مریم شہزاد
۔’’امی، ابو بکرا لے آئے…‘‘ باہر سے یوسف کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’بسم اللہ… بسم اللہ۔‘‘ شازیہ جلدی سے باہر آئی اور بولی ’’ماشاء اللہ کیا خوب صورت بکرا ہے۔‘‘
’’ہے ناں… اچھا ہے ناں؟‘‘ حسن نے فخر سے پوچھا۔
’’لیجیے! آپ کی چوائس کبھی خراب ہوئی ہے؟‘‘ شازیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’کتنے کا ملا؟‘‘
’’پورے 28,000 کا ہے۔‘‘ حسن نے بتایا۔ اور دونوں بکرے کو باندھ کر اندر آگئے۔
’’بس اب تم مسالوں کی فہرست بنا لو، اچھا ہے جلدی منگوا لو، ورنہ عید پر ملتے نہیں، شارٹ ہوجاتے ہیں۔ ابھی بکرے کے لیے گھاس وغیرہ لینے جائوں گا تو دکان دار کو پرچہ دیتا آئوں گا، میرے منہ میں تو ابھی سے پانی آرہا ہے، میں ذرا فریش ہوجائوں۔‘‘ حسن نے کہا۔
شازیہ نے جلدی سے امی کو فون کرکے بتایا کہ ہمارے ہاں بکرا آگیا ہے، اور چائے بناتے بناتے فہرست بھی تیار کرلی۔
…٭…
’’امی، ابو، دادی بھائی بکرا لے آئے۔ ‘‘سارہ نے آواز لگائی۔
’’اے ہے بکرا کیوں کہہ رہی ہو؟ بکرے لائے ہوں گے ناں۔‘‘ امی نے ہڑبڑا کر کہا۔
’’نہیں امی! ایک ہی بکرا ہے۔‘‘ سارہ نے بتایا۔
دادی اور امی ایک ساتھ بول اٹھیں ’’ایک ہی بکرا…؟‘‘
اتنی دیر میں ذیشان اندر آگیا، تھکن سے اس کا برا حال تھا۔ امی نے اس کو صوفے پر بیٹھتے دیکھ کر پوچھا ’’بیٹا! ایک ہی بکرا کیوں لائے ہو؟ اور اتنے تھکے ہوئے کیوں ہو؟‘‘
’’ارے امی! مہنگائی دیکھ رہی ہیں، یہ ایک بھی بڑی مشکل سے ملا ہے، جب جیب میں پیسے کم ہوں ناں، تو تھکن بھی ہو ہی جاتی ہے۔‘‘ ذیشان نے تھکے تھکے لہجے میں کہا، تو امی نے سارہ کو چائے بنانے کا اشارہ کیا۔
’’واہ بھئی… یہ اچھی کہی۔‘‘ دادی حسبِ معمول شروع ہوگئیں۔ ’’اب ایک بکرے میں سے کھائیں گے کیا اور بانٹیں گے کیا…! ارے برخوردار دونوں رانیں تو تمہاری بہنوں کے سسرال چلی جائیں گی، اور دستیاں پھوپھو کے ہاں۔ اور پھر اڑوس پڑوس… کیسے ہوگا سب؟‘‘
’’ارے اماں گائے میں حصہ ڈال لیں گے، آپ فکرمند نہ ہوں۔‘‘ ابو نے دادی کو سنبھالنے کی کوشش کی، اور ذیشان نے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں جانے ہی میں عافیت سمجھی۔
…٭…
’’امی، بھیا، اپیا دیکھو پپا گائے لے آئے۔‘‘ علی کی خوشی سے بھرپور آواز آئی۔
’’ہائیں واقعی گائے آئی ہے؟ حنا نے خوشی سے پوچھا۔
’’ہاں … ہاں… ارے زبردست… شایان نے گائے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اُف اللہ… راحمہ موبائل تو لائو، میں جلدی سے سیلفی لوں۔‘‘ حنا نے کہا۔
’’ہاں… ہاں… جلدی سے اس کی تصویر فیس بک پر ڈالتا ہوں… سب کو پتا تو لگے ہمارے ہاں گائے آئی ہے۔‘‘ شایان نے کہا۔
’’واہ بھی مزا آگیا… پپا نے تو اس دفعہ کمال ہی کردیا۔‘‘ علی بولا۔
’’ہائے، مجھے تو ابھی سے باربی کیو کے خواب آنے لگے۔‘‘ راحمہ نے کہا۔
’’لڑکیاں نہیں کرتیں باربی کیو… ہم کریں گے وہ تو۔‘‘ شایان نے کہا۔
’’کیوں، گائے کیا صرف تمہاری ہے؟‘‘ حنا نے کہا۔
’’ہاں اور کیا… تو کیا تم اس کو کھلائو گی؟ تم ٹہلائو گی؟‘‘ شایان نے اس کو چڑایا۔ ’’ہم کریں گے باربی کیو… جناب ہم۔‘‘
’’ہاں… ہاں تم ہی کرنا، ہم تو آرام سے بیٹھ کر کھائیں گے۔‘‘ راحمہ نے بھی پورا بدلہ لیا۔
’’ہونہہ! یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ شایان نے کہا۔
’’مسور کی دال نہیں، نہاری اور کباب۔‘‘ حنا نے کہا۔ اور چاروں ہنس پڑے۔
…٭…
’’اُف توبہ کتنی بدبو ہے، پتا نہیں گھر میں جانور باندھنے کی کیا ضرورت تھی! آپ کا تو بچپنا ہی ختم نہیں ہوتا۔‘‘ سدرہ نے ناک اور منہ پر دوپٹہ رکھ کر سعد سے کہا، جو بڑے مزے سے بکروں کے درمیان کھڑا ایک کو دانہ کھلاتا، دوسرے کو گھاس۔ اس نے سدرہ کی بات سن کر صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
…٭…
’’آنٹی یہ قربانی کا گوشت تو نہیںہے ناں؟‘‘ لائبہ نے پوچھا، جو اپنے امی ابو کے ساتھ ان کے دوست کے گھر بقرعید پر آئی ہوئی تھی۔
فریحہ نے کہا ’’نہیں بیٹا! بالکل نہیں۔‘‘ (فریحہ نے بہت اطمینان سے جھوٹ بولا، کیوں کہ وہ اس فیملی کے نخروں سے اچھی طرح واقف تھی، جب کہ سب کچھ قربانی کے گوشت کا ہی تھا۔)
’’اصل میں ہماری فیملی اور خاص کر بچیاں تو قربانی کے گوشت کو بالکل ہاتھ نہیں لگاتیں۔ Vomit ہونے لگتی ہے ان کو تو، ہم تو سارا گوشت باہر کے باہر ہی بانٹ دیتے ہیں۔‘‘ لائبہ کی امی نے اپنی بیٹیوں کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، جو اطمینان سے قربانی کے گوشت پر ہاتھ صاف کررہی تھیں۔
…٭…
یہ چند جھلکیاں ہیں، حالانکہ قربانی کا مقصد اللہ کا قرب تلاش کرنا ہے، اس سپردگی کا اظہار ہے کہ یہ تو محض ایک جانور ہے… میرا رب میرا نفس بھی مجھ سے مانگے تو مجھے عار نہ ہوگا۔ اسی اخلاص و تقویٰ کی اللہ کے ہاں قدر و منزلت ہے۔ ہمارا دین دینِ ابراہیمی ہے اور قربانی سنتِ ابراہیمی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمارے روحانی باپ ہیں، ہمیں ان کی سنت کو ظاہری و باطنی طور پر اپنا شعار بنانا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہ پہنچے گا، لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔‘‘ (الحج۔ 37)۔