انتخاب: عبداللہ
پرانے وقتوں کی بات ہے ،کسی جگہ ایک بہت بڑا سیب کا درخت تھا۔ایک چھوٹا سا لڑکا ہر روز وہاں آکر درخت کے ساتھ کھیلا کرتا،درخت پر چڑھ جاتا،بہترین سیب توڑ کر کھاتا اور درخت کی گھنی چھاؤں میں سوبھی جاتا۔وہ درخت سے محبت کرتا اور درخت کو بھی اس سے محبت تھی۔
لڑکا بڑا ہو گیا،اب وہ ہر روز درخت کے پاس کھیلنے نہیں آتا،مگر کبھی کبھی ملنے ضرور آتا۔نیچے بیٹھ کر خوب باتیں کرتا اور تھوڑا بہت کھیل بھی لیتا۔
ایک مرتبہ لڑکا کافی عرصہ بعد درخت کے پاس آیا،اداس لگ رہا تھا۔
درخت نے کہا،’’آؤ کھیلتے ہیں…‘‘
لڑکے نے بے رخی سے جواب دیا،’’میں بچہ نہیں رہا۔
اب میں تمہارے ساتھ مزید نہیں کھیل سکتا!مجھے کھلونے چاہئیں جس کے لئے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہے۔لیکن ایک کام کرو،میرے سارے سیب لے کر بیچ آؤ،اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے۔‘‘
لڑکا جذباتی ہو گیا۔
سارے سیب توڑے اور خوشی خوشی چلا گیا۔اس کے بعد وہ کافی عرصہ تک دوبارہ نہیں آیا۔درخت اداس ہو گیا۔
وقت گزرتا گیا…اس بار لڑکا ایک جوان آدمی کے روپ میں لوٹا۔درخت اسے دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھا۔’’آؤ،میرے ساتھ کھیلو!‘‘درخت بہت مسرور تھا۔
’’میرے پاس کھیلنے کے لئے وقت نہیں ہے۔مجھے اپنے خاندان کے لئے کام کرنا ہے ،ان کے لئے گھر بنانا ہے۔کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟‘‘
’’میرے پاس گھر تو نہیں ہے ،مگر ہاں ،تم ایسا کر و ،میری ساری شاخیں کاٹ لو اور اپنا گھر بنالو۔‘‘
نوجوان نے ساری شاخیں کاٹیں اور خوشی خوشی چلا گیا۔آج درخت بہت خوش تھا کہ اس نے اپنے دوست کی مدد کی تھی۔لیکن شاخیں کاٹنے کے بعد طویل عرصہ تک وہ دوبارہ ملنے نہیں آیا۔درخت ایک مرتبہ پھر اداس ہو گیا۔گرمیوں کی ایک دوپہر تھی،اچانک وہ لڑکا پھر درخت سے ملنے آیا۔
درخت خوشی سے جھوم اٹھا،اس کا دیرینہ دوست سامنے کھڑا تھا۔
’’آؤ میرے ساتھ کھیلو۔‘‘درخت نے کہا۔
’’میں بوڑھا ہو رہا ہوں،ذہنی طور پر تھک گیا ہوں۔اب میں سمندری سفر پر جانا چاہتا ہوں۔یہ میرے بچپن کا خواب ہے۔کیا تم میری کچھ مدد کر سکتے ہو؟‘‘
درخت نے خلوص سے کہا،’’تم میرا تنا استعمال کرلو۔
اس سے بہت اچھی کشتی بن جائے گی۔پھر تم جہاں چاہو چلے جانا۔‘‘اس نے تناکاٹا اور عرصہ دراز کے لئے لاپتہ ہو گیا۔
برسوں بعد آج وہ درخت سے ملنے آخری بار آیا تھا۔درخت نے اداسی مگر شفقت سے کہا:
’’مجھے بہت افسوس ہے کہ میں سیبوں سے تمہاری خاطر مدارت نہیں کر سکتا۔
میرے پاس ایک بھی سیب نہیں ہے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ویسے بھی اب میرے منہ میں دانت نہیں رہے کہ میں سیب کھا سکوں۔‘‘
’’میرے پاس تنا بھی نہیں رہا جس پر تم اوپر چڑھ جایا کرتے تھے۔‘‘
’’اس کام کے لئے بھی میں کافی بوڑھا ہو چکا ہو۔‘‘
اس نے اداسی سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے سوائے مردہ جڑوں کی ڈنڈیوں کے۔‘‘درخت نے اداسی سے کہا۔
’’مجھے اب کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ،آرام کے لئے ایسی ہی جگہ کی ضرورت ہے۔بھاگتے بھاگتے تھک گیا ہوں میں۔
‘‘آدمی وہیں ڈھیر ہو گیا۔
درخت نے خوش دلی سے کہا،’’شاباش! آجاؤ میری آغوش میں۔آرام کرنے کے لئے اس سے اچھی جگہ اور کون سی ہو سکتی ہے۔‘‘آج درخت بہت خوش تھا۔
یہ ہم سب کی کہانی ہے۔والدین درخت کی طرح ہیں۔جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ خوب کھیلتے ہیں مگر وہ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بس اس وقت ان کے پاس آتے ہیں جب اولاد کو ان کی کوئی ضرورت ہوتی ہے یا وہ کسی مصیبت میں ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود چاہے کچھ بھی ہوجائے ،والدین ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔اس لئے کہ ان کی اولاد خوش رہے۔والدین…ہم والدین…۔