شریک مطالعہ: سہ ماہی جریدہ ادبیات کا 119واں شمارہ

1458

نعیم الرحمن
اکادمی ادبیات پاکستان کا قیام 1976ء میں پاکستانی زبانوں اور ان کے ادب کے فروغ کے لیے عمل میں آیا تھا۔ اس کے صدر نشین مشہور مزاح نگار شفیق الرحمن، احمد فراز، پروفیسر پری شان خٹک، فخر زمان، غلام ربانی آگرو، افتخار عارف، نذیر ناجی اور پروفیسر ڈاکٹر قاسم بگھیو جیسے ادیب، شاعر، دانش ور اور مشاہیر رہ چکے ہیں۔ موجودہ چیئرمین سید جنید اخلاق ہیں۔ اکادمی ادبیات نے بے شمار ادبی و تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔ بین الاقوامی ادب کے کئی عمدہ تراجم بھی کرائے۔ ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے عنوان سے اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ادیب اور شعرا کی شخصیت اور فن پر 100 سے زائد کتب شائع کی گئی ہیں۔ پاکستانی ادب کا نثری اور شعری سالانہ جائزہ بھی باقاعدگی سے شائع کیا جاتا ہے۔ ہر سال ’’ادبی کتابیات‘‘ بھی چھپتا ہے۔ مجموعی طور پر اکادمی نے اپنے قیام کے بعد سے پاکستانی ادب اور ادیبوں کی بہت عمدہ خدمات انجام دی ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان کا سہ ماہی ادبی جریدہ ’’ادبیات‘‘ جولائی 1987ء سے باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے جس میں اردو ادب کے ساتھ ملک کی دیگر تمام علاقائی زبانوں پشتو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، براہوی، بلوچی، شینا اور دیگر معروف اور غیر معروف زبانوں کے تراجم شائع ہوتے ہیں، اور اردو قارئین کو ملک کی دیگر زبانوں کے ادب سے متعارف کرانے کا کام بہ خوبی انجام دیا جارہا ہے۔ اس طرح ’’ادبیات‘‘ پاکستان کی تمام زبانوںکی ترجمانی بہت عمدگی سے کررہا ہے۔ ’’ادبیات‘‘ کے پہلے مدیر مشہور شاعر خالد اقبال یاسر تھے۔ جب کہ نگہت سلیم، افسانہ نگار و مترجم محمد عاصم بٹ بھی اس کے مدیر رہ چکے ہیں۔ ادبیات کے موجودہ مدیر ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ اور ’’جندر‘‘ جیسے ناول لکھنے والے اختر رضا سلیمی ہیں۔ ادبیات کا 119 واں شمارہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔
ادبیات نے 32 سال مسلسل اشاعت کے دوران کئی منفرد خصوصی شمارے شائع کیے، جن میں چار جلدوں میں چار ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ’’بین الاقوامی ادب نمبر‘‘ بہت عمدہ اور یادگار ہے۔ دو ہزار صفحات پر مبنی دو جلدوں میں ’’بچوں کا ادب‘‘ نمبر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ’’سارک ممالک کا ادب‘‘، ’’خواتین اہلِ قلم نمبر‘‘، ’’ پرواسی ادب نمبر‘‘، ’’ مضافاتی ادب نمبر‘‘، ’’نظم نمبر‘‘ اور ’’نعت نمبر‘‘ بھی ادبیات کے خصوصی اور یادگار شمارے ہیں، جنہیں علم و ادب کے شیدائی اپنی ذاتی لائبریریوں کی زینت بنانا پسندکرتے ہیں۔ ان کے علاوہ علم و ادب کی مشہور و معروف شخصیات پر خصوصی شمارے ہیں، جن میں ’’جوش نمبر‘‘، ’’احمد ندیم قاسمی نمبر‘‘، ’’فیض احمد فیض نمبر‘‘، ’’احمد فراز نمبر‘‘ ، ’’منیر نیازی نمبر‘‘، ’’الطاف حسین حالی نمبر‘‘ کے بعد گزشتہ برسوں میں انتقال کرنے والے ادیب و ناول نگار ’’انتظار حسین نمبر ‘‘ اور ’’عبداللہ حسین نمبر‘‘ بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ان بے مثال نمبروں کے ذریعے نہ صرف ادبیات نے اپنے دور کے عظیم شعرا اور ادبا کوخراجِ تحسین پیش کیا بلکہ مستقبل کے محققین کے لیے شان دار مواد فراہم کردیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی چار اہم زبانوں پشتو، پنجابی، سندھی اور بلوچی کے چار صفِ اوّل کے ادیبوں پر خاص شمارہ بھی بہت اہم اور مستقل نوعیت کا ہے، جس میں سندھی ادیب و شاعر شیخ ایاز، پنجابی شاعر احمد راہی، پشتو ادیب و دانش ور حمزہ خان شنواری، اور بلوچی کے ادیب میرگل خان نصیرکی شخصیت و فن پر بہترین تحریریں یکجا کی گئی ہیں۔
ادبیات کا اکتوبر تا دسمبر2018ء کا شمارہ ملک کے مشہور ماہر تعلیم اور دانش ور ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نمبر‘‘ ہے جس میں اس عظیم شخصیت کو شان دار انداز میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، اور ملک کے اہم ماہرِ تعلیم کی خدمات پہلی بار قارئین کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں۔ دیگر ادیب و شاعر حضرات پر خصوصی شمارے اور نمبر تو اکثر ادبی جرائد شائع کرتے رہتے ہیں، لیکن ڈاکٹر نبی بخش بلوچ پر نمبر شائع کرنے پر اکادمی ادبیات اور سہ ماہی ادبیات کے مدیرانِ کرام خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے وہ کام کیا ہے جوکرنا تو ضروری تھا، لیکن شاید اکادمی کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔
اکادمی کے صدر نشین سید جنید اخلاق نے اداریے میں نبی بخش بلوچ کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ادبیات کا ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نمبر آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ پاکستان کے نامور محقق، دانش ور، ماہرِ تعلیم، ماہر لغت نویس تھے۔ یوں تو ڈاکٹر بلوچ نے اردو، انگریزی، عربی، فارسی، بلوچی اور سرائیکی زبانوں میں بھی اپنی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں، مگر ان کا سب سے زیادہ کام سندھی زبان و ادب کے حوالے سے ہے، بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ سندھی زبان و ادب کی دریافت اور بازیافت میں سب سے زیادہ حصہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ہی کا ہے۔ پاکستانی ادب میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کے تحقیقی کام کی اتنی جہتیں ہوں گی۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں یہ خصوصی شمارہ ترتیب دیا گیا ہے۔ بہترین کاغذ پر بڑے سائز کے 600 سے زائد صفحات کے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نمبر کی 200 روپے قیمت انتہائی کم ہے۔ ہرعلم دوست شخص کو یہ نمبر خرید کر ڈاکٹرصاحب کوخراج تحسین ادا کرنا چاہیے۔
زیر نظرشمارے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی شخصیت اور فن کی مختلف جہات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان جہات کے حوالے سے مختلف ابواب قائم کیے گئے ہیں جن کے تحت ممتاز ادیبوں، نقادوں اور محققوں سے خصوصی طور پر حاصل کردہ مضامین اور مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ آخر میں ڈاکٹر بلوچ کی اردو تحریروں سے انتخاب کے ساتھ ساتھ کچھ سندھی نگارشات کا اردو ترجمہ بھی شاملِ اشاعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ ادبیات کا یہ خصوصی شمارہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے حوالے سے بنیادی ماخذ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور مستقبل میں ان پرکام کے لیے بنیادی مواد کی حیثیت سے کام آئے گا۔‘‘
بلاشبہ ادبیات کا یہ شمارہ انتہائی اہمیت کاحامل ہے جس میں ملک کے ایک بڑے ادیب و دانش ور کی شخصیت اور فن کا بھرپور انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ 16 دسمبر 1917ء کو پیدا ہوئے، اور انہوں نے 6 اپریل 2011ء کو اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کی جانب کوچ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلیمی دور انتہائی شان دار رہا۔ 1936ء میں انہوں نے میٹرک میں سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1941ء میں بی اے آنرز میں انہوں نے کالج میں ٹاپ کیا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد 1943ء میں ایم اے عربی میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ 1949ء میں ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے کولمبیا یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ’’نئے ملک پاکستان میں اساتذہ کی تربیت کا پروگرام ‘‘ تھا، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں تعلیم کے دوران ہی پاکستان میں تعلیم و تربیت کے فروغ سے کس قدر دل چسپی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے 1951ء میں بحیثیت پروفیسر سندھ یونی ورسٹی کو جوائن کیا۔ 1955ء میں انہوں نے یونی ورسٹی کے ایجوکیشن جرنل کا اجرا کیا۔ 1962ء میں انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی کو جوائن کیا۔ 1973ء میں سندھ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ 1976ء میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کو قومی کمیشن برائے تحقیقات ِ تاریخ و ثقافت کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ 1979ء سے 1983ء تک وہ مقتدرہ قومی زبان کے رکن رہے۔ 1980ء میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے بانی وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا اور اس عہدے پر 1986ء تک فائز رہے۔ 1983ء میں قومی ہجرہ کونسل کی مشیر مقرر ہوئے اور 1990ء سے 1994ء تک سندھی لینگویج اتھارٹی کے پہلے چیئرمین رہے۔ اس طرح ڈاکٹر نبی بخش بلوچ بے مثال تعلیمی کیریئرکے بعد علم و ادب سے تمام زندگی وابستہ رہے اور اعلیٰ تعلیمی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔
سہ ماہی ’’ادبیات‘‘ کے اس ضخیم اور وقیع ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نمبر‘‘ کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا حصۂ مضامین سب سے زیادہ 210 صفحات پر مبنی ہے، جس میں ملک کے تیس اہم ادیب و دانش ورانِ کرام کے بتیس مضامین شامل کیے گئے ہیں جن کے عنوانات اور مصنفین کے ناموں سے ہی اس اہم حصے کی افادیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر آفاق صدیقی نے ’’شیدائے علم و ادب‘‘ کے عنوان سے مضمون تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا مضمون ’’سندھی ثقافت کی جیتی جاگتی تصویر‘‘ کے نام سے ہے۔ امداد حسینی نے ’’سنڈھڑی کے سپوت، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سے دو، تین یادگار ملاقاتیں‘‘ کا احوال قلم بند کیا ہے۔ اکادمی ادبیات کے سابق صدر نشین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کے مضمون کا عنوان ’’ان کے لیے مثال چھوڑ جاؤ‘‘ ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق نے اپنی تحریر کو ’’ایک عہد ساز شخصیت‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ غلام حسین رنگریز کی بہت عمدہ تحریر ’’ڈاکٹر بلوچ، ایک معلم، ایک محقق‘‘ کے نام سے ہے۔ ڈاکٹر دُر محمد پٹھان کی دل چسپ تحریر ’’اس دریا کی موجوں کو میں نے بھی تو دیکھا‘‘ کے نام سے شامل ہے۔ سندھی کے معروف ادیب اور دانش ور تاج جویو نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تاریخ نویسی‘‘ کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ نصیر مرزا نے عظیم شخصیت پر مضمون ’’ایسا کہاں سے لاؤں‘‘ میں ان کی یادوں کی بازیافت کی ہے۔ ڈاکٹر محبوب احمد چشتی نے ’’معمارِادب، اسکالر، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی مختلف جہتوں کو بیان کیا ہے۔ مشہور مصنف اور کالم نگار رفیع الزماں زبیری نے مضمون کو ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ کا نام دیا ہے۔ سید جمیل احمد رضوی نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ مرحوم، تاثرات اور یادیں‘‘ میں نامور شخصیت کی یادوںکو تازہ کیا ہے۔ محمد راشد شیخ نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے اردو مکتوبات‘‘ اور ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی زندگی کا تعلیمی دور‘‘ کے عنوانات سے دو مضامین تحریر کیے ہیں۔ قیصرہ مختار علوی نے بھی اپنے مضمون کو ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ عنایت بلوچ نے ’’تاریخ کا بچھڑنا‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب کی تاریخ نویسی پر خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ اقبال مجددی نے ’’ڈاکٹر این اے بلوچ لاہور میں‘‘ کے نام سے مضمون لکھا ہے جس میں ان کے لاہور کے دور کا ذکر ہے۔ نور احمد جنجھی نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ایک مصنف، ایک محقق‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ گل محمد عمرانی نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، جیسا کہ میں نے انہیں دیکھا‘‘ کے زیرعنوان مضمون تحریر کیا ہے۔ اکادمی ادبیات سندھ کے سابق ڈائریکٹر اور دانش ور آغا نور محمد پٹھان نے ’’ڈاکٹر بلوچ کے انگریزی، اردو اور سندھی خط کتابت کے مجموعے‘‘ اور ’’تصنیفی و تالیفی خدمات‘‘ کے عنوان سے دو مضامین میں ڈاکٹر صاحب کی اعلیٰ خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عصمت زیدی نے اپنے مضمون’’وہ اپنی ذات میں ایک تہذیبی دائرہ تھے‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کی مہذب شخصیت کی تصویرکشی کی ہے۔ مرزا کاظم رضا بیگ نے ’’مینارِ علم و ادب‘‘ کے عنوان سے علم و ادب کی عظیم شخصیت کی زندگی کے روشن پہلوئوں کو پیش کیا ہے۔ قاسم حیدر کے مضمون کا عنوان ہی’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ ہے۔ ڈاکٹر فیاض لطیف نے ’’علم اور ادب کا روشن مینار‘‘ کے عنوان سے مضمون میں ڈاکٹر بلوچ کی اعلیٰ خدمات کا بھرپور اعتراف اور بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر منظور علی ویسریو نے’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے علمی، ادبی و تحقیقی کارنامے‘‘ میں ان کے چند یادگار کارناموں پر روشنی ڈالی ہے۔ علی یاسر نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ایامِ گزشتہ کے چند اوراق کے آئینے میں‘‘ ان کی چند اہم خدمات کا ذکر کیا ہے۔ منزہ مبین نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ بطور عہد ساز شخصیت‘‘ کے نام سے مضمون تحریر کیا ہے۔ نوشین صفدر نے ’’سندھ میں اردو شاعری، ایک تجزیہ‘‘ کے عنوان سے مضمون پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ طاہر نے ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے قومی اور علمی کمالات‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کے اہم کارناموں کو بیان کیا ہے، جب کہ آخری مضمون عارف حسین کا ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ایک بنیاد گزار شخصیت‘‘ کے نام سے ہے۔ حصۂ مضامین میں ڈاکٹرصاحب کی بے مثال زندگی کے ہر پہلوکو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے، اور یقینا یہ مضامین مستقبل میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے بنیادی ماخذ ثابت ہوں گے۔
ادبیات کے اس نمبر کا دوسرا حصہ تراجم پر مبنی ہے جس میں محبوب ظفر، رضیہ طارق، سید نور اظہر جعفری، ہمایوں حسین شیخ، سعیدہ طارق اور علی آکاش نے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے مختلف زبانوں میں گوناگوں علمی اور ادبی کام کے تراجم کیے ہیں جن میں ’’ماضی کی تاریخ کو بڑے خیال کے ساتھ سامنے لانا چاہیے‘‘، ’’حضرت سلطان باہو اور سرائیکی میں ان کے کہے ہوئے بیت‘‘، ’’مرزا قلیچ بیگ کو مؤدبانہ سلام‘‘، ’’سندھی لغت‘‘، ’’شہید ہوش محمد کے مزار اور ان کے خاندان سے متعلق وضاحت‘‘ اور ’’شاہ عبداللطیف کی زبان اور شاعری کا معیار‘‘ بہت عمدہ مضامین ہیں۔
تیسرے حصے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی لائبریری میں محفوظ ایک نایاب انٹرویو شامل کیا گیا ہے۔ یہ انٹرویو کئی سال قبل ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے نام ور مترجم اور شاہ سائیں کی زندگی پر ناول لکھنے والے مراد علی مرزا نے کیا تھا جس کا ترجمہ محبوب ظفر نے کیا ہے۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے بچپن اور تعلیمی زندگی سے متعلق کئی اہم باتیں بیان کی ہیں، جنہیں پڑھ کر ان کی زندگی کے کئی پوشیدہ گوشے قارئین کے سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ہم نے سخت غربت اور مشکلات میں تعلیم حاصل کی۔ میری تعلیم کا سلسلہ 1926ء میں شروع ہوا۔ اُس وقت پرائمری اسکول ہوتے ہی نہیں تھے۔ گاؤں سے نزدیک ترین اسکول بھی پانچ کلومیٹر دور سنجھور میں تھا۔ میں جب چار،پانچ ماہ کا تھا تو میرے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ میرے بیٹے کو ضرورپڑھانا، اس لیے میرے چچانے مجھے پڑھانے کی ہرممکن کوشش کی۔‘‘
’’ڈاکٹرنبی بخش بلوچ نمبر‘‘ کا چوتھاحصہ معاصرین کی نظرمیں ہے جس میں ڈاکٹر صاحب کے معاصرین نے ان کی شخصیت، کردار اورکام پر نظر ڈالی ہے۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے والوں میں لندن یونی ورسٹی کے پروفیسر بی ہارڈی، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر محمود غازی، علی گڑھ یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبہ عربی ڈاکٹر مختار الدین احمد، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، ڈاکٹر عبدالقادر جونیجو اور سندھ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر غلام علی الانہ جیسے مشاہیر شامل ہیں۔
ٰٰ ٰٓیار بلوچ نے ڈاکٹر صاحب کومنظوم خراجِ تحسین پیش کیاہے، جس کے بعد انتخاب کے عنوان سے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی مختلف تحریروں کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی ڈائری سے جونا گڑھ ، علی گڑھ یونی ورسٹی اور کراچی کے ایام کا ذکر بھی شامل ہے جس میں ڈاکٹرصاحب کی زندگی کے کئی پہلو واضح ہوتے ہیں۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب کے مختلف علمی اور ادبی شخصیات کے نام خطوط کوجگہ دی گئی ہے۔ انگریزی اور سندھی کا 80 صفحات کا حصہ بھی شامل ہے۔
مجموعی طور پر ادبیات کا ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نمبر ایک بہت عمدہ اور تاریخ ساز کاوش ہے جس میں عہد ساز شخصیت کی زندگی اور کارناموں کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس عمدہ نمبر کی اشاعت پر اکادمی ادبیات اور جریدے کے مدیرانِ کرام مبارک باد کے حق دارہیں۔

حصہ