غازی صدیقی
ناک نقشہ بھی خوب تھا اس کا
چال ڈھال میں بھی عیاں غرور تھا اس کا
زلفیں دیکھیں تو کوئی جال تھا جس میں
ہمارا دل نجانے جکڑ دیا کس نے
آنکھوں میں اک سمندر موجزن تھا اس کی
جس کو دیکھو نگاہ کا اسیر تھا اس کی
ابا نے ہم سے جو پوچھا کہ بیٹا قبول ہے
ہم نے فوراََ سے یہ اقرار کیا ہاں قبول ہے
بات طے ہوئی کوئی پچیس ہزار میں
بکرا ہم بھی اک لے آئے پھر اپنے دیار میں