شاہراہوں پر سیلاب کا منظر… ندی نالے ابل پڑے، بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونے کی وجہ سے عوام کو چھتوں پر پناہ لینا پڑ گئی، سڑکوں پر سیکڑوں موٹر سائیکلیں پانی میں بند، کئی گاڑیاں بہہ گئیں، ٹریفک نظام درہم برہم، اسکول بند، دفاتر میں حاضری نہ ہونے کے برابر، کرنٹ لگنے کے نتیجے میں 24 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بجلی سپلائی کرنے والے محکمے کے متعدد فیڈر ٹرپ کر گئے، شہر کا 80 فیصد حصہ بجلی سے محروم، پینے کے صاف پانی کی لائنوں میں سیوریج کا گندہ پانی سپلائی ہونے لگا، ڈیم کے کناروں پر شگاف پڑنے سے آس پاس کے کئی علاقے زیرآب آگئے، متعدد ٹاؤنز میں سیلابی پانی داخل ہوگیا، پانی کا ریلا کئی گاڑیاں بہا کر لے گیا، ہر طرف تباہی کے مناظر، شہر کا دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع… حکومت اور شہری انتظامیہ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف، عوام فوج سے مدد مانگنے لگے، زیر آب علاقوں میں غوطہ خور اور کشتیاں بھیج دی گئیں۔
یہ کوئی افسانوی داستان نہیں، نہ ہی کسی تباہ حال افریقی ملک کی کہانی ہے، نہ سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے سیلاب کا ذکر ہے، اور نہ ہی بنانا جیسی ریاست کا قصہ… یہ تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بارش کے نتیجے میں ہونے والی ان تباہ کاریوں کا آنکھوں دیکھا حال ہے جن کے باعث شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی۔ شہرِ قائد میں بادل کیا برسے، سارا کراچی ہی ڈوب گیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ ذرا سی برسات کیا ہوئی، عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کرنے والے سندھ کے حکمرانوں سمیت تمام ہی صوبائی و شہری ادارے بے بس نظر آئے۔
ایک طرف بارش تباہی مچا رہی تھی، کئی علاقے سیلابی ریلے کی زد میں آچکے تھے، گوٹھوں سے نقل مکانی کی جارہی تھی اور کرنٹ لگنے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا، تو دوسری طرف اربابِ اختیار سڑکوں کے کنارے ناشتا کرتے تصویریں بنوانے میں مصروف تھے۔
صاحبانِ اقتدار کے کراچی کے عوام کو لاوارث چھوڑ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے یوں پکنک مناتے دیکھ کر مجھے وہ کراچی یاد آگیا جب اس خوبصورت شہر میں پانی کے تالاب، کلب، بیکریاں، کشادہ سڑکیں، واٹر سپلائی کی اسکیم، لائبریریاں، کمیونٹی سینٹرز، اسپتال، گھوڑے باندھنے کے جدید اصطبل، دو منزلہ مکانات اور مکانوں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے لان اور ان میں نصب فوارے ہوا کرتے تھے۔ کراچی ایک صاف ستھرا شہر ہوتا تھا۔ روشنیوں کے اس شہر کی بات ہی نرالی تھی۔ کچرے کا نام و نشان تھا اور نہ ہی گٹر اُبلتے تھے۔ گندے پانی کے نکاس کے لیے نہ صرف سیوریج سسٹم موجود تھا بلکہ برساتی پانی کے نکاس کے لیے بھی شہر کے گرد بہترین برساتی نالوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ رات میں ٹریفک کی آمدورفت کم ہوتے ہی پانی کے ٹینکر سڑکوں کی دھلائی کرتے دکھائی دیتے۔
جن لوگوں نے بھی یہ مناظر دیکھے ہیں، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ روشنیوں اور صفائی کی وجہ سے شہر کی چمکتی سڑکیں ایک الگ ہی منظر پیش کرتی تھیں۔ شاہراہوں کے کنارے لگائے گئے درخت شہر کی خوب صورتی کو مزید چار چاند لگاتے تھے، جس کی وجہ سے پورا شہر سرسبز وشاداب دکھائی دیتا تھا۔ یہاں رہنے والوں کا یہ معمول تھا کہ وہ شہر کی پختہ فٹ پاتھوں اور روشنیوں سے چمکتی سڑکوں پر چہل قدمی کرتے، اور رات گئے اپنے گھروں کو لوٹتے۔ ملک کے طول و عرض سے لوگ اس شہر کی رونقیں دیکھنے آتے۔ ہمارے بھی کئی رشتے دار جون، جولائی کی چھٹیاں گزارنے کراچی آیا کرتے۔ اُس وقت کشادہ سڑکوں، خوب صورت گلیوں اور آباد پارکوں کا شہر کراچی اپنی مثال آپ تھا۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی کو مثالی شہر بنانے کا نعرہ لگاکر انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے والوں نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کی خاطر اسے کھنڈرات میں تبدیل کردیا، جہاں پینے کا صاف پانی ہے نہ صحت کے ادارے… پارک رہے نہ چمچماتی سڑکیں… تعلیمی ادارے بدحالی کا شکار… ٹرانسپورٹ نام کی کوئی چیز نہیں… ہر محکمے میں مافیا کا راج… اور محکمہ بجلی یعنی کے الیکٹرک کی تو بات ہی نرالی ہے۔ کل تک اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کرنے، اور ناجائز بل بناکر غریبوں کی جیبیں کاٹنے والا یہ محکمہ اب لوگوں کو قتل بھی کرنے لگا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے شہر بھر میں لگائے جانے والے غیر معیاری تاروں کی زد میں آکر کسی نہ کسی شہری کا اپنی جان سے جانا روز کا معمول ہے۔ صرف رواں ہفتے ہونے والی برسات میں 4 بچوں سمیت 24 بے گناہ قیمتی جانیں کے الیکٹرک کے بوسیدہ نظام کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 2005ء سے لے کر اب تک یہ محکمہ مسلسل کراچی کے عوام کو اذیت دینے میں مصروف ہے، اور موجودہ حکومت سمیت کوئی حکومت اس محکمے کے خلاف کچھ نہ کرسکی۔ کے الیکٹرک چلانے والے ابراج گروپ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران اس محکمے کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ابراج گروپ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیوں کر اور کن وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے، عوام اس سارے چکر سے بے خبر ہیں۔ ویسے سنا ہے پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے، شاید یہاں بھی ایسی ہی کسی طاقت کا اثر ہو۔ جو بھی ہو، لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ محکمہ وہ سرکش گھوڑا ہے جس کو لگامیں ڈالنا ہمارے حکمرانوں کے بس کی بات نہیں… اور پھر منہ کھائے آنکھ شرمائے جیسے مصداق سے کون واقف نہیں!
خیر، بھینس کے آگے بین بجانے سے بہتر ہے کہ کراچی میں ہونے والی طوفانی برسات تک ہی محدود رہا جائے۔ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہورہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہر خطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابلِ برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں۔
یہی صورتِ حال کراچی کے موسم کی بھی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو۔ یہ صورتِ حال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابلِ پیشن گوئی رہے گا، اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورت حال کے لیے تیار رہیں۔
ہم تو تیار ہیں اور رہتے بھی ہیں، لیکن جن کا کام ہے وہ خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ کراچی میں تباہی مچانے والی بارش کی کوئی وارننگ جاری نہ کی گئی ہو۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے تو ایک ہفتہ قبل ہی طوفانی بارش کا الرٹ جاری کردیا گیا تھا، تاہم شہر میں برساتی نالوں کی صفائی کا کام نہ ہوسکا۔ تیز بارش کی وجہ سے شہر میں سیلابی صورتِ حال کے خطرے کی وارننگ بھی جاری کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ کراچی میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں 1994ء کا ریکارڈ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ بادل 25 سال پرانا حساب بھی چکتا کرسکتے ہیں، لیکن انتظامیہ پھر بھی نیند سے نہ جاگی۔ اس ساری صورتِ حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ سندھ کے حکمران اور کراچی بلدیہ سمیت شہری انتظامیہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کررہے ہیں۔