انجیل کی پیشن گوئیاں: دُعائے خلیلؑ و نویدِ مسیحاؑ

1220

سید مہرالدین افضل

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خوش خبری کو ہم کہاں تلاش کریں؟ یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ ہمارا مکالمہ اُن لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے ہیں۔ ضروری ہے ہمارے ہر بچے کو اس سلسلے میں درست معلومات ہوں تاکہ وہ بہتر مکالمہ کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں۔ تفہیم القرآن سورہ الصف کے حاشیہ نمبر 8 میں اس پر تفصیلی بحث کی گئی ہے، یہاں ہم اس کا اختصاریہ پیش کررہے ہیں۔
انجیل کی پیشن گوئیاں: انجیل یوحنا میں باب 14 سے 16 تک مسلسل درج ذیل پیشن گوئیاں منقول ہوئی ہیں:
’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا…کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے، یعنی روحِ حق، جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے۔ پر تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہے۔‘‘(باب 16 آیت 14، 17) ۔
’’میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا، اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘(باب 14 آیت 25، 26) ۔
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا…کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ (باب 14، آیت 30) ۔
’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے، تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘(باب 15، آیت 26) ۔
’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے… کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا… لیکن اگر جائوں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔‘‘ (باب 16، آیت 7) ۔
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں، مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا، تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا… لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا… اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔ اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل کرکے تمہیں خبریں دے گا۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے۔ اس لیے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا۔‘‘ (باب 12 : آیات 15۔ 16) ۔
انجیل سے نقل کی گئی درج بالا عبارتوں کے واضح مفہوم کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ
(1) مسیح علیہ السلام اور ان کے زمانے کے اہلِ فلسطین کی عام زبان آرامی زبان کی وہ بولی تھی جسے سریانی (Syriac) کہا جاتا ہے۔ فلسطین کے عام لوگ سریانی کی ایک خاص بولی (Dialect) استعمال کرتے تھے، جس کے لہجے، تلفظات اور محاورات دمشق کے علاقے میں بولی جانے والی سریانی سے مختلف تھے، اور اس ملک کے عوام یونانی سے ناواقف تھے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے جو کچھ کہا تھا وہ سریانی زبان ہی میں ہوگا۔
(2 ) دوسری بات یہ جاننا ضروری ہے کہ بائبل کی چاروں انجیلیں اُن یونانی بولنے والے عیسائیوں کی لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے تھے۔ اُن تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال و اعمال کی تفصیلات سریانی بولنے والے عیسائیوں کے ذریعے سے کسی تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی روایات کی شکل میں پہنچی تھیں… اور اِن سریانی روایات کو انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کرکے درج کیا تھا۔ ان میں سے کوئی انجیل بھی 70 عیسوی سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے، اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک صدی بعد لکھی گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان انجیلوں کا بھی کوئی اصل نسخہ اُس یونانی زبان میں موجود نہیں ہے جس میں ابتدا میں یہ لکھی گئی تھیں۔ مطبع کی ایجاد سے پہلے کے جتنے بھی یونانی مسودات جگہ جگہ سے تلاش کرکے جمع کیے گئے ہیں اُن میں سے کوئی بھی چوتھی صدی عیسوی سے پہلے کا نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تین صدیوں کے دوران میں ان کے اندر کیا کچھ رد و بدل ہوئے ہوں گے۔ اس معاملے کو جو چیز خاص طور پر مشکوک بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق جان بوجھ کر تبدیلی اور اضافہ کرنے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (ایڈیشن 1946ء) کے مضمون ’’بائبل‘‘ کا مصنف لکھتا ہے: ’’اناجیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پوری پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتاب میں شامل کردینا… یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے اپنے ارادے سے کیے ہیں جنہیں اصل کتاب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا… اور وہ اپنے آپ کو اتھارٹی سمجھتے رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ فائدہ مند بنانے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اضافہ کردیں… بہت سے اضافے دوسری صدی ہی میں ہوگئے تھے، اور کچھ نہیں معلوم کہ یہ کہاں سے لیے گئے تھے۔ اس صورتِ حال میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو اقوال ہمیں ملتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک نقل ہوئے ہیں اور ان کے اندر کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے۔
تیسری نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی تقریباً تین صدیوں تک فلسطین کے عیسائی باشندوں کی زبان سریانی ہی رہی، اور نویں صدی عیسوی میں جاکر عربی زبان نے اس کی جگہ لی۔ ان سریانی بولنے والے اہلِ فلسطین کے ذریعے سے عیسائی روایات کے متعلق جو معلومات ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان علماء کو حاصل ہوئیں وہ اُن لوگوں کی معلومات کے مقابلے میں زیادہ قابلِ اعتبار ہونی چاہئیں جنہیں سریانی سے یونانی اور یونانی سے لاطینی زبانوں میں ترجمہ ہوکر یہ معلومات پہنچیں۔ کیونکہ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے اصل سریانی الفاظ ان کے ہاں محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات تھے۔
ان ناقابلِ انکار تاریخی حقائق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ انجیل یوحنا کی مذکورہ بالا عبارات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ’’دنیا کا سردار‘‘(سرور عالم) ہوگا، ’’ابد تک‘‘ رہے گا، ’’سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا‘‘، اور خود ان کی (یعنی حضرت عیسیٰ کی) ’’گواہی دے گا‘‘۔ یوحنا کی ان عبارتوں میں ’’روح القدس‘‘ اور ’’سچائی کی روح‘‘ وغیرہ الفاظ شامل کرکے اصل پیغام کو غیر واضح کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے، مگر اس کے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے وہ کوئی روح نہیں بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے، جس کی تعلیم عالمگیر، ہمہ گیر اور قیامت تک باقی رہنے والی ہوگی۔ اس شخص ِخاص کے لیے اردو ترجمے میں ’’مددگار‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور یوحنا کی اصل انجیل میں یونانی زبان کا جو لفظ استعمال کیا گیا تھا، اس کے بارے میں عیسائیوں کو اصرار ہے کہ وہ Para Cletusتھا۔ مگر اس کے معنی کیا ہیں؟ خود عیسائی علماء بھی مشکل میں پڑ گئے… اصل یونانی زبان میں Para Clateکے کئی معنی ہیں: کسی جگہ کی طرف بلانا، مدد کے لیے پکارنا، اِنذار و تنبیہ، ترغیب، اُکسانا، التجا کرنا، دعا مانگنا۔ بائبل میں اس لفظ کو جہاں جہاں استعمال کیا گیا ہے، ان سب مقامات پر اس کے کوئی معنی بھی ٹھیک نہیں بیٹھتے۔ اورائجن(Origen) نے کہیں اس کا ترجمہ Consolator کیا ہے اور کہیں Deprecator، مگر دوسرے مفسرین نے ان دونوں ترجموں کو رد کردیا، کیوں کہ اول تو یہ یونانی گرامر کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں، دوسرے تمام عبارتوں میں جہاں یہ لفظ آیا ہے، یہ معنی نہیں چلتے۔ بعض اور مترجمین نے اس کا ترجمہ Teacher کیا ہے ، مگر یونانی زبان کے استعمالات سے یہ معنی بھی اخذ نہیں کیے جا سکتے۔ ترتولیان اور آگسٹائن نے لفظ Advocate کو ترجیح دی ہے، اور بعض اور لوگوں نے Assistant، اور Comforter، اور Consoler وغیرہ الفاظ اختیار کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ پیریکلیٹس)۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان ہی میں ایک دوسرا لفظ Periclytos موجود ہے جس کے معنی ہیں ’’تعریف کیا ہوا‘‘۔ یہ لفظ بالکل ’’محمد‘‘ کا ہم معنی ہے ، اور تلفظ میں اس کے اور Paracletus کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جو مسیحی حضرات اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق بے تکلف رد و بدل کرلینے کے عادی رہے ہیں انہوں نے یوحنا کی نقل کردہ پیشن گوئی کے اس لفظ کو اپنے عقیدے کے خلاف پڑتا دیکھ کر اس کے املا میں یہ ذرا سی تبدیلی کردی ہو۔ اسے چیک کرنے کے لیے یوحنا کی لکھی ہوئی ابتدائی یونانی انجیل بھی کہیں موجود نہیں ہے جس سے یہ تحقیق کی جا سکے کہ وہاں ان دونوں الفاظ میں سے دراصل کون سا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی کہ یوحنا نے یونانی زبان میں دراصل کون سا لفظ لکھا تھا، کیونکہ بہرحال وہ بھی ترجمہ ہی تھا… اور حضرت مسیح کی زبان، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، فلسطین کی سریانی تھی، اس لیے انہوں نے اپنی بشارت میں جو لفظ استعمال کیا ہوگا وہ لامحالہ کوئی سریانی لفظ ہی ہونا چاہیے۔ خوش قسمتی سے وہ اصل سریانی لفظ ہمیں ابن ہشام کی سیرت میں مل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اسی کتاب سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا ہم معنی یونانی لفظ کیا ہے۔ محمد بن اسحاق کے حوالے سے ابن ہشام نے (یوحنا کی) انجیل کے باب 15، آیات 23 تا 27، اور باب 16 آیت 1 کا پورا ترجمہ نقل کیا ہے اور اس میں یونانی ’’ فارقلیط‘‘ کے بجائے سریانی زبان کا لفظ مُنحَمَنَّا استعمال کیا گیا ہے۔ پھر ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ ’’مُنحَمَنَّا کے معنی سریانی میں محمد اور یونانی میں برقلیطس ہیں۔‘‘ (ابن ہشام، جلد اول، ص 248) ۔
اب دیکھیے کہ تاریخی طور پر فلسطین کے عام عیسائی باشندوں کی زبان نویں صدی عیسوی تک سریانی تھی، یہ علاقہ ساتویں صدی کے نصف اوّل سے اسلامی مقبوضات میں شامل تھا۔ ابن اسحاق نے 768ء میں اور ابن ہشام نے 828ء میں وفات پائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی بولتے تھے، اور ان دونوں کے لیے اپنے ملک کی عیسائی رعایا سے تعلق پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ اور اس زمانے میں یونانی بولنے والے عیسائی بھی لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مقبوضات کے اندر رہتے تھے، اس لیے ان کے لیے یہ معلوم کرنا بھی مشکل نہ تھا کہ سریانی کے کس لفظ کا ہم معنی یونانی زبان کا کون سا لفظ ہے۔ اب اگر ابن اسحاق کے نقل کردہ ترجمے میں سریانی لفظ مُنحَمَنَّا استعمال ہوا ہے، اور ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ عربی میں اس کا ہم معنی لفظ محمد اور یونانی میں برقلیطْس ہے، تو اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ مبارک لے کر آپؐ ہی کے آنے کی بشارت دی تھی، اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یوحنا کی یونانی انجیل میں دراصل لفظ Periclytos استعمال ہوا تھا جسے عیسائی حضرات نے بعد میں کسی وقت Paraetusسے بدل دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے آپؐ کی آمد سے متعلق واضح پیشن گوئی اور نشانیاں انجیل میں پاتے تھے… اسی لیے نجاشی نے فوراً یہ کہا کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں، اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی‘‘۔ البتہ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰؑ کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اُس وقت موجود تھا۔ (جاری ہے)۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ