عائشہ برجیس
شعبہ تشہیر و ترویج جامعات المحصنات پاکستان
سیکھنے سیکھانے کے عمل میں ا گر دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیا جائے تو کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سیکھا جاسکتا ہے۔مقاصد بلند ہوں تو محنت بھی شدید ہوتی ہے۔
’’جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود‘‘ ـ اس سو چ کے پیش نظرــــــــــــــــــــ جا معات المحصنات پاکستان کے تحت دو روزہ پرنسپلزکنونشن کا انعقاد کیاگیا جس میں پورے پاکستان سے ۱۹ جامعات کی پرنسپلز ، وائس پرنسپلز اور نگران نے شرکت کی۔ کنونشن کی میزبانی کے فرائض جامعۃ المحصنات لاہور نے بحسن و خوبی انجام دیے ۔اس پروگرام کی تیاری ایک مہینے پہلے سے ہی مرکز میں زور و شور سے جاری و ساری تھی ۔ ایک روز پہلے ہی تمام شرکاء منصور ہ( لاہور) پہنچ چکے تھے اور ملنے ملا نے کا یہ سلسلہ جاری تھا۔لیکن ساتھ ساتھ اگلے دن کے پروگرام کی تیاری تھی۔رات دیر تک یہ سلسلہ چلنے کے باوجود تمام شرکاء وقت پر اور تازہ دم ہوکر پروگرام ہال میں موجود تھے۔پروگرام کا آ غاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا اس کے بعدمحترم قاری فضل اکبر نے ( سورۃ کہف)کے موضوع پر درس قرآن پیشں کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے اس سورت کی شروعات میں اپنے الوہیت کا ذکر کیا اور اور مکمل اپنی ربوبیت کے تذکرے پر کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سورۃ میں دو طرح کے امتحان کا ذکر ہے ایک صبر اور دوسرا شکر اس امتحان میں اگر انسان پاس ہوجائے تو اللہ کے آگے سرخرو ہوگا۔اس تذکیری گفتگو کے بعدملک بھر سے شرکت کرنے والی تمام پرنسپلز نے اپنا تعارف پیش کیا۔کنونشن کی مرکزی سوچ پر نگران امور خارجہ جماعت اسلامی پاکستان محترم عبدالغفار عزیز نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ معلم معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان حالات میں جو آج کل اس مسلم معاشرے کو درپیش ہیںان میں جامعات المحصنات کا ایک نام ہے جومعاشرے کو بہترین سر مایہ فراہم کررہی ہے۔کنو نشن کے پہلے روز کا ایک اہم پروگرام پینل ڈسکشن’’ قو موں کی حیات انکے تخٰیل پہ ہے مو قوف‘‘ میں تمام مقررین نے اپنی بات رکھی جس کا نچوڑیہ تھا کہ دینی اور عصری علوم دو نوں ہی معاشرے کی ضرورت ہیں۔ تاکہ مسلم قوم افر اط و تفر یط سے نکل کر اسلام کی بتائی اعتدال کی راہ پالے۔معروف مو ٹیویشنل اسپیکر محتر مہ عائشہ عثمان کی ایک اہم ورکشاپ’’پرنسپل بحیثیت قائد و مربی ‘‘ جو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی تھی اس میں انھوں نے کہا کہ اپنے وژن کو بڑ ھانا ہے اور طا لبات کی مخفی صلا حیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ان پر عملاً کام کرنا ہوگا۔ کنو نشن کے اگلے روز کا آ غازنائب قیم جماعت اسلامی پاکستان مولانا ساجد انور کے سیر حاصل درس ِ حد یث سے ہوا اس کے بعد محتر م بلال خبیب نے ورکشاپ کروائی جس کا مو ضوع ’’ جامعات میں مالی استحکام تھا‘‘ جس میں انھوں نے شرکاء کو مخاطب کر تے ہوئے عملی طور پر جو کام کرنے ہیں جامعات کو مستحکم کر نے کے لیے اس پر روشنی ڈالی اور کہا مالیا تی کمیٹی بنا ئیں، گزرے سال کا جائزہ لیں اور نئے ڈونر بنائیں تاکہ جامعات ترقی کرسکیں۔بعد ازیں صدر ویمن اینڈ فیملی کمیشن ڈاکٹر رخسانہ جبیں کا پر مغز لیکچر ہوا جس کا موضوع ’’ عورت تمدن کی معمار‘‘ تھا۔ اس میں انھوں نے عورت کو جو قرآن میں درجہ دیا ہے اس کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ خاندانی استحکام ایک مثالی داعیہ دین عورت کے ہاتھ میں ہے جو قرآن و سنت کو بنیاد بناکر کردار سازی کرتی ہے بحیثیت مثالی عورت اس کو تمام دائروں میں احساسِ ذمہ داری ہے۔ نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد شرکاء پھر سے تازہ دم ہال میں موجود مذاکرہ کے انتظار میں موجود تھے جو کہ شعبہ تعلیم کی نگران طیبہ عاطف نے کروایا جس کا موضوع’’ مستحکم جامعات ۔۔۔ مستحکم نظریاتی پاکستان‘‘ تھا۔ انہوں نے نے کہا کہ جیسے ہمارے بڑے اب تک اپنے پرجوش جذ بے کے ساتھ کام کو آگے بڑھا کر جامعات کو مستحکم کررہے ہیں اس طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی آخری دم تک اس عمل کے لئے کوشاں رہیں۔اور انسان کا جذ بہ ہی ہے جو چوٹیوں کو بھی سر کر جا تا ہے۔اس پروگرام سے شرکاء کی سوچ اورمضبو ط ہو گئی کہ
شا ہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو،تو نہیں خطرہ افتاد
اس کے بعد جامعات کی حوصلہ افزائی کے لئے ایوارڈ کی تقسیم کا انعقاد کیا گیا جس سے جامعات میں مزید آگے بڑھنے کا رحجان پیدا ہوا۔آخر میں نگران جامعات المحصنات پاکستان افشاں نوید نے سیر حاصل گفتگو کی جس کے بعد دعاسے اس دو روزہ کنو نشن کا اختتام ہوا۔ کنونشن کے اختتام پر پر امید شرکاء ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے اور صرف اللہ کی خاطر یہاں جمع ہونے کوبہترین وقت اور سرمایہ قراردے کر دل میں آئندہ ملنے کی تمنا لیے سفررخصت باندھنے لگے۔کیوں کہ سفر یہاں ختم نہیںہوا تھا جو سیکھا اس کو عمل میں لانے کا سفر شروع ہونے والا تھا۔جیسا کہ اقبال یہاں کہتے ہیں