راحت جبین
قلم کیا ہے؟ دیکھنے میں ایک معمولی چیز مگر اس کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ یہ طاقت اس وقت سوا ہو جاتی ہے جب سچ بھی اس کا ساتھ دے۔ قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کے تیر برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں کئی لوگ پابند سلاسل ہوجاتے ہیں اور کئی تختہ دار پر چڑھا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ قلم کاروں کی گردنیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ قلم سے نکلے ہوئے یہ لفظ اگر کسی کی زبان پر آجائیں تو زبانیں تک کاٹ دی جاتی ہیں۔ قلم کی سچائی اور طاقت کو ہر دور اور ہر جگہ دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اہل قلم تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ایک سچائی کے پیرو کار، ایک مصلحت کا شکار اور تیسرا گروہ ہے ان اہل قلم کا جن کے قلم بک چکے ہیں۔ ان کے الفاظ دوسروں کے مرہون منت ہیں اور ان کی خواہشات کے تابع ہیں۔ ان سب کے لکھنے کے طریقوںکے بدلے میں لوگوں کی جانب سے ملنے والے رد عمل میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔
ہمارا معاشرہ اور ہم سب آ زاد ہوتے ہوئے بھی ذہنی غلامی کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ایک غلامانہ ذہنیت والے شخص کو سچائی بھی بمشکل ہضم ہوتی ہے کیوںکہ اس کا ذہن خود سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے سے معذور ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو وہی سچ لگتا ہے جو انہیں دکھایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہی اس طرح کے اہل قلم مسلط کیے جاتے ہیں، جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ اوڑھا کر پیش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ بھیانک سچ تویہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ضمیر کو سودا کر چکے ہوتے ہیں۔ ہاتھ اور قلم ان کے ہوتے ہیں مگر الفاظ ان کے نہیں ہوتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس طرح کے ضمیر فروش قلمکاروں کو مختلف اعزازات سے نوازا بھی جاتا ہے مگر اس سچائی کے پیچھے ایک اور بھیانک حقیقت کار فرما ہے۔ وہ ہے قلم کاروں کی معاشی تنگدستی اور مادیت پسندی، جو کہ ایک قلم کار کو اس کے لفظوں کا سودا کرنے پر مجبور کرتاہے۔ ہمارہ معاشرہ اتنا منافقانہ رویے کا حامل ہے کہ قلم کار کو زیادہ تر مصلحت کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔ یہی رویہ لکھاریوں کو جھوٹی کہانیاں، جھوٹے افسانے اور جھوٹی شاعری کرنے پر اکساتی ہے۔ اس سے قلم کار کو دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو سچ وہ کھل کر نہیں لکھ سکتا۔ وہ کہانی کی آ ڑ میں کہہ جاتا ہے۔ دوم اس کو اس بات کی بھی تسلی ہو جاتی ہے کہ معاشرے کی اصلاح میں اس نے کسی حد تک اپنا حصہ ڈال لیاہے مگر لوگوں کی منافقت یہاں عیاں ہوجاتی ہے جب وہ کہانی، افسانوں اور ڈراموں کے کرداروں کے دکھ درد کے لیے تڑپتے ہیں اور آ نسو بہاتے ہیں مگر حقیقی زندگی کے ان کرداروں کو ڈرامہ باز کا خطاب دیتے ہیں۔اگر کوئی قلم کار سچائی کو اس کے حقیقی کرداروں کی ساتھ عیاں کردے تو اسے مجرم گردانا جاتا ہے۔ لعنتوں، مزاحمتوں اور گالیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ باادب سے بے ادب گردانا جاتا ہے اور اکثر اوقات تو اس پر غداری اور بغاوت کا الزام بھی لگ جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سچ بولنے اور سننے کی خواہش تو سب کرتے ہیں مگر سچائی کو برداشت کرنا اورقلم کار کے لکھے سچ کو برداشت کرنا سب کے لیے مشکل ہوتا ہے۔نہ جانے وہ کونسا دور ہوگا جب قلم کو آ زاد کیا جائے گا اور سچ کا بول بالا ہوگا۔ آج یرغمال قلم ہماری طاقت بننے کے بجائے ہمارا دکھ، ہماری کمزوری اور ہماری مجبوری بن گیا ہے۔