دانیہ آصف
واہ عمر! تمہاری گائے کے گلے میں کتنی خوبصورت گھنٹی ہے ارے یہ تو عالیان کی گائے سے بھی زیادہ پیاری ہے۔ ریان نے اونچی آواز میں کہا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا عمرا ابھی اترا ہی رہا تھا کہ امی کی آواز آئی سنائی دی۔ ’’عمر! ارے اٹھ جالڑکے کتنا سو گئے اسکول سے دیر ہو رہی ہے۔ عمر نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا: ’’ بائیں! یہ خواب تھا امی میں نے آج بہت اچھا خواب دیکھا ہے کہ میری برائون رنگ کی موٹی تازی گائے آئی ہے اور سب دوست اس کی خوب تعریف کر رہے ہیں‘‘ وہ بستر سے اٹھتے ہوئے بولا امی! ہر بار ابو بکرا لاتے ہیں لیکن اس بار ہماری گائے ہی آئے گی بس میں نے کہہ دیا یہ کہتا ہوا منہ دھونے چلا گیا۔ امی بستر سمیٹتے ہوئے بولیں۔ ’’یہ لڑکا تو دیوانہ ہو گیا ہے۔ ناشتے کے دوران بھی عمر گائے کا ہی ذکر کرتا رہا اور دادا جانی اس کی باتیں سن کر مسکراتے رہے۔
عمراسکول میں بھی دوستوں سے قربانی کے جانوروں کا ذکر کرتا رہا۔ واپس آتے ہی اس نے بستہ میز پر رکھتے ہوئے امی کو آواز لگائی، ’’امی آپ نے ابو سے بات کی‘‘۔ کون سی بات! امی نے کھانا لگاتے ہوئے پوچھا۔ ’’امی گائے کی اور کون سی بات‘‘ عمر منہ بناتے ہوئے بولا جائو تم منہ ہاتھ دھوکر آئو کھانا کھائو پھر بات کرتے ہیں۔ امی نے سوچا کہ اب عمر کو سمجھانا ہی پڑے گا عمر منہ ہاتھ دھو کر آیا تو دادا جانی بھی دسترخوان پر آچکے تھے۔ امی نے سالن پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا: عمر میری جان! آپ کے بابا نے صرف بکرے کے ہی پیسے جمع کیے ہیں۔ ان شاء اللہ کوشش کرکے اگلے سال قربانی کے لیے گائے لے لیں گے۔ ’’مگر امی! جب عالیان اترا اترا کر اپنی گائے گلی میں پھرا رہا ہوتا ہے تو بس کی نظریں اس کی گائے پر ہی ٹک جاتی ہیں اور میرا بکرا کسی کو نظر ہی نہیں آتا۔‘‘ عمر نے کہا تو امی نے تھوڑے غصے سے کہا عمر بس سمجھا دیا نا ایک بار ضد نہیں کرتے‘‘ دادا نے اشارے سے امی کو غصہ کرنے سے منع کیا تو امی چپ ہو گئیں اور عمر منہ پھلا کر کھانا کھانے لگا۔
’’دادا جانی! یہ لیں آپ کی چائے آگئی۔ چائے رکھ کر عمر جانے لگا تو دادا جانی نے آواز دی۔ ’’عمر یہاں آکر بیٹھو دادا کی جان۔ جی دادا جانی! عمر پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔ دادا جان پیار سے بولے۔ ’’آپ کو گائے کس وجہ سے چاہیے؟‘‘ عمر تو خود دادا جانی سے بات کرنا چاہتا تھا فوراً بولا ’’میرا بھی دل چاہتا ہے کہ ہماری بھی گائے آئے اور میں عالیان کی طرح شان سے پھرائوں اور سب کہیں کہ عمر کی گائے تو سب سے اچھی ہے۔ اور میری گائے کی خوب واہ واہ ہو۔‘‘ دادا جانی سوالیہ انداز میں بولے ’’بیٹا! آپ جانتے ہیں کہ ہم قربانی کیوں کرتے ہیں۔ جی دادا جانی میں نے اپنی درستی کتاب میں پڑھا ہے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ عمر سنجیدگی سے بولا ’’شاباش عمر! آپ کو تو سب پتا ہے‘‘ دادا جانی نے کہا۔ بیٹا! اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کرنے کے لیے قربانی کی جارہی ہے تو نیت بھی خالص اللہ کو خوش کرنے کی ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جانور نہیں نیت دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حیثیت کے حساب سے قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لیے قرض لے کر کی جانے والی قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول نہ کریں گے بلکہ سچے دل سے صرف اللہ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے کی گئی قربانی ہی اللہ کے ہاں قبول ہو گی۔‘‘ ’’آپ نے ٹھیک کہا دادا جانی میں نے اپنی بے وقوفی میں امی کو صد کرکے پریشان کر دیا مجھ سے غلطی ہو گئی میں امی سے بھی سوری کروں گا‘‘ عمر شرمندگی سے بولا۔ ’’پھر کب چلیں گے بکرا لینے؟ دادا جانی کے پیار کرنے پر وہ پھر چہکتے ہوئے بولا۔ دادا جانی بولے ’’جیسے ہی آپ کے بابا آ جائیں تو ہم منڈی چلیں گے۔‘‘
اگلے دن عمر اپنا بکرا ٹہلانے کے لیے نکلا تو سامنے عمار کو اداس بیٹھا دیکھا۔ ’’کیا ہوا عمار عمر کے پوچھنے پر عمار نے بتایا کہ ’’اس بار ہمارا بکرا نہیں آسکے گا رات ہی ابو نے بتایا ہے‘‘ تو تم اداس کیوں ہو رہے ہو آئو مل کر اس بکرے کو سیر کراتے ہیں۔ سچ! عمار بکرے کو پیار کرتے ہوئے بولا۔ تو عمر کی خوشی بھی عمار کو خوش دیکھ کر دوبالا ہو گئی۔