گھریلو تشدد اور سوشل میڈیا

962

۔34سالہ محسن عباس حیدر ملک کے معروف ابھرتے ہوئے فلمسٹار، گلوکار، نغمہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو نجیب الطرفین سید بھی بتاتے ہیں ، تاہم جو کچھ انہوں نے اپنی صفائی میں بیان کرنے کے لیے پریس کانفرنس میں کیا وہ انتہائی شرمناک اور حد درجہ افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے ۔ویسے انسان جب ایسی نہج پر پہنچ جائے کہ اُسے اپنی بات بتانے یا یقین دلانے کے لیے قرآن مجید کا سہارا لینا پڑ جائے تو اس سے زیادہ کیا شرمناک ، تشویش ناک بات ہو سکتی ہے ۔ صرف بات یہاں نہیں رکی بلکہ جواب میں اُن کی اہلیہ نے بھی اپنے مبینہ تحریری ثبوتوں کے ہوتے ہوئے یہی کام کیا۔گذشتہ ہفتہ ٹوئٹر پر محسن عباس کے ٹرینڈ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔گھریلو تشدد کا شکار اس کی اہلیہ فاطمہ سہیل نے بھی اپنی دکھی داستان سنانے اور انصاف کے لیے عدالت سے قبل سماجی میڈیا کا ہی سہارا لیا۔فاطمہ سہیل نے 20جولائی کواپنی تشدد زدہ تصاویر کو سوشل میڈیا پر طویل تحریری داستان کی صورت میں جاری کیا ۔نتیجتاً وہ وائرل ہو گئی ، کیونکہ وہ خود بھی میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھتی تھیں ۔ان کی بنیادی کہانی تو17جولائی کی تھی جب وہ اپنے شوہر کے گھر اپنے نومولود بیٹے کے ہمراہ گئیں اور ان کے مطابق محسن عباس نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔اس کے بعد سماجی میڈیا پر بھونچال آگیاصرف 12238 کمنٹس اور کوئی 16ہزار سے زائد بار فاطمہ کی فیس بک پوسٹ شیئر ہوئی ۔( ٹوئٹر کے حوالے سے خاتون نے وضاحت کر دی کہ وہ ٹوئٹر استعمال نہیں کرتی)۔ محسن عباس نے مزید ستم یہ کیا کہ فاطمہ کی پوسٹ پر بات صحیح کی ( گھر پر آ کر بات کر لو ، بیچ چوراہے پر بات کرنا درست نہیں )لیکن اس کے ساتھ اپنی اہلیہ کے لیے بدترین لفظ کا استعمال کر کے اپنا کیس مزید کمزور کر دیا۔لیکن پریس کانفرنس میں انہوں نے تردید کر دی کہ ان کے تمام سماجی میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہو چکے ہیں ۔
سب اپنی اپنی تجاویز ، مشوروں کے ساتھ میدان میں آگئے ۔معاملہ پریس کانفرنس و جوابی پریس کانفرنس پر چلا گیا۔یہی نہیں بلکہ فیس بک سے چلتا ہوا عالمی میڈیا ( بی بی سی) تک جا پہنچا۔جس نجی ٹی وی چینل میں محسن ایک معروف شو میں معاون میزبان کے طور پر کام کرتے ہیں ، بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ ’’مقامی ٹی وی چینل دنیا نیوز نے خود کو محسن عباس حیدر سے علیحدہ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘جب تک وہ اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرتے دنیا نیوز ان کے ساتھ کام نہیں کرے گا‘‘۔پولیس کے درج شدہ مقدمہ میں ’ خیانت کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔اس بارے میں پولیس افسر کا موقف یہ ہے کہـ’ جسمانی تشدد کے حوالے سے کوئی میڈیکل رپورٹ موجود نہیںتھی ۔ گھریلو تشدد جب ثابت ہوتا جب معائنہ کرنے والا ڈاکٹر پولیس کو تجویز کرتا ۔‘محسن عباس نے اسے اپنا گھریلو ذاتی معاملہ قرار دیا ہے ۔اہلیہ کی وجہ سے معاملہ میڈیا پرآیا جس کی وجہ سے دفاعی حیثیت میں بیان دینے پر وہ مجبور ہوئے ہیں۔تمام الزامات سے تردید کرتے ہوئے عدالت سے انہوں نے عبوری ضمانت تو لے لی لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے۔
محسن نے سوشل میڈیا طوفان کو دیکھتے ہوئے اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے باوجود یہ بتاتے ہوئے کہ یہ ان کی تربیت کا تقاضہ نہیں ، لیکن دفاع میں بولنے کے لیے قرآن مجید کا سہارا لیا اور 42منٹ طویل ایک پریس کانفرنس اس طرح کی کہ اس دوران وہ اپنا ہاتھ قرآن مجید پر رکھے رہے کہ لوگ جان سکیں کہ وہ لفظ لفظ سچ ہی بول رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ محبت کی شادی انتہائی جلدی میں ہوئی ، جو کہ نہیں ہونی تھی۔اس بات کا اندازہ ہمیں شادی کے چند ماہ بعد ہی ہو گیا تھا ۔محسن عباس نے اپنے سسر ، بہن، بھائی کو گواہ بنا کر ہی اپنی اہلیہ پر انتہائی سخت الزامات عائد کر دیئے۔چار سالہ شادی میں ان کا کہنا تھا کہ ہم بمشکل ایک سال ساتھ رہے ، چھ ماہ قبل مکمل علیحدگی ہو چکی تھی ایک رات اچانک وہ خاتون گھر آتی ہیں اور گھر نام کرنے کا مطالبہ کیا۔محسن کا کہنا ہے کہ دوران حمل علاج و ڈسچارج تک کے تمام اخراجات وہ بھیجتے رہے ۔
عثمان جرال لکھتے ہیں کہ ’’ہر بار مرد ہی کیوں عورت کی بھی غلط ہو سکتی ہے!ہمارے ملک میں صرف عورت کارڈ استعمال ہوتا ہے ۔میرا جسم میری مرضی والیاں عورتوں کو کیا پتہ مرد کی عزت کا!میں محسن کے ساتھ ہوں ۔‘‘اسی طرح اداکار مرزا گوہر رشید نے اس حوالے سے لکھاکہ ،’’فاطمہ میرے لیے بہن جیسی ہے، جب اس پر تشدد ہوا تو اس نے اپنی شادی بچانے اور اپنے بچے کے تحفظ کی فکر کی جس کے باعث ہم بھی خاموش ہوگئے لیکن اب اس نے خود ہی اس معاملے پر آواز اٹھائی ہے۔ ڈی جے جیسے لوگ معاشرے کیلئے خطرہ ہیں ، میں انہیں جذباتی ، بے رحم یا ذہنی بیماری کے طور پر نہیں بلکہ ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہوں، فاطمہ کو انصاف کے ساتھ مدد کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
خرم منور لکھتے ہیں کہ ’ایک عورت نے ٹویٹ کیا کر دی۔ تْم سب بغیر تحقیق کے محسن کو گالیاں دینا شروع ہو گئے۔ یار تحقیق تو کر لوہو سکتا ہے یہ عورت جھوٹ بول رہی ہو۔ اور ویسے بھی محسن کا اس معاملے میں جب تک بیان نہ آ جائے، کچھ بھی کہنا فضول ہے۔ ‘ جیا ملک اسی تناظر میں لکھتی ہیں کہ ’عورتوں پر گھریلو تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں صبر،برداشت،صلہ رحمی اور تربیت کا کتنا فقدان ہے،ڈگریاں لینے سے یہ فقدان دور نہیں ہو سکتا،حکومت کو اس پہ قانون سازی کرنا ہوگی،اسلام کہیں عورت پہ ظلم کا حکم نہیں دیتا۔‘اسی طرح یہ بھی کہاگیاکہ ،’سوشل میڈیا پہ ٹرینڈ بن گیا لوگ شروع ہوگئے تبصرے کرنایہ نہیں سوچتے کہ بد کردار عورتیں پہلے رنگ رلیاں مناتی ہیں پھر علیحدہ ہونے کے لیے ایسا ڈرامہ رچاتی ہیں!شریف عورتیں معاملات ماں باپ کی موجودگی میں خاموشی سے حل کرواتی ہیں۔‘‘
معروف ٹی اداکار ہ اقراء عزیز نے جو خود لکس اسٹائل ایوارڈ میں یاسر حسین کے ساتھ اپنی منگنی کی رسم اور اس کے بعد فرط جذبات میں یاس کے گلے لگنے اور ان کو چومنے کی وائرل ہونے والی ویڈیو کی وجہ سے سماجی میڈیا پر اضافی شہرت پا چکی تھیں۔انہوں نے بھی اس پر فاطمہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہاکہ ’’تن سازی انسان کو مضوط بناتی ہے لیکن کسی عورت پر ہاتھ اٹھانا آپ سے مرد ہونے کا اعزاز چھین لیتا ہے۔ہمیں یہ سننے کی بھی ضرورت نہیں کہ اس وقت آپ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا اور نہ ہی آپ کی کہانی کی ضرورت ہے۔ اب وقت ختم ہو گیا ہے۔‘‘اس کے علاوہ ہانیہ عامر، منشا پاشا و دیگر نے بھی خواتین پر تشدد کے حوالے سے اپنا موقف ڈ ٹ کر پیش کیا۔ان کی اہلیہ نے بھی جوابی پریس کانفرنس کی اور اپنے شوہر پر ناجائز تعلقات کا الزام قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر کیااور اپنا مدعا گھریلو تشدد کے دائرے میں کیس لڑا، محسن کو غصیلا،تشدد پسند، مرضی مسلط کرنے والا قرار دیا۔اس ضمن میں پنجاب حکومت نے بھی نوٹس لیا ہے اور ہر طرح کے قانونی تحفظ کا وعدہ کیا ہے ۔
بہر حال ہمارا موضوع تو سوشل میڈیا پر جاری گفتگو سے تھا اور وہ خوب گرم رہی ہے ۔بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کیا ہم قرآن مجید کو اب ان کاموں کے لیے استعمال کریں گے۔ نکاح کے وقت خطبہ کے اندر ایک ہی آیت تین بار پڑھی جاتی ہے وہ ہے ۔ تقویٰ ۔ تقویٰ ۔ تقویٰ ۔ یعنی اللہ کا خوف اختیار کرو۔حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ۔ اسلام نے پہل ہی عورت کو بے مثال حقوق دئیے ہیں، جو کسی معاشرے، مذہب ، ملک نے نہیں دیئے۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہماری شادیاں جس دھوم دھڑکے سے ہوتی ہیں ، ان میں سب کچھ ہوتا ہے مگر نکاح کی اصل روح ، خطبہ نکاح کا اہم حصہ یعنی ’اللہ کا خوف‘ ہی کہیں نظر نہیں آتا۔اب ایسے میں نکاح کے ایسے ہی نتائج نکلتے ہیں ۔ جب خاندانی امور کی تربیت کے ادارے خود غیر تربیت یافتہ ادارے ہوں ، میڈیا ہو، ٹی وی ڈرامے، فلمیں ہوں جن میں سب کچھ ہو لیکن خوف خدا نہ ہو تو کیا توقع کی جا سکتی ہے ؟اس پورے کیس میں آپ کو کہیں بھی خوف خدا نہیں ملے گا اور اگر ہوتا تو کم از کم کسی کو بھی قرآن مجید کو اٹھانے کی نوبت نہ آتی۔اس پر ایک اچھا تبصرہ یہ ملا کہ ’محسن عباس حیدر نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر پریس کانفرنس کی۔یہ سیاستدان ایکٹر یا عام لوگ برے وقت میں خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے بھاگ کر قرآن اُٹھا لیتے ہیں۔ یہی اگر قرآن اگر پڑھا ہوتا سمجھا ہوتا رہنمائی لی ہوتی تو آج اپنی سچائی کیلئے اسے اٹھانے کی نوبت نہ آتی۔‘
بہر حال دیگر سیاسی موضوعات جن میں وزیر اعظم کا دورہ امریکہ سر فہرست رہا ، سماجی میڈیا پر سرگرم رہے۔’واشنگٹن میں وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کو عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے ماہرین پاکستان اور امریکہ کی تاریخ میں تعلقات کے استحکام کا نیا باب قرار دے رہے ہیں۔‘اسی طرح پاکستان واپسی پر بھی وزیر اعظم پاکستان کا خوب استقبال کیا گیاعوامی جذبات کا اظہار اس انداز سے تھاکہ ’’پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم مرشد عمران خان جن کادورہ امریکہ سے واپسی پر استقبال ہزاروں پاکستانیوں نے کیا۔آپ نے پاکستان اور پاکستان کی عوام کا مقدمہ جس خوبصورت انداز سے لڑا ہے اور اسے جیتا ہے یہ ورلڈ کپ سے کئی گنا اہم ہے۔شکریہ وزیراعظم عمران خان‘‘۔ دوسری جانب اپوزیشن اس دورے میں خامیاں نکالتی رہی اور امریکی صدر کے بیان پر کہ ’ ماضی کی حکومتیں اتنا تعاون نہیں کرتی کو اپنے حق میں استعمال کیا۔‘ دو سے تین ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں مستقل چھائے رہے۔بھارت کے لیے بھی اس دورے میں دلچسپی کا سامان یوں پیدا ہوا کہ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر دی تھی۔یہ موضوع بھی دونوں طرٖ خاصا پیٹا جاتا رہا ۔ اس میں اہم بات یہ تھی کہ بھارت نے امریکہ کی ثالثی قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔اسی طرح کراچی کے حقوق کیلیے بھی ہلکی پھلکی کوشش سماجی میڈیا پر نظر آئی ۔ البتہ مریم نواز کی لیک شدہ جج ویڈیو کے اثرات پر بھی بات چلتی رہی ۔25جولائی کو انتخابات2019کا ایک سال مکمل ہونے پر پیپلز پارٹی نے احتجاجی جلسہ بھی کیا اور سوشل میڈیا پر بھی بلیک ڈے کے عنوان سے شور بلند کیا جس کے جواب میں یوم تشکرWelcomeHomePMIKچلتا رہا ۔چلتے چلتے قومی کرکٹ ٹیم کے اسٹار امام الحق بھی سوشل میڈیا اسکینڈل کی زد میں آگئے ۔ خواتین کے ساتھ میسیجز و دیگر تصاویر لیک کر دی گئیں جس کے بعد سماجی میڈیا پر ان کے خلاف ٹرینڈ ImamulHaqexposedبن کر کھڑا ہو گیا۔عمرانخان کے دورے کے آغاز پر قادیانیت کے حوالے سے جو شور بلند ہوا وہ یقیناً دب گیا ، لیکن اس پر تمام دینی طبقات میں مستقل بات ہوتی رہی ۔

حصہ