ہادیہ اِمین
زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات اگر غور و فکر کیا جائے تو بڑی بڑی باتیں سمجھا دیتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ کورس کی کتابوں میں لکھا دیکھا اور اپنے استادوں سے بھی یہی سنا کہ انسان کی زندگی میں سب سے قیمتی چیز اس کا وقت ہے۔ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے، اور یہ بھی کہ گیا وقت کسی صورت واپس نہیں آتا۔ لہٰذا وقت کو ضائع نہ کرتے ہوئے اس کا مثبت استعمال کیا جائے۔ ہماری ایک ٹیچر کہا کرتی تھیں کہ اس وقت ہمارے دین کو بھی سب سے زیادہ ضرورت ہمارے وقت کی ہے۔ دین معمولی چیز نہیں، اس کو سیکھنے سکھانے کے لیے وقت لگانا پڑتا ہے، اس کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ مگر افسوس آج دین کے لیے وقت کی قربانی دینے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔
…٭…
گزشتہ دنوں صائمہ کا ڈاکٹر کے ہاں جانا ہوا۔ وائرل پھیلا ہوا تھا، اس لیے مریضوں کی تعداد زیادہ تھی۔ صائمہ کو نمبر ملنے کے بعد مزید نمبر دینے بند کردیئے گئے۔ صائمہ انتظار گاہ میں بیٹھی تھی کہ ایک خاتون بچے کے ساتھ اس کے برابر آکر بیٹھ گئیں۔ ایسی جگہ رسمی سوالات بس ’’آپ کا نمبر کون سا ہے‘‘ تک محدود ہوتے ہیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ ان خاتون کا نمبر صائمہ سے بالکل پہلے والا تھا، یعنی سب سے زیادہ ٹائم صائمہ کے ساتھ گزرنا تھا۔ صائمہ بہت زیادہ بولنے والی ’’چیٹر باکس ٹائپ‘‘ لڑکی نہیں تھی، مگر بات کا جواب ٹھیک سے دینا جانتی تھی۔
دونوں کے درمیان گفتگو شروع ہوئی۔ ’’آپ قریب سے ہی آئی ہیں؟‘‘
صائمہ کا مختصر سا جواب: ’’جی میں قریب سے نہیں آئی۔ دور رہتی ہوں۔‘‘
’’آنے جانے میں ہی تھکن ہوجاتی ہے۔ پھر بچے بیمار ہوں تو اس کی ٹینشن بھی ہوتی ہے۔‘‘
’’جی صحیح کہہ رہی ہیں۔‘‘ صائمہ کا وہی مختصر جواب۔
’’ماشاء اللہ میرے دو بچے ہیں، دونوں میں ایک سال کا فرق ہے، دونوں ہی چھوٹے ہیں۔‘‘
’’ماشاء اللہ! اللہ سلامت رکھے، بہت پیارے ہیں۔‘‘ صائمہ کا جواب ابھی بھی مختصر ہی تھا۔‘‘
’’آپ کو پتا ہے، لوگ مجھ سے کہتے ہیں چھوٹے بچے اور گھر کیسے مینج کرتی ہو؟ مگر یقین کریں اللہ سب کرا ہی دیتا ہے۔ اس نے مجھے ذمے داری دی ہے تو دیکھ کر ہی دی ہوگی۔‘‘
’’آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ اللہ کسی کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ صائمہ کا جواب اب بھی مختصر ہی تھا، مگر وہ خاتون کی ہر بات بہت غور سے سن رہی تھی۔ نمبر آنے میں نہ جانے کتنا وقت تھا اور وقت تو گزارنا ہی تھا۔
’’بچے بھی الحمدللہ ہر وقت تنگ نہیں کرتے۔ بس کبھی کبھی بہت چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ کھلونوں سے بھی نہیں بہلتے تو میں گھر کے سامنے والے پارک لے جاتی ہوں۔ کچھ میری بھی تفریح ہوجاتی ہے، محلے والوں سے بھی بات ہوجاتی ہے۔ کچھ عورتیں واک بھی کرتی ہیں۔ واک بھی آج کل بہت ضروری چیز ہوگئی ہے۔ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے انسان کے جوڑ کمزور ہوجاتے ہیں۔ اب آپ دیکھیں ناں، ہماری نانیوں دادیوں کے زمانے کی عورتیں کتنا کام کرتی تھیں اور صحت مند بھی رہتی تھیں۔ اب تو اتنی بیماریاں بڑھ گئیں۔ دراصل ہم نے کام کرنا چھوڑ دیا، ہر کام کے لیے کام والی رکھ لی اور خود آرام کر کرکے صحت گنوا دی۔ دنیا تو کام کی جگہ ہے، آرام کی جگہ تو جنت ہے، مگر لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی۔‘‘
خاتون کی بات میں وزن تھا۔ صائمہ اب بھی ہر بات بہت غور سے سن رہی تھی اور ہر بات کا مختصر جواب دے رہی تھی۔ بات پڑھائی، صحت، فیشن سے ہوتی ہوئی آلودگی تک جا پہنچی۔ مہنگائی کی باری شاید آنے والی تھی کہ خاتون کا نمبر آگیا۔ وہ ڈاکٹر کے کمرے میں جاتے ہوئے کہنے لگیں ’’جزاک اللہ۔ یقین کیجیے مجھے بہت مزا آیا آپ سے باتیں کرکے، بہت خوشی ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے ہم پھر کبھی زندگی میں دوبارہ ملیں۔ دعائوں میں یاد رکھیے گا۔‘‘
خاتون کی خوشی مصنوعی نہیں تھی، وہ واقعی خوش تھیں اور حقیقی خوشی چہرے پہ کچھ نیا ہی رنگ لاتی ہے۔ صائمہ سوچنے لگی، مجھ سے بات کرکے ان کو کیا مزا آیا! پوری گفتگو میں جتنا حصہ انہوں نے لیا تھا، صائمہ اس کا بیس فیصد بھی نہ بولی تھی۔ مگر آج کل مادہ پرست اور بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے دور میں جو چیز کھو گئی وہ وقت ہے۔ ہمارا وہ وقت جو ہمیں دوسروں کو دینا تھا۔ اب اس دور میں ہر کوئی باتوں کا بھوکا ہوگیا ہے، ہر عمر اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو صرف ایک سننے والے، ایک listener کی تلاش ہے۔ سڑک پہ گزرتے ہزاروں لوگوں میں ایک آدھ فیصد ہی ہوتے ہیں جن کے چہرے پر حقیقی خوشی ہوتی ہے۔ جب ایک جگہ چار لوگ اور چار اسمارٹ فون ہوں تو وقت کی منصفانہ تقسیم مشکل ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے ہر کوئی اس تحریر سے متفق نہ ہو، مگر جو متفق ہوں وہ، وہ تبدیلی بن جائیں جو وہ دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔