نام میں کیا رکھا ہے؟۔

1000

قدسیہ جبیں
کسی کا بھی بچہ پیدا ہو اور اطلاع ملے تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے، مگر مبارک سلامت اور مٹھائی کے مطالبے کے بجائے ہم جھٹ سوال داغ دیتے ہیں: ’’واہ واہ! نام کیا رکھا/ رکھنا ہے؟‘‘
اگرچہ اس سوال میں ایک لطیف سا اشارہ اس طرف بھی ہوتا ہے کہ بھیا! نام کے انتخاب کے لیے ہماری خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مگر شاید ہی کبھی ہمیں ایسا باریک بین مخاطب میسر آیا ہو جو بین السطور چھپے مدعا کو بھانپ کر جھوٹے منہ ہی پوچھ لے ’’سوچ ہی رہے ہیں قبلہ! کچھ آپ بھی تجویز کیجیے ناں۔‘‘
اس کے باوجود کہ ہمیں تقریباً ہمیشہ ہی منہ کی کھانی پڑی ہم، بڑی مستقل مزاجی اور استقامت سے اپنی اس عادت پر جمے کھڑے ہیں۔ نئے زمانے کے سب انداز ہی جدا ہیں۔ سو، ناموں کے حوالے سے بھی نئی نئی ترکیبیں سننے میں آتی ہیں۔
نیک نام رکھنے والے اکثر ’’قرآنی نام‘‘ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ’’دارالافتا‘‘ کے نام سے کسی صفحے پر کسی کا سوال نظر سے گزرا کہ بچی کا نام ’’انعمت‘‘ رکھنا چاہتے ہیں، کیا یہ نام رکھنا ٹھیک ہوگا؟
ہمیں یکدم ’’لاریب‘‘ نام کا زمانہ یاد آیا جب اخبار کے بچوں کے صفحے میں ہر دوسری ننھی بچی کے نام کے نیچے لاریب درج ہوا کرتا تھا۔
یہ تو وہ قرآنی نام تھا جو قبولِ عام حاصل کرکے ہر دوسرے گھر میں جا گھسا۔ لیکن کچھ والدین بہت دیکھ بھال اور جستجو کے بعد انتہائی نادر و نایاب قرآنی نام کا انتخاب کرتے ہیں، مثلاً ہماری ایک کزن کی ہم جماعت کا نام ’’کنتم‘‘ رکھا گیا۔ اور خوش قسمتی سے یہ عام بھی نہ ہوا۔
والدین کی ایک دوسری قسم بہت بھاری اور جامع اسلامی نام رکھ کر ثوابِ دارین کی خواہش مند ہوتی ہے، مثلاً ’’عشرہ مبشرہ‘‘۔ اس طرح کے ناموں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوجاتا ہے کہ آپ ثواب کے ساتھ ساتھ دن میں کئی بار ایک ہی پکار سے کئی پاکیزہ ہستیوں کو یاد کرکے اپنا ایمان تازہ رکھ سکتے ہیں۔
کچھ لوگ اسلامی و قرآنی سے بے نیاز صرف نایاب اور نئے نام کی تلاش میں ہوتے ہیں اور ہر طرح کی کتب کھنگالنے پر بھی جب نامراد رہتے ہیں تو ضرورت ایجاد کی ماں کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے خود نئے نام تخلیق کرلیتے ہیں۔ ہماری ایک عزیزہ کی ہاسٹل فیلو اور ہم سفر کا نام پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ’’فنیلا‘‘ ہے۔ کئی دن تک والد صاحب اس مہمل نام کی توجیہ کی کوشش میں لگے رہے، پھر خاصے سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ شاید اصل نام ’’فنا فی اللہ‘‘ رکھا گیا ہو جو بعد ازاں مختصر ہوکر فنیلا رہ گیا ہو۔
استانی ہونے کے ناتے ہر نئی جماعت میں کئی دلچسپ نام سننے کو ملتے ہیں۔ مافیا اور اضافہ جیسے نام سن کرجہاں ہم لطف اٹھاتے ہیں وہیں کچھ بچیوں سے بار بار نام پوچھنے پر بھی ہماری عقل ٹھیک نام تک نہیں پہنچ سکتی۔
امسال تعارفی کلاس میں بیسیوں دفعہ ہم نے ایک بچی سے اس کا اسم شریف پوچھا، جواب آتا’’رنا‘‘۔ سوچا، شاید رانا صاحب کو مونث بنانے کے لیے الف گرا دیا ہو، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کھڑا الف تذکیر کی علامت ہے، اور گرا ہوا تانیث کی۔
ہم نے پوچھا ’’اس کا مطلب کیا ہوا؟‘‘ خود تو قدرے سٹپٹا کر خاموش ہوگئی، مگر ساتھ بیٹھی سہیلیوں نے تصحیح کی ’’مس! اس کا نام رَہنا ہے‘‘۔
ہم مزید ہونق ہوئے ’’یعنی مل جل کر رہنا سہنا‘‘۔
اب کے جماعت میں شدید چہ میگوئیاں اور بھنبھناہٹ شروع ہوگئی۔
آخرکار ہم نے انگریزی میں ہجے پوچھ کر نام کا اندراج کردیا، مگر کئی دن کے بعد ہم نے خود ہی یہ معما حل کرلیا کہ اصل نام شاید رعنا ہو، اور اسے دو مختلف قرأت کے ساتھ کبھی ’’رنا‘‘ اور کبھی ’’رہنا‘‘ تلفظ کیا جاتا ہو۔
ہم اس قدر دقیانوسی اور جاہل واقع ہوئے ہیں کہ تاریخی شخصیات اور ہیروز پر رکھے نام ہی سن رکھے تھے، مگر کچھ عرصہ قبل ہمارے علم میں اضافہ ہوا کہ مختلف مشہور شاہراہوں، شہروں اور مقامات کے نام پر بھی انسانوں کے نام رکھے جا سکتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ ہم نہ صرف عالمی جغرافیہ سے واقف ہیں بلکہ سیاحتی مقامات کی بھی خوب واقفیت رکھتے ہیں۔ سو اب ہمارے گائوں میں بچیوں کے نام شانزے، ایفل (شنید ہے کہ عنقریب لڑکوں کا نام ٹاور کے طور پر مارکیٹ میں متعارف ہوگا) ، ہنزہ اور نوشہرہ ہونے کے بعد برمنگھم نورین، کوالالمپور خانم اور بارسلونا ناز رکھے جانے کی امید ہے۔
سب سے مزیدار قصہ اُس نام کا ہے جسے ہماری ایک قریبی عزیزہ کے محلے داروں نے اپنی نو مولود بچی کے لیے اپنے پیر صاحب سے تجویز کروایا۔
یہ انتہائی بابرکت اور مقدس نام ’’عبدالرحمانہ‘‘ ہے۔
ہماری عزیزہ اور چند دیگر افراد نے جب بچی کے والدین سے دست بستہ عرض کیا کہ آپ اسے ’’امتہ الرحمن ‘‘ سے بدل دیجیے تاکہ بچی کے نام کا معانی اور اندراج دونوں درست ہو جائیں، تو انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے اور یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا :
’’پیر صاحب نے اللہ کی نسبت سے نام رکھا ہے، اللہ کی نسبت والا نام ہم سے مر کر بھی کوئی تبدیل نہیں کروا سکتا۔‘‘
سو قارئین کرام! آپ ٹی وی پر چلنے والی ’’شعبہ امراض کلب‘‘ کی پٹی پر حیران نہ ہوں۔ ابھی زبان کو ترقی اور بلندی کی نہ جانے کون کون سی منازل طے کرکے آپ کی دقیانوسیت اور جہالت کو قدموں تلے روندنا ہے۔
میٹرک کے بچوں کے نمبر دیکھ کر خوش ہوئیے اور مبارک سلامت کے ساتھ ساتھ اک دوجے سے مٹھائی کھائیے۔

حصہ