ہادیہ امین
سیف اللہ کو بڑے بڑے پہاڑ دیکھنے اور ان پر چڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے خوابوں میں کئی دفعہ مائونٹ ایورسٹ اور کے ٹو سر کر چکا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ایک دن کسی پہاڑ کی چوٹی پر جاکر اپنا چھوٹا سا گھر بنائے گا۔ اگست کا مہینہ شروع ہونے کو تھا۔ 14 اگست قریب تھی اسی لئے لوگ اپنے گھروں کو رنگین جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجا رہے تھے۔ سیف اللہ نے بھی اپنے گھر کو سجانے کے لئے جھنڈے اور جھنڈیاں خریدیں مگر مغرب کا وقت ہونے کی وجہ سے اس نے اگلے دن گھر سجانے کا فیصلہ کیا۔اس نے مغرب کی نماز پڑھی،کھانا کھایا اور پھر نماز عشاء پڑھ کے جھنڈیاں تکیے کے پاس رکھ کر سو گیا۔۔
“وہاں دور پہاڑ پر تمہارا گھر ہے۔جائو! وہاں جا کر یہ جھنڈا اور جھنڈیاں لگا لو”
یہ کس کی آواز تھی،یہ تو نہیں پتا۔۔ سیف اللہ نے پہاڑ کی طرف دیکھا۔۔ ایک انتہائی خوب صورت گھر سیف اللہ کا منتظر تھا۔ مگر رستہ بہت دشوار اور طویل تھا۔ کوئی بات نہیں،میں راستہ طے کر لونگا،کوئی پیمائی میرا شوق ہے اور جس چیز کا شوق ہو وہ چیز آسان ہو ہی جاتی ہے۔ سیف اللہ نے سوچا اور اللہ کا نام لے کر پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ یہ عجیب ہی دنیا تھی۔ یہاں سب بول سکتے تھے۔ سیف اللہ کے ایک ہاتھ میں جھنڈا اور دوسرے میں جھنڈیاں تھیں۔ وہ دونوں کو ایک ہاتھ میں کر کے سہارا لیتا ہوا آگے بڑھا۔ بلندی پر جاتا ہر قدم مشکل سے اٹھ رہا تھا کی اچانک ہی کوئی چیز ہوا کی تیزی کے ساتھ سیف اللہ کے منہ پر آکر لگی۔ “یا اللہ! یہ کیا ہے؟؟”
سیف اللہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔
“میں وہ چپس کا ریپر ہوں جو تم نے کل ہی باہر پھینکا تھا۔ میں اڑتا اڑتا یہاں پہنچ گیا ”
“اچھا! میرے منہ پر سے تو ہٹو” سیف اللہ کو شدید مشکل ہو رہی تھی۔۔
“نہیں،تمہارے ساتھ ہی رہونگا،تمہارے اس پہاڑ والے گھر تک جائونگا۔۔کیوں مجھے کچرے دان میں نہیں ڈالا؟ نہیں چاہ رہو تم میں تمہارے اس خوبصورت گھر تک جائوں کیونکہ گھر گندا ہوگا۔ ۔کیا پاکستان گھر نہیں ہے تمہارا۔۔کیوں اس کو گندا کیا؟؟”
“اچھا سوری! مجھے معاف کردو۔۔اب یہ غلطی نہیں ہوگی،ہٹ جائو،میرا یقین کرو مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا”
سیف اللہ پریشان تھا۔ اسکے یہ کہتے ہی ریپر ہٹ گیا۔۔
سیف اللہ کو دکھائی دینا شروع ہوا۔ وہ اور آگے بڑھا۔ جیسے جیسے زمین دور ہو رہی تھی، ویسے ویسے گھر قریب آ رہا تھا۔ کوشش اور خوشی دونوں بڑھتی جا رہیں تھیں۔ اچانک شور سا اٹھا
“رک جائو! رک جائو! پہلے ہمیں پانی دو، ہمارا پانی واپس کرو”
یہ بہت سارے لوگ تھے۔ ان کے ہاتھوں میں خالی بوتلیں اور بالٹیاں تھیں۔ ساتھ چھوٹے بچے بھی تھے جو پیاس سے نڈھال لگ رہے تھے۔ سب ہی کا بہت برا حال تھا۔۔
“میں نے نہیں لیا تمہارا پانی،تم لوگ کون ہو،یہاں کیسے چڑھ گئے؟”
سیف اللہ گھبرا رہا تھا۔ ایک تو راستہ مشکل۔۔اوپر سے ایک اور مشکل۔۔اور مشکل کے بعد پھر مشکل۔۔
“ہم تمہارے پہاڑ والے گھر کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور پاکستان بھی تمہارا گھر ہے۔ جھوٹ نہ بولو۔۔ جو پانی تم نے وضو کرتے ہوئے ضائع کیا تھا وہ ہمارا پانی تھا۔ تمہیں میسر تھا تو تم نے ضائع کردیا۔۔ ہمیں پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔۔اور تم دیکھ رہے تھے کہ تمہارے ابو کی گاڑی صاف کرنے والے انکل صاف گاڑی کو بھی اتنا پانی بہا کر دھوتے ہیں مگر تم کچھ نہیں کہتے۔۔تمہارے گھروں میں ٹنکیاں بھر بھر کے بہتی ہیں مگر تم کچھ نہیں کرتے۔۔تمہارے گھر میں کپڑے برتن دھلتے وقت اتنا پانی ضائع ہوتا ہے کہ کئی لوگوں کو کافی ہو جائے،مگر تم دیکھتے ہو اور کچھ نہیں کہتے۔۔تم قصوروار ہو ہمارے پیاسے ہونے کے۔۔ہم نہیں جانے دینگے۔ تمہارے گھر میں بھی پانی نہیں ہے۔۔تم نے سب بہا دیا۔۔کیوں پاکستان کا اتنا خیال نہیں ہے جتنا اس پہاڑ والے گھر کا ہے؟”
سب لوگ ناراض تھے۔کچھ تو رو بھی رہے تھے۔۔سیف اللہ خود بھی رونے لگا۔۔لوگوں کی ہر بات درست تھی،ہر اعتراض بجا تھا۔ مگر وہ سخت مشکل میں تھا۔۔واپس جانا بھی مشکل،آگے بڑھنا بھی مشکل۔۔
“میرا وعدہ ہے،آئندہ نہ میں خود پانی ضائع کرونگا،نہ کسی کو کرنے دونگا۔۔پانی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہم لوگ اسکی بہت ناقدری کرتے ہیں،یہ سوچے بغیر کہ ایک ایک قطرے کا حساب ہوگا”
“ٹھیک ہے،جائو”
سب لوگ چلے گئے۔۔ایک بچے نے تو جاتے ہوئے سیف اللہ کو دھکا بھی دینا چاہا مگر اس کی امی نے روک لیا۔۔
“نہیں بیٹا،وطن کے دشمنوں سے لڑتے ہیں،وطن میں رہنے والوں سے نہیں۔ انکو بلندی پہ جانے دو اور ان کے لئے دعا کرو”
سیف اللہ بچے کے دھکے سے ڈر گیا۔ اگر دھکا لگ جاتا تو سیف اللہ خواب میں پہاڑ کے اور حقیقت میں بستر کے نیچے ہوتا۔۔وہ اور آگے بڑھا۔۔بڑھتا گیا۔۔راستے میں اسکو کوئی چیز اڑتی دکھائی دی۔۔”یہ کیا چیز ہے !میں ان سے آگے کیسے بڑھوںگا؟” اس نے دل میں سوچا۔۔
“ہم چاول کے دانے ہیں۔۔ہم منے منے نوالے ہیں۔۔ہم روٹی کے ٹکڑے ہیں۔۔ہم اللہ کا وہ رزق ہیں جسکا ادب ضروری تھا۔۔ہمارے ذریعے کئی لوگوں کا پیٹ بھر سکتا تھا۔۔مگر آپ نے ضائع کردیا”
“آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔میں بالکل بھی کھانا ضائع نہیں کرتا۔ ۔”
سیف اللہ نے صفائی دی۔۔
“جی آپ احتیاط سے کھاتے ہیں مگر صرف گھر میں،جب آپ شادی میں ہوتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے کھانا پھر نہیں ملے گا۔۔آپ بہت سارا کھانا نکالتے ہیں،پھر وہ پورا ختم نہیں ہوتا اور وہ ضائع ہو جاتا ہے جو کسی اور کی ضرورت بھی پوری کرسکتا تھا۔۔اللہ کا رزق بہت احترام کے لائق چیز ہے۔۔ہمیں ہلکا نہ لیا کریں۔ جیسے پہاڑ پہ آپکا گھر ہے ویسے پاکستان بھی آپکا گھر ہے اور پاکستانی آپکے گھر والے۔۔ابھی بھی کچھ گھر ایسے ہیں جہاں فاقے ہوتے ہیں۔ان کو ڈھونڈ لیا کریں”
سیف اللہ نے ان سے بھی معافی مانگی۔۔آئندہ احتیاط کرنے کا وعدہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔۔گھر قریب آگیا تھا۔۔فاصلہ تھوڑا ہی رہ گیا تھا۔۔ہر قدم مشکل تھا۔۔ترقی کا سفر ہوتا ہی مشکل ہے مگر انتھک محنت اور پرچم سے محبت بڑی بڑی چوٹیاں سر کروا دیتی ہے۔۔
ایک،دو،تین۔۔بس تین قدم دور۔۔سیف اللہ نے ہمت کی ۔۔وہ اپنے گھر تک پہنچ گیا۔۔اس کو اس گھر سے بہت پیار تھا۔۔یہ اسنے بہت قربانیوں اور قدم قدم پہ مشکلات اٹھا کر حاصل کیا تھا۔۔بہت جدو جہد کی تھی۔۔سیف اللہ رو رہا تھا۔۔اسنے بیگ سے جھنڈیاں نکا لیں تو اسکو آواز آئی،
“ہمیں نہیں لگنا ۔۔ہمیں بیگ میں ہی رہنے دیں!”
یہ جھنڈیوں کی آواز تھی۔۔روتی ہوئی آواز۔۔
“مگر کیوں؟” سیف اللہ حیران تھا۔۔یہاں تو ہر کوئی ہی بول رہا تھا۔۔
“لوگ ہماری عزت نہیں کرتے۔۔14 اگست گزر جائے تو ہم پیروں کے نیچے ہوتے ہیں” غم کی وجہ سے بیچاری جھنڈیوں سے کچھ نہ کہا گیا۔۔
“مجھے بھی چھوڑ آئو۔۔مجھے بھی مت لگائو”
یہ جھنڈے کی آواز تھی۔۔ہمارا پاکستانی پرچم۔۔غم انکا بھی بہت بڑا تھا۔۔بلکہ شاید سب سے بڑا۔۔مگر آواز میں ایسا دبدبہ تھا کہ سیف اللہ سے کچھ بولا ہی نہ گیا۔۔
“تم لوگ میری قیمت نہیں جانتے۔۔میرا حق نہیں پہچانتے۔ ۔صرف 14 اگست کو،ہاں ہاں صرف 14 اگست کو ایک جھنڈے تلے جمع ہوتے ہو۔۔اور باقی سال،نیلے،پیلے،کالے،لال،ہرے اور نجانے کن کن مختلف جھنڈوں کی خاطر دوسروں سے لڑتے ہو،مذاق اڑاتے ہو،اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے یہ کیسے مسلمان ہو۔۔تم نئی نسل کے لوگ اس جھنڈے کی قیمت کیا جانو۔۔یہ جو نیچے ہجوم کھڑا ہے نا؟”
سیف اللہ نے نیچے دیکھا۔۔نیچے بچے،بوڑھے،جوان ہر طرح کے لوگوں کا ہجوم تھا۔۔
“یہ وہ تمام لوگ ہیں جو وطن کی خاطر قربان ہوئے۔۔جو ایک پرچم کی قیمت جانتے تھے۔۔سمجھتے تھے۔۔جو نیک مقصد کے لیے ایک ہوئے تھے۔۔تم کیا جانو اس پرچم کو پانے کی خاطر تمہارے بڑوں پہ کیا کیا بیت گیا۔۔مگر تم لوگ،اس ایک پرچم کو چھوڑ کے،ہر پرچم کے نیچے کھڑے ہو۔۔چھوڑ دو سیف اللہ مجھے”
آواز میں اتنا رعب تھا کہ سیف اللہ حیران تھا۔۔اسنے ایسی آواز کبھی نہیں سنی تھی۔۔
“میں آپ کو مایوس نہیں کرونگا۔۔میں دنیا کے ہر گوشے میں،تعلیم و ترقی کے ہر میدان میں آپکا نام روشن کرونگا۔ ۔میں نیچے کھڑے ہر انسان کی قربانیوں کا صلہ دینے کی پوری کوشش کرونگا۔ ۔میں اپنے ہم وطنوں کو سیدھی راہ پر لانے کی پوری کوشش کرونگا۔ ۔میرا وعدہ ہے”
پاک سر زمین کے خوبصورت پرچم کے چہرے پر امید کی کرن جاگی۔۔سیف اللہ نے پہاڑ کی چوٹی پر سبز ہلالی پرچم لہرادیا۔۔جب خواب سے اسکی آنکھ کھلی تو وہ، وہ سیف اللہ تھا جسکے اندر قدرت نے سوتے ہوئے بہت سے عزائم جگا دیئے تھے۔۔اللہ تعالیٰ ہر پاکستانی کو سچا مسلمان اور مخلص محب وطن بنائے اور پاکستان کو تا قیامت اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔(آمین)۔