فاطمہ خان
اگر آپ بے روزگار ہیں تو پریشان نہیں ہوں، پڑھے لکھے بے روزگار افراد کے لیے تمام ادارے روزگار کے بہترین مواقع پیش کر رہے ہیں۔ جاب کی تلاش کے لیے اپنے گوگل اکاونٹ سے ’’نیا پاکستان جاب‘‘ لکھ کر سرچ کیجیے۔ میٹرک تا ماسٹرز افراد اپلائی کر سکتے ہیں۔ ہزاروں نوکریاں آپ سے ایک کلک کی دوری پہ ہیں۔ اب پاکستان میں بے روزگاری کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ جیسے ہی گوگل سرچ کریں لاتعداد نوکریاں ہماری قسمت کے دروازے پہ ہماری منتظر ہوتی ہیں مگر یہ کیا؟ اس کی تفصیل میں کیا ہے آئیے جانتے ہیں۔
جب آپ گوگل پہ ’’نیا پاکستان جاب‘‘ سرچ کرتے ہیں تو ہزاروں نوکریاں آپ پر کسی دشمن کی مانند حملہ آور ہوتی ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے ششدر رہ جائیں کہ یہ کیا ہوگیا۔ پینڈورا باکس کھل گیا اور نوکریوں کی بھر مار۔ الٰہی کرم کر دے۔ یہ کیا ہو گیا۔ اب تشکر آمیز انداز سے گورنمنٹ کو دعائیں دیں پھرتو سوچا اب ذرا اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق جاب دیکھ کر اپلائی کیا جانا چاہیے۔
پہلا اشتہار دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ پاکستان آرمی کا حصہ بنیں۔ میڑک پاس نوجوان اپلائی کر سکتے ہیں مگر یہ کیا 2 سے3 سال کا تجربہ۔ ڈپلومہ ہولڈر DAE نوجوان اپلائی کر سکتے ہیں لیکن اپنے اپنے ٹریڈ میں 5 سال کا تجربہ۔ الٰہی اتنی محنت کے بعد۔ تعلیمی قابلیت کا معیار صفر۔ سرکاری ادارے بنی بنائی کھیر کھانے کے چکر میں ہیں۔ نوجوانوں کو اگر مزید چند سال دھکے کھا کر تجربہ پانا ہے تو نوکری کا معیار بدل دیجیے۔ یا تو تعلیمی قابلیت کو معیار رکھیے یا صرف تجربہ۔ ایک تیر سے دو شکار شاید عام سے بات ہے۔جیسے کہ آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں نوکریاں، ASF میں بھرتیاں، محکمہ تعلیم کی بھرتیاں، FIA میں نوکریاں،پنجاب فوڈ اتھارٹی میں بھرتیاں، پنجاب پولیس میں بھرتیاں، سرکاری اور نجی تقریباً ہر ادارے میں بھرتیاں جاری ہیں لیکن ہر ادارہ تعلیمی قابلیت کے ساتھ تجربے کے 3 سے 5 سال لکھ کر سب کی امیدیں خاک میں ملا دیتا ہے۔ بالخصوص فریش گریجویٹس اور ماسٹرز والے تجربہ نہ ہونے کی بنا پر اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ نتیجتاً ملک میں خوانچہ فروشوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یا خودکشی کرنے والے افراد کی شرح بڑھ جاتی ہے۔نجی ادارے اس ضمن میں تھوڑی نرمی برتتے نظر آتے ہیں۔ فریش گریجویٹس کے لیے کال سینٹر ، آفس مینجمنٹ، اکائونٹنٹ یا آفس اسسٹنٹ کی جاب دن بدن توجہ طلب بنتی جا رہی ہے۔ حالات سے دلبرادشتہ نوجوان یا تو انٹرنیٹ پہ مارکیٹنگ کی آن لائن جاب سے مستفید ہو رہے ہیں یا نجی اداروں کی جابز ان کی توجہ کا مرکز نظر آتی ہیں۔
پچھلے دنوں جب میں نیٹ پہ جاب تلاش کرنے نکلی تو ہزاروں کی تعداد میں اشتہارات ملے۔ کئی بار یوں لگا جیسے میں اپنی ڈگری سمیت نوکریوں کے پہاڑ تلے دب چکی ہوں۔ میں چونکہ پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز ہوں تو کیا دیکھا کہ فوجی فائونڈیشن میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے اشتہار موجود ہے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شکر الحمداللہ کے ورد کے ساتھ جب لنک اوپن کیا تو ساری خوشی اڑن چھو ہو گئی۔ ایک پل میں جو امیدوں کے تاج محل بنا ڈالے تھے سب ریت کے گھروندے بن کر ڈھے گئے۔ نوکری موجود تھی۔ اشتہار کے مطابق میٹرک تا ماسٹرز اپلائی کر سکتے تھے لیکن یہ کیا 5سال کا تجربہ۔ بات تجربہ کی کیسے کی نہ جائے۔ میں جب ماسٹرز پارٹ 1 کی طالبہ تھی تو فکر معاش اور شوق ایک پرائیویٹ ادارے میں لے گیا۔ 6 ماہ کا کنٹریکٹ کیا اور طے یہ پایا کہ 3 ماہ بعد تنخواہ جو برائے نام تھی یعنی 6 ہزار روپے جس میں سے 2 ہزار کرایہ یعنی ’’جی کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے‘‘ والی صورتحال رہی مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔ تنخواہ میں اضافہ ندارد۔ پھر گردش ایام ایک اور ادارے میں لے گئی۔ اسکول بڑا اچھا تھا مگر حالات وہی۔ 7 ہزار تنخواہ کے ساتھ مسائل کے انبار۔ اللہ اللہ مدت ملازمت پوری ہوئی۔ ان حالات میں تجربہ کہاں سے لایا جائے۔ اب تو معلوم پڑا کہ پرائیویٹ اسکول جہاں 2 سال پہلے 7 ہزار تنخواہ تھی، کم کر کے 2 سے 3 ہزار کر دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں تجربہ حاصل کرنے سے بہتر ہے فاقوں مر لیا جائے۔ کوئی ایسا قانون ہونا چاہیے جو اساتذہ اور مزدور کی ماہانہ اجرت کو صرف بجٹ کی حد تک نہیں عملی زندگی میں بھی اس کا اطلاق کر سکے تاکہ تجربے کہ نام پہ غریب کا استحصال بند ہو۔
ایک شخص 16 سال کی تعلیمی معیاد پوری کر کے فکر معاش میں 16 سال کی تعلیم کو بھلا دیتا ہے۔ در در ٹھوکریں کھا کر بھی چند روپے اور تجربے کے نام پہ ایک کاغذ کا ناہنجار ٹکڑا اسے خودکشی کے سوا کوئی راستہ نہیں دکھا سکتا۔ عرض یہ ہے کہ سرکاری ادارے اگر تعلیمی قابلیت کو معیار نہیں سمجھتے تو خدارا ہمیں رسوا نہ کیجیے۔ ہم کتابی باتیں نہیں کر سکتے کہ ہماری تعلیم کا مقصد صرف شعور کا حصول ہے۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ روزی روٹی کے لالے ہیں۔ لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ ایسے میں تعلیم شعور کم اور تجربہ زیادہ دے جاتی ہے۔ وہ غریب مزدور جو دہاڑی نہ لگنے اور اپنی بیماری کے باعث سوکھی روٹی بمشکل پوری کرتا ہے۔ وہ اپنے بچے کو 16 سال کیوں پڑھائے؟ پڑھائے بھی تو اگلے 5 سال تجربے کے لیے بھوکا رہے اور پھر اگر قسمت اچھی ہوئی تو نوکری ورنہ مزدوری یعنی دنیا واقعی گول ہے۔ گھوم پھر کہ مزدور کا بچہ 16 سال کی تعلیم اور تجربے کے بعد بھی مزدور رہا۔
ارباب ہنر اس بات سے متفق ہوں گے کہ تعلیمی قابلیت کے ساتھ ایک مخصوص مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والے طلبہ و طالبات اس قابل ہیں کہ بہترین کام کر سکیں۔ بغیر سیکھے تجربہ کیسے حاصل کیا جائے لہٰذا سیکھنے کے لیے سرکاری اور نجی اداروں کے لیے نوکری کے قواعد وقوانین میں ترمیم کرنا ناگزیر ہے۔