کرن مجاہد
آج جب میرے 14 سالہ بیٹے نے مجھ سے سوال کیا کہ امی ہم 14 اگست کیوں مناتے ہیں تو حیرت سے میرا منہ کھل گیا اور آنکھیں پھٹ گئیں اور بے اختیار میں نے اسے ڈانٹا کہ تم کیسے پاکستانی ہو کہ تمہیں معلوم نہیں کہ 14 اگست کیوں دھوم دھام کے ساتھ مناتے ہیں یہ وہ دن ہے جب ہم انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے اور وہ خطہ ہمیں ملا جو اللہ کی دی ہوئی بے حساب نعمتوں سے مالا مال ہے اس نے فوراً دوسرا سوال کیا کہ اگر ہم آزاد ہیں تو کیوں ہم مغرب کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ہمارے طور طریقے رہن سہن بول چال سب میں انگریزوں اور ہندوئوں کا رنگ کیوں ہے ہمارا ملک جو اسلام کے نام پر بنا اس میں کون سا شریعتی نظام نافذ ہے ہر معاملے ہر مسئلے کا حل قرآن کے بجائے انگریز قانون دانوں کی کتابوں سے نکالا جاتا ہے۔
بیٹے کے پے در پے سوالوں نے مجھے ہلا ڈالا مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا واقعی ہم اسلام کے نام پر قائم ملک کے باسی ہیں کیا واقعی یہاں اللہ کا نظام قائم ہے جو اب آیا نہیں ہم تو پھر سے مغرب کے اسیر بنتے جا رہے ہیں حالانکہ پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں امن و آشتی کا دور دورہ تھا جہاں کی ہوا تازگی کی روح پھونکنے والی تھی جہاں کا پانی صحت و تندرستی کا خزانہ لے کر ہماری رگوں میں دوڑتا تھا جہاں کے باسی جواں مردی بھائی چارے اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے شریعت خداوندی کی اتباع جن کا شعار تھا دھرتی ماں کے لیے آن بان شان جان و مال عزت سب وقف تھی مگر اب کیا ہو گیا آج ہماری نئی نسل قول و فعل کے تضاد سے حیران و پریشان ہے عجیب بے چینی مایوسی بے قراری نا امیدی کا عالم ہے ہم جیسے جیسے قرآنی آئین سے دور ہوتے جا رہے ہیں مغرب اور دشمنان اسلام ہمارے ذہنوں دلوں عملوں میں حاوی ہوتے جا رہے ہیں گویا ہم دوبارہ اسیری کا طوق پہننے کے لیے اپنے دشمنوں کے آگے سرنگوں ہوتے جا رہے ہیں۔
4-3 دن بعد ہم اپنا 72 واں یوم آزادی منانے جا رہے ہیں ملک کے کونے کونے کو جھنڈیوں سے سجایا جا رہا ہے ملک کا پرچم ہر گلی کوچے میں آویزاں کیا جا رہا ہے مگر ہماری آنکھیں ندامت سے جھکی ہوئی ہیں ہر طرف ملی نعموں کا شور ہے مگر کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہونے کا دعویٰ ہے مگر سندھی پنجابی پشتو بلوچی مہاجر سب اپنے اپنے دھڑے بنا کر ملک کا شہرازہ بکھیرنے میں لگے ہوئے ہیں سوہنی دھرتی کے ذرے ذرے سے پیار کا دعویٰ ہے مگر یہاں تو ذرے ذرے کو تباہ و برباد تعفن زدہ کرنے کا گویا پلان بنائے بیٹھے ہیں اخوت و مساوات کا محبت و ہمدردی کا سبق بھلا کر لوٹ مار قتل و غارت دھوکہ دہی نفسا نفسی دولت و مرتبے کی لالچ میں مبتلا ہو گئے ہیں یہ ہم سب پاکستانیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہے ہمارا 72 واں یوم آزادی اس عہد کے ساتھ منایا جائے کہ ملک اور اس کے نظام کو خالص بنانے میں ہر شخص حصے دار بنے گا اور 72 واں یوم آزادی ایک نئے سورج کا ساتھ طلوع ہو گا جو ذہنی جسمانی فکری عملی آزادی کا اجالا ہر سو بکھرا دے گا جب ہر ملی نغمہ سچ اور حق پر مبنی ہو گا پرچم کے سائے تلے جب ایک کیا جائے گا تو واقعی صوبائی طبقائی لسانی امتیاز کا قلع قمع ہو چکا ہو گا سوہنی دھرتی کے ذرے ذرے کو چمکا دیا جائے گا امن و آشتی کا دور دورہ ہو گا کیوں کہ جاگ اٹھے گا سارا وطن سبزہلالی پرچم آن بان شان اور آزاد ملک قوم کا نشان بن کر لہرائے گا اور ہم اپنی نئی نسل کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے اور کہہ سکیں گے کہ ہم آزاد جمہوریہ پاکستان کے آزادی شہری ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔ ان شاء اللہ