افشاں نوید
ایک طرف ملکی تاریخ کا اہم ترین دورۂ امریکا… دوسری طرف ہر چینل پر محسن عباس اور فاطمہ… ہماری معاشرت کا چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے۔
ٹی وی چینلز ہوں یا سوشل میڈیا… پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں فاطمہ کی۔ ہر چینل سبقت لے جانا چاہ رہا ہے فاطمہ کو قوم کی ہیرو بنانے کے لیے۔
ایک نیا نوجوان اداکار اتنا اہم کیسے ہوگیا کہ راتوں رات چینلز میں دوڑ لگ گئی فاطمہ کے ساتھ ہمدردی جتانے کے لیے!
فاطمہ کے ساتھ زیادتی ہوئی… نہیں ہونی چاہیے تھی۔کسی مرداورعورت کے ساتھ تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ معاملات سنگین ہیں… دونوں طرف کے خاندان اگر ناکام ہیں معاملات کو سنبھالنے میں، تو پھر معاملات کو عدالت میں جانا چاہیے۔ قرآن نے تنہا نہیں چھوڑا ہے ہمیں۔ رہنمائی کی ہے کہ ایک حکم ہو، دونوں فریقین کی بات سنی جائے۔ کوئی مصالحت کی صورت ہو تو ٹھیک، ورنہ طلاق اور خلع دونوں کے دروازے کھلے ہیں۔
ہمارے سماج کی اپنی اقدار تھیں۔ اگر شادی کے بعد اختلافات ہوتے تھے تو خاندانوں میں ان کو دبایا جاتا تھا۔ مصالحت کی حتی الامکان آخری حد تک کوشش کی جاتی کہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔ والدین پڑوسیوں تک کو علم نہ ہونے دیتے کہ ہماری جگ ہنسائی ہوگی۔ لڑکی کے گھر والے زیادہ حساس ہوتے ہیں کہ بیٹی کی عزت کے معاملات ہیں، اچھلنے نہیں چاہئیں۔
کسی شوہر نے بیوی پر ہاتھ اٹھایا، یا زدوکوب کیا تو کیا یہ میڈیا کی خبریں ہیں؟
اگر نہیں بن پارہی تو راستے الگ کرلیں۔ اس وقت پورے معاشرے کو اس کیس کو اچھال کر جس طرح پراگندہ کیا جارہا ہے یہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے ایجنڈے ہیں، معمولی بات نہیں۔
اگر نوجوان تشدد کررہا تھا تو قابلِ رحم تو وہ بھی ہے۔ اس کو نفسیاتی ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا بھائی یا بیٹا ایسا کرے تو کیا ہم اس کو یوں سماجی طور پر تنہا چھوڑ دیں گے؟ وہ بھی ہمدردی کا مستحق ہے۔ ذہنی بیماروں کو بھی دوا اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ ہم انھیں اس طرح رسوا کریں کہ خودکشی کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے مرد بے چارے کے پاس ان فیمینسٹ معاشروں میں۔
جس طرح فاطمہ ہر چینل پر اپنے حمل کا بتارہی ہیں، اپنی چار دیواری کی باتیں سرِعام بیان کررہی ہیں، الزامات لگا رہی ہیں، باتوں کو بار بار دہرا رہی ہیں… اگر وہ الزامات درست بھی ہیں تب بھی عدالت کی حد تک ہی یہ بیانات ہونے چاہیے تھے۔ معاشرے کی نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا کہ عورت بہت توانا ہے، مرد کے زیرِدست نہیں، اگر مرد ظلم کرے تو اس طرح تشہیر کرو، چلّا چلّا کر سماج کو سر پر اٹھا لو۔ ان این جی اوز کو بیرونِ ملک سے فنڈنگ ان ہی ایجنڈوں کی ملتی ہے۔ فاطمہ کے گھر والوں کو کتنی قیمت دی گئی؟ کوئی باحیا لڑکی جو ماں بھی ہو اُس شخص کے بچوں کی، کوئی نہ کوئی دروازہ ضرور کھلا رکھتی ہے، کہ لاکھ اختلاف سہی، مگر وہ اس کے بچوں کی ماں ہے۔
میڈیا جس طرح پروموٹ کررہا ہے وہ میشا جیسے تیسرے درجے کی گلوکارہ ہو، یا محسن جیسے معمولی درجے کے اداکار کی بیوی… مختاراں مائی ہو یا ملالہ… اب معاشرے کی ہیرو ہر وہ عورت ہوگی جس پر مرد نے تشدد کیا ہے۔
ہمارے معاشرے کے مردوں پر کہاں کہاں تشدد ہوتا ہے؟ کہاں کس درجے میں ان کو ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے؟ ان کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ وہ مرد جو ہمارا مان، ہمارا شیلٹر ہیں، ہماری کوئی ہمدردی ان کے ساتھ نہیں۔
بالفرض عورت پر تشدد کے واقعات پے درپے ہورہے ہیں تو اس صورت میں ساری توجہ مردوں پر ہونی چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست ہو، ان کے نفسیاتی و سماجی مسائل کو حل کیا جائے۔
ہم زنانہ معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں۔ ہمیں عورت کو سڑک پر لانا ہے۔ اس کو بولڈ اور مرد کی حریف بنانا ہے۔
ابھی ٹی وی کے ایک چینل پر فاطمہ کا بیان ختم ہی ہوا تھا کہ کولگیٹ ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار شروع ہوگیا۔ اسکول کے لڑکے ہاکی یا کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ایک بچی آکر کہتی ہے مجھے بھی کھیلنا ہے۔ لڑکے کہتے ہیں تم گرجاؤگی، چوٹ لگ جائے گی۔ وہ کہتی ہے: تمہیں میری چوٹ کا ڈر ہے یا اپنی شکست کا؟
پس منظر میں بچی کی ماں کو مسکراتا ہوا دکھایا جاتا ہے… اس کو شاباش دی جاتی ہے کہ بیٹی کو یہ اعتماد آپ نے دیا ہے۔
بچے اگر یہ کہتے ہیں کہ تمہیں چوٹ لگ جائے گی تو غلط کیا کہتے ہیں؟ کرکٹ اور ہاکی زنانہ کھیل تو ہیں نہیں۔ ہمیں تو بلاوجہ کی ضد چڑھی ہوئی ہے کہ ہمیں ہر کام کرنا ہے… جہاز اڑانا ہے، ٹینک اور توپ چلانا ہے، ٹرک چلانا ہے۔ اسی کا نام نیو ورلڈ آرڈر میں خودمختاری ہے۔ ہم مارے مارے پھر رہے ہیں اس خودمختاری کے چکر میں۔
آپ مغربی معاشروں کا حال دیکھیں۔ ابھی آسٹریلیا کے وہ منظر محو نہیں ہوئے ہیں میرے ذہن سے… ریلوے اسٹیشن پر گارڈ سے لے کر خاکروب تک عورت۔ کوئی عورت گھر میں نہیں چھوڑی انھوں نے، اس لیے کہ عورت پراڈکٹ ہے اور پراڈکٹ کی تشہیر کا ذریعہ ہے۔ عورت مرد پر کسی رشتے میں بھروسا نہیں کرسکتی وہاں کے سماج میں۔ باپ کا گھر اٹھارہ برس کی عمر میں چھوڑنا پڑا… بھائی ہے نہیں، اور ہے بھی تو گھر چھوڑ چکا ہے۔ بوائے فرینڈز جیسا اور جتنا ساتھ نبھاتے ہیں اس کا اندازہ وہاں منشیات کے استعمال اور خودکشیوں کی شرح سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
آپ معاشرے کی تنہائی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جسے لائف پارٹنر منتخب کیا ہے، جس کے ساتھ رہ رہے ہیں، دو بچے بھی ہوگئے ہیں، لیکن پارٹنر کی انگلی میں انگوٹھی پہنانے پر تیار نہیں، کیونکہ قانونی حیثیت ملتے ہی مرد خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ اگر پنکی کسی اور کے ساتھ چلی گئی یا خود کو کسی پنکی نے اغوا کرلیا، دونوں صورتوں میں بھاری رقم ان کو ادا کرنا ہوگی، یہاں تک کہ بیشتر صورتوں میں کنگال ہونے کی نوبت آجاتی ہے۔
رشتے قابلِ بھروسا ہی نہیں، اس لیے مرد نکاح اور قانونی چارہ جوئی سے گھبراتے ہیں۔
وفا کیا شے ہے کوئی اس معاشرے سے پوچھے…
ہمارے سماج کی کیسی تشکیل مطلوب ہے… میڈیا کس کے ایجنڈوں پر عمل پیرا ہے!
ہم تو ہر چینل پر فاطمہ کو دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ…
فاطمہ کولگیٹ کے دیئے ہوئے اعتماد پر پوری اتری !!!!!۔