پروانے

1889

ماہ نور الیاس

زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

۔”اپنا سائز دیکھو اور پروانے کا” امی بولیں۔ مفرح پورے گھر میں خوف سے چیختی ہوئی بھاگ رہی تھی۔ اسے پروانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور اندھیرا کر کے ایک کونے میں چپ گئی۔ ہاے بے چارے معصوم کیڑے ہیں، انہیں مارو تو مت! مفرح کو کمرے کے اندر سب آوازیں آرہی تھیں۔ امی اس کی بڑی بہن ہدی کو ڈانٹ رہی تھیں۔ وہ دونوں کمرے میں بیٹھ کر سوچنے لگیں۔ ہدی بولی “یار بارش کی دعا کی تھی پروانوں کی تھوڑی۔ مفرح نے بھی اقرار کیا۔
یہ پروانے، کبھی غور کیا ہے کیا شے ہیں آخر؟ اگر ہم اس پر تحقیق کریں تو ہمیں معلوم ہو کہ یہ ہے کیا۔ پروانہ وہ کیڑا ہے جسے روشنی سے عشق ہوتا ہے۔ (اس وقت بھی میرے ارد گرد پروانے ہی گھوم رہے ہیں۔) علامہ اقبال اپنی نظم دعا میں اللہ سے آرزو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یا اللہ میری زندگی کو پروانے کی مانند بنا دیں۔ اس سے علامہ اقبال کی یہ مراد ہے کہ جس طرح پروانے کو روشنی سے عشق ہوتا ہے اس طرح مجھے علم کی روشنی سے عشق کرا دیں۔

یہ علم کی ہیں جو روشنیاں میں گھر گھر میں لے جاؤں گا
تعلیم کا پرچم لہرا کر میں سر سید بن جاؤں گا

تو اس سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ علم حاصل کرنے کی کتنی اہمیت ہے۔ اللہ تعالی نے ہر چیز کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہوتا ہے بالکل اسی طرحپروانے کو ہمیں کچھ سکھانے کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر آپ کبھی پروانے کو دیکھیں تو آپ نے غور کیا ہوگا کے وہ مسلسل روشنی کے ارد گرد گھومتا ہے اور اسی سے جل کر ہی مرتا ہے۔ ہمیں بھی خوب محنت سے پڑھنا چاہیے تاکہ ہمیں اس کا بہترین صلہ ملے۔

حصہ