جاگنے کا وقت

1006

سیدہ عنبرین عالم
محمد عابد بلگرامی، جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے، خفیہ اداروں میں بھی کام کا تجربہ تھا۔ عمر خاصی ہوگئی تھی، ایمان دار تھے، ماشاء اللہ ان کے دونوں بیٹوں کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ بڑے بیٹے کی دو بیٹیاں تھیں ارم اور انعم۔ چھوٹے بیٹے کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی سمیع اور سارہ۔ عابد صاحب روز عصر کے بعد بچوں کو لے کر بیٹھ جاتے۔ بچے کچھ کھاتے پیتے بسکٹ، نگٹس وغیرہ، اور عابد صاحب سے باتیں بھی کرتے جاتے۔ عابد صاحب اپنا سارا تجربہ بچوں میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔
’’ہاں تو بچو! سب انبیاء کا باپ کس رسول کو کہا جاتا ہے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کو۔‘‘ ارم نے جواب دیا، ’’کیوں کہ حضرت ابراہیم ؑ کے دو بیٹھے تھے ایک اسحاقؑ اور دوسرے اسماعیلؑ۔ حضرت اسحاقؑ کی نسل سے تو ماشاء اللہ انبیا کا سلسلہ ہے جن میں حضرت یوسفؑ، حضرت دائودؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰؑ، حضرت موسیٰؑ، اور حضرت عیسیٰؑ، وغیرہ شامل ہیں۔ اور حضرت اسماعیلؑ کی نسل عرب میں کعبے کے پاس آباد ہوئی تھی، ان میں ویسے تو کوئی نبی نہیں تھا مگر سب سے آخری نبی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انہی کی نسل سے تھے، یوں حضرت ابراہیم ؑ بہت سے انبیاء کے باپ ہیں۔‘‘
’’شاباش میری بیٹی!‘‘ جنرل صاحب مسکرا دیے۔ ’’بیٹا! حضرت اسحاقؑ کی نسل بنی اسرائیل کہلائی، اور حضرت اسماعیلؑ کی نسل بنی اسماعیل کہلائی۔ بنی اسماعیل تو اپنے تشخص کے معاملے میں اتنے سنجیدہ نہیں لیکن بنی اسرائیل ایک نسل کے طور پر نہ صرف متحد ہیں بلکہ ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ دنیا کی تمام نسلیں مٹتی چلی گئیں، کیوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہر قوم کے ختم ہونے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اب ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں جتنے انسان ہیں وہ یا تو بنی اسماعیل ہیں یا بنی اسرائیل۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل ایک قوم کی حیثیت سے بنی اسماعیل سے عداوت رکھتے ہیں۔ بنی اسرائیل تعداد میں بہت کم ہیں اور بنی اسماعیل کرۂ ارض کی زیادہ تر آبادی پر مشتمل ہیں۔ بنی اسرائیل ایک منصوبے کے تحت بنی اسماعیل کا نقصان چاہتے ہیں، انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں غلام بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بچوں کو بتایا۔
’’اسرائیل کے علاوہ اور کن ممالک کو بنی اسرائیل کہا جاسکتا ہے، امریکا اور یورپ وغیرہ کو؟‘‘ سارہ نے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا‘‘۔ جنرل صاحب نے انکار میں سر ہلایا۔ ’’اسرائیلی قوم صرف یہودیوں پر مشتمل ہے، اور یہ یہودی رفتہ رفتہ اسرائیل میں اکٹھے ہو رہے ہیں، ان کو دنیا کی کسی قوم سے ہمدردی نہیں ہے، غیر یہودیوں کو یہ لوگ جانور سے بھی بدتر سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ غیر یہودی سے جو مرضی سلوک کرو جائز ہے۔ مغربی ممالک کو بھی یہ لوگ محض اپنے فائدے کے لیے ہی استعمال کررہے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو امریکا سے لگائو ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا بھی ان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ واقعتاً یہ لوگ تمام بنی اسماعیل کو غلام بنانے اور تمام دنیا کو اپنا مجبورِِ محض بنانے میں کامیاب ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
سمیع نے غور سے سمجھتے ہوئے پوچھا ’’شاید یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل نے پیارے نبیؐ کو قبول نہیں کیا، کیوں کہ ان کی توقعات کے خلاف میرے محمدؐ بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے۔‘‘
’’یہ تمہاری غلط فہمی ہے‘‘ جنرل صاحب نے فرمایا۔ ’’اگر تم سمجھتے ہو کہ آخری نبی کے بنی اسماعیل میں آنے سے بنی اسرائیل کو کوئی صدمہ پہنچا اور وہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو ایسا نہیں ہے بیٹا! بنی اسرائیل کو پہلے سے معلوم تھا کہ نبیؐ بنی اسماعیل میں آئیں گے اور ان کا دارالخلافہ مدینہ طیبہ ہوگا، اسی لیے وہ ڈیڑھ صدی پہلے سے آکر مدینہ میں آباد ہوئے اور حضورؐ کی آمد سے قبل ہی اپنے پیر پوری طرح مدینے میں جما چکے تھے تاکہ آنے والے نبی کے لیے مشکلات کھڑی کریں۔ یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوا تھا۔‘‘ انہوں نے بات مکمل کی۔
انعم حیرت سے منہ کھولے سن رہی تھی۔ ’’دادا جان! یہ یہودیوں کو ہر چیز کا علم پہلے سے کیسے ہوجاتا ہے؟ آج بھی ان کی منصوبہ بندی کی کامیابی کی اوّلین وجہ یہ ہے کہ تمام حالات انہیں پہلے سے معلوم ہوتے ہیں اور وہ اس بات کو چھپاتے بھی نہیں، اپنے کارٹونوں اور فلموں کے ذریعے بتا دیتے ہیں کہ یہ ہونے والا ہے؟‘‘ اس نے کہا۔
جنرل صاحب نے گہرا سانس لیا۔ ’’بیٹا! اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی ہر اہم پیش رفت کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہوتا ہے، تو ظاہر ہے اپنی منصوبہ بندی انہیں پہلے سے پتا نہیں ہوگی تو اور کسے ہوگی! دوسری بات یہ ہے کہ یہ کرۂ ارض کی سب سے قدیم قوم ہے، جیسے بزرگوں کو زیادہ تجربہ ہوتا ہے اسی طرح قدیم ترین قوم کی حیثیت سے دنیا کے کئی راز ایسے ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے انہی کی نسل میں محفوظ ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم بھی رہ چکے ہیں اور تخلیق کے رازوں کا علم بھی رکھتے ہیں۔ آج جتنی حیرت انگیز سائنسی ایجادات کا آپ مشاہدہ کررہے ہیں وہ زیادہ تر یہودی سائنس دانوں کا کمال ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ابلیس سے بھی براہِ راست رابطے ہیں۔ وہ ان کا آقا ہے۔ یہودی شیطان کی فوج ہیں اور شیطان بھی ان تک بہت سی معلومات پہنچاتا ہے۔ میرے اللہ اور شیطان کے درمیان جنگ جاری ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’لیکن بنی اسرائیل تو انبیاء کی نسل تھی، یہ شیطان کی آلہ کار کیوں بن گئی؟‘‘ سمیع نے سوال کیا۔ ’’یہ بہت اہم سوال ہے۔‘‘ جنرل صاحب سنجیدگی سے بولے۔ ’’بیٹا! حضرت یعقوبؑ جو حضرت اسحاقؑ کے بیٹے تھے، ان کی اولاد کے متعلق آپ نے سورہ یوسف تو پڑھی ہے، یعنی انتہائی ابتدائی دور میں ہی شیطان نے حضرت یعقوبؑ کے زیادہ تر بیٹوں پر قابو پا لیا تھا۔ پھر جیسے تیسے نسل بڑھتی رہی، مسلسل انبیاء کی آمد نے انہیں کچھ نہ کچھ صراطِ مستقیم سے باندھے رکھا۔ اصل خرابی اُس وقت پیدا ہوئی جب بنی اسرائیل فرعون کی غلامی میں چلے گئے۔ فرعون مکمل طور پر شیطان تھا، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ میرا اللہ قرآن میں صدیوں میںگزری ہوئی اقوام اور افراد کا ذکر کرتا ہے مگر جس نفرت کا اظہار فرعون کی بابت ہے، وہ کسی اور سے نہیں۔ فرعون نے شیطان سے براہِ راست کئی خفیہ علوم سیکھ لیے تھے۔ جب اہرام کی تعمیر ہوئی تو فرعون نے چاہا کہ یہ تمام خفیہ علوم اہرام میں محفوظ ہوجائیں اور قیامت تک آنے والی شیطانی قوتوں کے لیے ہدایتِ شیطانی کا ذریعہ بنیں۔ چوں کہ اہرام کی تعمیر بنی اسرائیل کے ذریعے کی گئی، اس لیے یہ علوم اور ان کے اثرات بنی اسرائیل میں بھی منتقل ہوگئے، اور اس کے بعد بنی اسرائیل کسی طرح نہ سدھر سکے۔‘‘
’’یعنی اہلِ ایمان کے لیے جو حیثیت خانۂ خدا یعنی کعبۃ اللہ کی ہے، حزب الشیطان کے لیے اہرام مصر کی ہے؟‘‘ انعم نے پوچھا۔
’’لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ بنی اسرائیل کبھی بھی بُت پرستی میں ملوث نہیں رہے۔‘‘ ارم نے کہا۔
’’جنرل صاحب مسکرا دیے۔ ’’شیطان پرستی سے بت پرستی کہیں کم ہے۔ یہود شیطان پرست قوم ہیں، یہ حقیقتاً شیطان کی عبادت کرتے ہیں، شیطانی ایجنڈے کے تحت نسلِ انسانی اور کرۂ ارض کو برباد کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ جانتے بوجھتے میرے پروردگار سے برسرپیکار ہیں، یہ شیطان کو خدا سمجھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
سارہ کچھ پریشان تھی۔ ’’میرے رب نے شیطان مردود کو اس قدر علم اور توانائی کیوں دے دی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’بیٹی! شیطان کوئی عام مخلوق نہیں ہے، ابلیس اللہ سے اتنا قریب تھا کہ جنت کے ہر چپے پر اس نے سجدہ کیا۔ یہ کامیاب نیابت کا سب سے اہم امیدوار تھا۔ جنوں کا ہی نہیں، فرشتوں کا بھی سردار تھا۔ کائنات کے انتہائی اہم کام سرانجام دیتا تھا۔ عہدوں سے برخواست کیے جانے کے بعد کروڑوں اربوں سال کی سرداری اور کارگزاری نے اس کے علم کو بہت وسیع کردیا ہے۔ اختیارات نہیں ہیں لیکن وہ کئی رازوں اور طریقوں سے واقف ہے۔ یہ میرے رب کی عنایت ہے جس نے اپنے دشمن کو بھی تہی دست نہیں کیا۔ اصل میں شیطان کو غلط فہمی ہی میرے اللہ کی عنایات کے باعث ہوئی۔ اس قدر طاقت اور اختیارات اسے دے دیے گئے کہ وہ خود ہی میرے رب کی ٹکر پر آنے کا سوچنے لگا۔ کہنے کو تو وہ نائب بننے کی خواہش کا اظہار کرتا تھا، لیکن وہ خدا بننا چاہتا تھا، اسی لیے ہر شیطان سیرت شخص خود کو خدا کہتا رہا، جیسے فرعون اور نمرود وغیرہ۔ میرے رب نے خود اسے اجازت دی کہ قیامت تک جو چاہے کرتا رہے، میرا رب چاہے تو ایک لمحے میں ابلیس کو کچل دے، لیکن میرا رب وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘ جنرل صاحب نے سمجھایا۔
’’جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل یہودیوں نے مدینے میں اپنی بنیادی ریاست قائم کرلی تھی اور ان کے خلاف ہر قسم کی سازشوں میں شریک رہے، کیا اب بھی اسرائیل کا دنیا کے نقشے پر نمودار ہونا اور گریٹر اسرائیل بنانے کی کوشش کسی خاص واقعے کا پیش خیمہ ہے؟‘‘ سارہ نے انار کا جوس پیتے ہوئے سوال کیا۔
جنرل صاحب نے سر ہلایا۔ ’’ہاں بیٹا! میرے نبیؐ نے اپنی خلافت قائم کرتے ہی مدینے اور اطراف سے سارے یہودیوں کو نکال باہر کیا، بلکہ عرب کی سرزمین سے ہی باہر کردیا۔ یہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں دوبارہ عرب میں کاروبار جمانے میں کامیاب ہوئے۔ دیکھو بیٹا! قرآن میں میرا رب کہتا ہے کہ رسول کے دشمنوں کے گھر، رسول کی فتح کے بعد ویران پڑے ہوتے ہیں۔ اب تم دیکھو کہ میرے نبیؐ کی فتح کے بعد کس کے گھر عرب میں ویران تھے؟ کفارِ مکہ کے؟ نہیں… یہودیوں کے۔ سورہ الحشر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہودیوں نے خود اپنے گھر اپنے ہاتھوں سے اجاڑے۔ کفارِ مکہ کے گھر تو آباد تھے اور وہ مسلمان ہوچکے تھے، لہٰذ میرے نبیؐ کی رسالت یہود کے خلاف تھی اور وہی میرے نبیؐ کی فتح کے بعد برباد ہوئے۔‘‘ سارہ نے پوچھا۔
’’بیٹا! بنی اسرائیل شیطانی گروہ ہے، ان کی اوّلین کوشش ہر دور میں یہی رہی کہ کعبۃ اللہ کو نابود کیا جائے۔ مجھے قوی شک ہے کہ ابرہہ کا ہاتھیوں کا حملہ بھی یہود کی کوشش تھی، کیوں کہ صرف انہیں ہی معلوم تھا کہ اس سال میرے نبیؐ پیدا ہونے والے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کعبہ نہ رہا تو آنے والا نبیؐ کمزور پڑ جائے گا۔ اب بھی انہوں نے گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مدینے کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ لوگ مدینے کے قریب آرہے ہیں، ارادہ پھر سے مدینے پر قبضے اور کعبے پر حملے کا ہے، یہ سب ان کو جلد از جلد کرنا ہے کیوں کہ حضرت مہدیؑ اور دجال دونوں کی ہی آمد سر پر پہنچ چکی ہے، حضرت عیسیٰؑ تو حضرت مہدیؑ کے دور کے آخر میں آئیں گے۔‘‘ جنرل صاحب بولے۔
’’ان حالات میں پاکستان کی تباہی سریع الرفتار ہوچکی ہے، کیا کیا جائے؟‘‘ سمیع نے پوچھا۔
’’درست۔‘‘ جنرل صاحب نے تائید کی۔ ’’سمیع بیٹا! پاکستان مدینہ ثانی ہے، یہ انسانی تاریخ کا دوسرا ملک ہے جو میرے رب کے نام پر بنایا گیا، اور یہاں بھی اللہ کے نبیؐ کی طرز پر میرے رب کے نام پر ہجرت ہوئی، ماشاء اللہ دوسرے اسلامی ممالک کے مقابلے میں فوجی قوت بھی مضبوط ہے، تو بیٹا! اب ایک نہیں دو مدینے ہیں، اور مہدیؑ مدینے یا پاکستان سے کام کا آغاز کریں گے۔ صاحبِ نظر لوگ کہتے ہیں کہ اب کے میرے رب اور شیطان کے درمیان جنگ کا میدان میرا پاکستان بنے گا، اس لیے قوی امکان یہی ہے کہ حضرت مہدیؑ کا نزول پاکستان میں ہی ہوگا، یہود اس حقیقت سے واقف ہیں اس لیے وہ پاکستان کو اس حد تک تباہ کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان مہدیؑ کا ساتھ نہ دے سکے۔‘‘ انہوں نے تفصیل سے سمجھایا۔
’’آپ کیا سمجھتے ہیں، پاکستان ان سازشوں کا مقابلہ کر پائے گا؟‘‘ ارم نے پریشانی سے پوچھا۔
’’مہدیؑ اللہ تعالیٰ کی نشانی ہیں، وہ ہر صورت فتح حاصل کریں گے۔ مگر یہ بات فکر انگیز ہے کہ پاکستانی حکومت، معیشت اور داخلی معاملات مکمل طور پر یہودیوں کی کنٹرول میں چلے گئے ہیں، انتہائی نالائق، غدار اور لالچی گروہ کو ہم پر حکمران بناکر مسلط کردیا گیا۔ یہودیوں کی پاکستانیوں اور اہلِ اسلام کو تباہ کرنے میں جتنی تیزی آتی جائے، سمجھ جائو دجال کا ظہور اتنا نزدیک ہے۔ ہمارے علماء بھی انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہیں، وہ منبر پر دجال کے بارے میں بات ہی نہیں کررہے۔ کوئی تیاری نہیں، کوئی حفظِ ماتقدم نہیں، وہ مہدی ؑ کو کیا منہ دکھائیںگے جب مہدی ؑ پوچھیں گے کہ امت دین کے بارے میں اس قدر جاہل کیوں ہے؟‘‘ جنرل صاحب نے کہا۔
انعم جو خاصی دیر سے چپ بیٹھی تھی، بولی ’’دادا جان! شیطان اتنی تیاری کررہا ہے، براہِ راست رابطے کررہا ہے، تو یہ ہمارا پاک رب کسی سے براہِ راست رابطہ کیوں نہیں کرتا، ہماری مدد کیوں نہیں کرتا، یہ کیسی جنگ ہے؟‘‘
جنرل صاحب مسکرانے لگے ’’بیٹا قیامت بہت قریب ہے، ہر نشانی پوری ہوچکی ہے، اب آخری جنگ ہونی ہے Armegadon، جس میں فیصلہ ہوجائے گا، میرے اللہ اور شیطان کے درمیان جنگ کا فیصلہ۔ اس لیے میرے اللہ نے شیطان کو کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ جو چاہے کرو۔ تاکہ اُسے یہ شکوہ نہ رہے کہ اللہ نے خدائی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اُسے ہرایا۔ جنگ اس بات کی ہے کہ انسان میرے رب کا نائب بننے کے لائق ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو انسان تو جہنم میں جائے گا ہی، شیطان بھی ہمیشہ کے لیے برباد۔ اور اگر انسان میرے رب کا تابعدار اور عاشق بن کر دکھاتا ہے تو میرا رب فاتح اور انسان نائب۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’مگر میرے اللہ کی فوج میں کوئی ایسا نہیں جو تمام امت کو رازوں سے آگاہ کرے، مستقبل بینی اور حکمت سے منصوبے بنائے، جو امت کو متحد رکھے اور امت کو عشق و قربانی سکھائے؟‘‘ سارہ نے سوال کیا۔
’’یہ سب وہی کرسکتا ہے جس پر اللہ کا ہاتھ ہو، جو اللہ سے براہِ راست رابطے میں ہو۔ امید ہے کہ یہ کمی محترم مہدی ؑ کے آنے سے پوری ہوجائے گی، مگر یہ یاد رکھو کہ ہمیں Armegadon جیتنے کے لیے ہتھیار اور دولت کی کثرت نہیں چاہیے بلکہ انتہائی بلند درجے کا عشق اور تابعداری میرے رب کے حضور پیش کرنی ہوگی۔ بس یہی وہ بات ہے جو شیطان کو غلط ثابت کر دے گی، یہ ثابت ہو جائے گا کہ انسان شیطان کے بہکانے کے باوجود اپنے رب سے غداری نہ کرسکا۔ یہی بات اللہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ صرف انسان ہی اللہ رب العزت کا نائب بننے کا حق دار ہے۔ بس یہی جھگڑا ہے جس کے فیصلے کے لیے یہ دنیا بسائی گئی۔‘‘ جنرل صاحب نے سمجھایا۔
’’کیا حضرت مہدی ؑ کو آسانی سے قبول کر لیا جائے گا، یا امت ِ مسلمہ ہی ان کے خلاف ہوگی؟‘‘ سمیع نے سوال کیا۔
’’بیٹا! یہ آخری جنگ ہے، حضرت مہدی ؑ کی شکست تو اللہ کو برداشت نہیں ہوگی، اس لیے اُن کے خلاف بات کرنے والے کی حیثیت ابوجہل اور ابولہب کی ہوگی، کوئی معافی نہیں ملے گی۔ اصل حضرت مہدی ؑ کو پہچاننے کے لیے اُن کے حلیے یا دیگر نشانیوں کے بجائے ان کے پیغام پر غور کرنا ہوگا، اگر وہ واقعی کرۂ ارض اور نسلِ انسانی کے لیے سلامتی اور عشقِ الٰہی کا پیغام لائے ہیں تو شک کی گنجائش نہیں۔‘‘ جنرل صاحب نے کہا۔
’’شکریہ دادا جان! بہت معلومات حاصل ہوئیں۔‘‘ انعم، ارم، سارہ اور سمیع نے ایک ساتھ کہا۔

حصہ