپنیوں کا ذکر کرنا اور ان کے تعاون کو سراہنا بھی از حد ضروری ہے۔ جنھوں نے بچوں کے ادب کی اس تقریب کو اپنا تعاون فراہم کیا۔ اس تقریب کو ’چیزاَپ، اے اینڈ آئی گروپ اور انگلش مایونیز‘ کا تعاون حاصل رہا۔ جبکہ اس کو نشر کرنے میں میڈیا پارٹنر کے طور پر معروف نیوز چینل ’نیو نیوز‘ نے بھی متحرک کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ’ وائس آف سائوتھ ایشیا‘ اور ’ماس میڈیا پروڈکشن‘ نے بھی اس کو نشر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’اے اینڈ آئی گروپ‘ کی ٹیم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اسے براہ راست نشر کیا اور اس طرح اس شاندار تقریب کا اختتام ہوا، جسے شرکا بہت عرصے تک یاد رکھیں گے۔

حصہ