۔” متاعِ شام سفر” محمد انور عباسی کی شگفتہ خود نوشت

615

نعیم الرحمن
مطالعے کے عادی افراد کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہوتی۔ لیکن بعض کتابیں ہزاروں کتب کا مطالعہ کرنے والے قاری کا دامنِ دل بھی کھینچ لیتی ہیں۔ محمد انور عباسی کی ایسی ہی ایک منفرد اور شگفتہ خودنوشت ’’متاعِ شام سفر‘‘ ایمل پبلشرز اسلام آباد نے اپنی روایتی صوری و معنوی خوبیوں سے آراستہ شائع کی ہے۔ 474 صفحات کی کتاب کی قیمت 650 روپے بہت مناسب ہے۔
محمد انور عباسی تحریرکی دنیا میں کچھ ایسے آشنا نہیں، لیکن ان کا اسلوب بہت سے مستند لکھاریوں سے بہتر اور دل نشین ہے۔ خودنوشت کے پہلے جملے سے جو دل چسپی قائم ہوتی ہے، وہ آخری لائن تک برقرار رہتی ہے۔ شگفتگی کی زیریں لہر پوری کتاب میں موجزن ہے جو ایک مرتبہ اسے شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر نہ چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ اورکتاب کے ختم ہونے کے بعد بھی قاری اس کے سحر سے آزاد نہیں ہوپاتا۔ اردو ادب میں ایسی خوب صورت اور دل چسپ نثر کی مثال بہت کم ملے گی۔
خودنوشت میں صاحبِ طرز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی ’’زرگزشت‘‘، اظہر حسن صدیقی کی ’’دخل درمحصولات‘‘، معروف براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری کی ’’سرگزشت‘‘ اور کرنل محمد خان کی ’’بجنگ آمد‘‘ کا انداز اس میں جھلکتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور کرنل محمد خان تو اردو کے مستند مزاح نگار ہیں۔ یوسفی صاحب کی کتاب کے نام سے ایک باب تو انور عباسی نے عملی زندگی کے آغاز پر ’’ہماری زرگزشت‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے۔ اظہر حسن صدیقی کی خودنوشت بھی کہیں خندہ زیر لب اورکہیں مسکراہٹ اور کہیں قہقہہ لگانے پر مجبور کردیتی ہے۔ زیڈ اے بخاری کی خودنوشت کا بھی یہی عالم ہے۔ ’’متاعِ شام سفر‘‘ میں بھی یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں، اور یوسفی کے ہی انداز میں محمد انور عباسی شگفتہ اندازِ بیاں میں زندگی اور معاشرت کے اہم پہلوئوں کی نشاندہی کر تے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس خوبی نے کتاب کی اہمیت دوچند کردی ہے۔
صاحبِ کتاب محمد انور عباسی کہتے ہیں کہ ’’خودنوشت کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ اس میں سچ دوسروں کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے مارک ٹوئن نے انیسویں صدی کی ابتدا میں اپنی خودنوشت لکھی، لیکن کہا کہ اسے ایک صدی کے بعد شائع کیا جائے تاکہ وہ سارے لوگ مرچکے ہوں جن کے بارے میں سچ بولا گیا ہے۔ یقین جانیے ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ہم نے دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں بھی سچ ہی لکھاہے۔ احتیاط البتہ یہ ضرور برتی ہے کہ اپنے اور دوسروں کے وہی سچ بیان ہوں جو فسادِ خلق کا باعث نہ ہوں۔ سارے سچ اپنے ہی پاس رہنے دیں تو اچھا۔ لہٰذا بلا خوف ِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ہم سے وہی سچ ناگفتہ رہ گئے ہیں جو ہر لحاظ سے ناگفتنی تھے! آخر اپنا بھرم بھی تو قائم رکھنا ہوتا ہے نا۔‘‘
ناشر شاہد اعوان نے فلیپ پر عمدہ کتاب اور مصنف کا تعارف ’’کتاب اور صاحب ِکتاب: ایک تاثر‘‘ کے عنوان سے کرایا ہے: ’’آپ بیتی لکھنا ایک مشکل کام ہے، سچ پوچھیں تو کسی شریف آدمی کے لیے یہ کارِدارد ہے۔ پھر اس میں ایسا دل چسپ لوازمہ فراہم کرنا کہ مصنف سے ذاتی تعلق نہ رکھنے والا قاری بھی اسے اتنی دل چسپی سے پڑھ سکے کہ کتاب ختم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ گل و بلبل کے قصے نہ ہوں، نہ ساغر و مینا کی قلقل، تصویرِ بتاں کی جگہ متشرع چہرے والی اپنی ہی تصویر اور حسینوں کے بجائے کسی مولانا کے خطوط ہوں تو قاری کیوں کر ملتفت ہو! ہمارے ممدوح، انور عباسی صاحب نے اس خامی کا دف مارنے کو اپنی ’’جڑیں کھودتے‘‘ ہوئے مقامی ثقافت کے متروک نقوش اور زندگی کے مٹتے رنگوں سے ایسی خوب صورت تصاویر پینٹ کیں کہ ایک غیر محسوس کشش نے کتاب کے حُسن کو نامیاتی چاشنی بخش دی۔ ماضی کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے خوب صورت حصہ ہوتاہے، اور ہم مشرق والے تو جیتے ہی ماضی میں ہیں۔ جدید ترین کار کے سفر پر بھی گاؤں کی خچر سواری یاد کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔ سو، انور صاحب نے بھی اپنے ماضی کو آواز دی اور ہمارے سامنے تصویر کرکے رکھ دیا۔ قاری کے لیے ٹائم مشین کا یہ سفر دنیا کے کسی بھی سفر سے زیادہ پُرمسرت اور کیف آور ہے۔ قریہ قریہ پھرتے تاجر کے پاس شام ڈھلے، فروخت کرنے کو ہلکا مال ہوتا ہے، مگر شاہراہ ِ حیات کے مسافر کے پاس شام کے وقت موجود متاعِ عزیز وہ سرمایہ ہے جسے زندگی کا حاصل کہتے ہیں۔ اس کتاب میں یہی خزانہ ہے۔‘‘
شاہد اعوان نے کس خوب صورت انداز سے محمد انور عباسی کا تعارف کرایا ہے کہ قاری ان کی تحریر کے فسوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ آخر میں انہوں نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ’’میں نے یہ تحریر ناشر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عزیز اور بزرگ دوست کو خراج پیش کرنے کے لیے لکھی ہے۔ ایسا خراج جو ہمیں اپنے عزیزوں کو، اُن کی زندگی میں ہی پیش کرنا چاہیے۔‘‘
محمد انور عباسی نے پیش لفظ کو ’’ایف آئی آر‘‘ کا عنوان دیا ہے‘ لکھتے ہیں:

۔کتنی تصویروں کے ساتھ آئی ہے شامِ زندگی
وقت جب کم رہ گیا تو کام یاد آئے بہت

ضمیر جعفری کو تو غالباً ایسے کام یاد آگئے ہوں گے، جو کرنے کے تھے مگر ابھی کر نہ سکے ہوں۔ میرے پاس کچھ بھی توکرنے کے لیے نہیں تھا، میں پریشان کیوں ہوتا؟ ایسے میں شامِ زندگی صرف ماضی میں ہی جھانکنے کا حوصلہ دلا سکتی ہے۔ ماضی کے لمحات، زندگی کے قیمتی لمحات کی ایسی تصویریں جو سرعت کے ساتھ وقت کے دھندلکوں میں غائب ہوگئی تھیں، یقین نہیں آتا اس طرح آموجود ہوں گی۔ یہ ماہ وسال پھسل کر کدھر نکل گئے تھے مُٹھی میں بند ریت کے ذرات کی طرح آہستہ آہستہ اور غیر محسوس، خاموش اور دبے پاؤں ماضی کی اتھاہ گہرائیوں میں ایسی جگہ جہاں شعور کی روشنی کا کوئی گزر نہیں۔ ماضی پیارا ہوتا ہے، اپنا ماضی۔ یہ یادوں کی وہ صلیب ہے جو انسان کو کسی حالت میں نہیں چھوڑتی۔ اس کے دُکھ، اس کے سُکھ، تکلیف اور آرام، اس کی ہر شے اپنی… اور اپنی چیز کسے پیاری نہیں ہوتی! شاہ ہو یا گدا، غریب ہو یا امیر، سب ماضی کے اسیر۔ ماضی ہی وقت کی سب سے بڑی حقیقت۔ مستقبل توکسی نے دیکھا نہیں۔ اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ اس کا ہر لمحہ تیزی سے ماضی میں تبدیل ہورہا ہے۔ حال ہے کہاں؟ کیا ہم ایک سیکنڈ کو حال کہیں گے؟ سیکنڈ کے دسویں حصے کو یا اس کے کروڑویں حصے کو؟ ہم تو مستقبل کو ماضی بنتے اور حال کو بے حال ہوتے ایک تماشائی کی طرح تکتے رہتے ہیں۔ کچھ بھی باقی نہیں سوائے ماضی کے، اور اچانک کسی وقت ہم سب اسی ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ رہے نام اللہ کا۔‘‘
انور عباسی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ہم نے یہ مقدمہ خود اپنی ہی عدالت میں دائرکیا ہے۔ ہمیں کوزہ گر وکوزہ خر وکوزہ فروش مدعی، مدعا علیہ اور منصف ہم ہی بقلم خود، بلکہ بہ کمپیوٹر خود، لہٰذا فیصلے کے خلاف اپیل کی گنجائش نہیں۔ شاید یہ بیان اتنا درست نہ ہو۔ مقدمے کے ایک حصے کے خلاف اپیل تو کیا، اُسے مکمل طور پر مسترد کیا جاسکتا ہے۔ یہ حصہ واقعات کی تفہیم و تعبیر اور ذاتی علم و فہم سے تعلق رکھتا ہے۔ رہا دوسرا حصہ، تو جاننا چاہیے کہ حقائق و واقعات کسی کے فہم و فراست کے تابع نہیں ہوتے۔ ہم کیا اور ہمارا ماضی کیا۔ اختصارکی طرف آئیں تو یہی کہ دنیا میں آئے، کھایا، پیا اور مرگئے۔ فراق نے مجنوں کی داستان یوں سنائی تھی کہ

ایک تھا مجنوں، عاشقِ لیلیٰ، ویرانے میں موت ہوئی
اور اگر تفصیل سے پوچھو، یہ قصہ طولانی ہے

اچھی نثر لکھنے کی خواہش میں شروع شروع میں ہم نے کوشش کی کہ اہلِ علم و دانش سے اصلاح لی جائے اور مشورہ کیا جائے کہ ہماری یہ ادنیٰ سی کاوش قابلِ اشاعت ہے بھی یا نہیں؟ ہمیں خدشہ یہ رہا کہ اگر کوئی واقعی یہ مشورہ دے بیٹھے کہ یہ اچھی نثر نہیں، لہٰذا ناقابل ِ اشاعت ہے تو کیا ہوگا؟‘‘
یہ بلاشبہ کسر نفسی ہے، ورنہ محمد انور عباسی کا اسلوب انتہائی دلچسپ، پُراثر اور نثربہت خوب صورت اوررواں دواں ہے۔ ہرسطر اور پیرے میں شگفتگی کی ایک زیریں لہر قاری کو جکڑے رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ماضی کی بے شمار اشیا، الفاظ اور محاوروں کو بڑی خوب صورتی سے بازیافت کیا ہے، بہت سی ایسی چیزیں جو ہمارے بچپن میں استعمال ہوتی تھیں، جن کا ہم نے صرف ذکر سنا ہے خصوصاً شہری افراد نے تو شاید نام بھی نہ سنا ہو، ایسی اشیا کا ذکر انور عباسی ایسے دل کش اسلوب میں کرتے ہیں کہ دلچسپی تو قائم رہتی ہی ہے، معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور مختار مسعود تک اردو کے بعد کم مصنفین ہیں جن کی لکھی کوئی ایک سطر بھی قاری چھوڑ نہیں سکتا، بلکہ بعض سطور اپنی دلچسپی کی بنا پرکئی کئی بار پڑھی جاتی ہیں۔ یہ خوبی محمد انور عباسی کی نثر میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح تحریر کی بے پناہ قوت اس کے اقتباسات کے چناؤ میں بھی مشکل ثابت ہوتی ہے کہ کون سا پیرا دیا جائے اور کون سا نہیں۔
(جاری ہے)

غزلیں

عادل فریدی

اسی مکاں میں ہیں دیوار و در کا حصہ ہیں
شجر کے ساتھ پرندے بھی گھر کا حصہ ہیں
ہے منقسم کئی حصوں میں زندگی اپنی
کسی کے خواب کسی چشم تر کا حصہ ہیں
ہم اس تضاد کی دنیا میں کچھ نہ ہوتے ہوئے
سخن شناس ہیں عرض ہنر کا حصہ ہیں
یہ تشنگی یہ اداسی تھکن اور اس کی یاد
یہ گرم ریت یہ صحرا سفر کا حصہ ہیں
ہے یوں تو شاخ بریدہ خزاں گزیدہ مگر
پرندے آج بھی بوڑھے شجر کا حصہ ہیں
جو نشر ہو گئی ہم اس خبر کا حصہ نہیں
جو نشر ہونا ہے ہم اس خبر کا حصہ ہیں
نئے افق نئی منزل کے ہم سفر عادلؔ
نئی رتوں کا نئی رہ گزر کا حصہ ہیں

سمیع جمال

دل کو ویران کر گئے شاید
خواب سارے بکھر گئے شاید
ایک سناٹا رہ گزر میں ہے
قافلے سب گزر گئے شاید
جس طرف دیکھیے قیامت ہے
نیک انسان مر گئے شاید
ٹیس اٹھی نہیں ہے قدرت سے
زخم سب دل کے بھر گئے شاید
بوئے گل ہی نہیں چمن میں جمالؔ
پھول سارے بکھر گئے شاید

فیض عالم بابرؔ

زخم میرے تمہیں اس وقت نظر آئیں گے
جب عیادت کے لیے شمس و قمر آئیں گے
جل نہ جانا کہیں اس کا بھی ذرا دھیان رہے
قربتِ نار میں اُڑ اُڑ کے شرر آئیں گے
خود کو چٹخے ہوئے آئینے میں دیکھو تو کبھی
ایک چہرے کے کئی عکس نظر آئیں گے
پھول توڑے کوئی یا شاخ سے پتے نوچے
سبز پیڑوں پہ مگر پھر بھی ثمر آئیں گے
خوش رہو حال میں یا حال میں بے حال رہو
زندگی میں تو کئی زیر و زبر آئیں گے
ہو گئی دوستی جس روز ستاروں سے مری
میں بھی جائوں گا ادھر وہ بھی ادھر آئیں گے
کھو گئے ہوں گے کہیں راہ میں لیکن بابرؔ
صبح کے بھولے ہوئے شام کو گھر آئیں گے

حصہ