نیل احمد
کسی بھی فن کے بنیادی موضوعات کائنات، زندگی اور انسان ہوا کرتے ہیں چونکہ آشوب حیات تخلیق کار کے احساسات و تفکرات کو متاثر کرتے ہیں لہذا ان کو ذات سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور ذات ہی وہ وسیلہ ہے جہاں سے انفرادی سرگزست دراصل آفاقی استعارہ بن کر ابھرتی ہے جس میں تخلیق کار کا باطن، اس کا طرز احساس اور رویے شامل ہوتے ہیں ۔ عہد حاضر کے نامور شاعر محترم ابرار احمد کی “موہوم کی مہک” “وجود کی ایسیجھلک” ہے جو خیالات و احساسات کو کثیر المعنی لفظیات کوہیت عطا کرتی ہوئی نظموں کا شاہکار مجموعہ ہے ۔ آپ کی نظم فن کی بھول بھلیوں میں خود بخود اپنا راستہ بناتی چلی جاتی ہے ۔
انسان نے ذات کو ہمیشہ تجریدی اور ما بعد الطبیعاتی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے یعنی احساس و جذبات کا بحرِ بیکراں جہاں انسان کی ذاتیت، روحانیت اور مقصدیت غرق ہوجاتی ہے ۔ یوں تو انسانی ذہن زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے مگر ہر لمحہ جذبات و احساسات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے – انسانی جذبات ایسا زندان ہیں جہاں انسان کی روحانیت مقید ہے اور وہ جذبات کی حکمرانی سے احتراز نہیں کرتا اور یہی وہ راستہ ہے جہاں انسان اپنی کاملیت کی منزلیں طے کرتے ہوئے اپنی ہستی کی پہچان میں گم ہوجاتا ہے ۔ جیسے جیسے تخلیق کار ہستی میں ڈوبتا جاتا ہے اسے رائیگانی کا احساس ستانے لگتا ہے ، وہ بلبلا اٹھتا ہے اور کہتا ہے “یہ شام بکھر جائے گی” اسی پس منظر میں نظم “موہوم کی مہک” دیکھیے
“موہوم کی مہک” کی آخری سطریں مغائرت کے اس نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتی ہیں جسے فلسفہ وجودیت کے حامیوں نے “بیگانگی” سے تعبیر کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انسان اس دنیا میں بیگانگی کے ماحول میں زندہ ہے، وہ اکیلا ہے، نہ کوئی اس کا خدا ہے نہ زمین اسکی دوست ۔ اسے اس غلاظت میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے- دنیا سراسر بے معنی ہے لیکن اس کے باوجود انسان فطری طور پر آزاد ہے اور اس کا وجود اس کی ذات پر مقدم ہے ۔ سارتر زندگی کو بےمقصد قرار دیتا ہے اس کی نظر میں زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں – انسان خود اپنا خالق ہے اور اپنے افعال و اقدام کا خود ذمہ دار ۔ کسی کو اس کے کردار، اس کی منزل اور زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق نہیں ۔ سارتر کے نزدیک زندگی کا مقصد کامل آزادی ہے اور فرد اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے ۔ سارتر کا کہنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کی اذیت سے جو لوگ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آزادی کا انتخاب کرنے سے گریز کرتے ہیں وہ اپنے گرد مذہب، اخلاق اور معاشرتی اقدار کے ہیولے بنا لیتے ہیں جس طرح ریشم کا کیڑا اپنے گرد ریشم کا تار بنتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے ہی بنائے ہوئے جال میں دم توڑ دیتا ہے، ان لوگوں کا بھییہی حال ہوتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ انسان آشوب حیات کی روانی سے کنارہ کشی کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ ابرار احمد کی نظم “پیہم روانی میں” ایسی ہی کیفیت کی غماز ہے
چونکہ فلسفہ وجودیت فرد کے مجموعی تشخص کے برعکس انسان کی انفرادییا نوعی حیثیت پر زور دیتا ہے لہذا فرد کا کسی گروہ سے کوئی تعلق قائم نہیں ہوتا اور وہ تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ تنہائی ہی انسانی وجود کے اثبات کا ذریعہ بنتی ہے اور اسے خود مختار بناکر وقار عطا کرتی ہے غرض کہ تنہائی فرد شناسی کا اہم جز ہے جو فرد کو مکمل ہونے کے احساس سے سرفراز کرتی ہے ۔ اب چونکہ فرد اپنا جوہر اور اپنی فطرت خود مقرر کرتا ہے اور اپنے فیصلے خود کرتا ہے، اپنی اقدار کا تعین خود کرتا ہے اور دنیا کی تمام ذمہ داریاں اسے خود انجام دینی ہے لہذا تنہائی کے قرب کا احساس شدت اختیار کرنے لگتا ہے اور اس کے زیر اثر آ کر بیچارگی،یاس اور خالی پن سے دوچار ہو جاتا ہے اور فرد ڈر، خوف اور دہشت کے احساسات تلے دب جاتا ہے ۔ ابرار احمد کی نظم “کچھ نہیں ہیں کہیں” میں اس کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے اوراسی پس منظر میں ایک اور نظم “ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے” سے منتخب سطریں
ایسے میں انسان بے بسی سے دوچار ہو جاتا ہے ۔ یہاں مجھے گوئٹے کا کہا ہوا ایک جملہ یاد آرہا ہے اس کا کہنا تھا کہ “تمام اشکال ایک مخصوص لمحے میں وجود میں آتی ہیں, ایک مخصوص مدت گزارتی ہیں, اپنی انتہائی صورت کو پہنچتی ہیں اور پھر دوبارہ نیستی کی طرف چلی جاتی ہیں” گویا ہستی سے نیستی اور نیستی سےہستی کا سفر اس عالم میں ہر صورت اور ہر شکل کو طے کرنا ہے اور کرتی رہے گی ۔ جذباتی مغائرت اور لامکانی کا عذاب فکری تنہائی اور بے بسی سے دوچار کردیتا ہے ۔ ابرار احمد کی نظم “ہر جانب دیواریں ہیں” اسی تناظر کا بیانیہ ہے
ایسی بے بسی میں انسان خود اپنے ہی ہونے پر شک کرنے لگتا ہے ۔ حالت مغائرت ایسی حالت ہے جہاں اشیاء افراد اور حقائق اجنبیت ذدہ معلوم ہونے لگتے ہیں اور وہ حقائق جو دلچسپ اور پسندیدہ تھے بعد ازاں ان کی جانب بیگانگی عدم دلچسپی اور تنفر کا احساس ہونے لگتا ہے ، جیسا کہ نظم “بہت کم ہے عمرِرواں” میں درج ہے
وجودیت مسلسل دعویٰ کرتی ہے کہ انسان کچھ بھی نہیں جان سکتا کیونکہ فرد کے وجود کی کوئی لازمی وجہ جواز نہیں – اس کی کوئی عقلی تنظیم نہیں ، یہ بس ہے اور ہمیں اسے ایسے ہی لینا ہے اور اس بات کی توثیق ابرار احمد کی نظم “موجودگی” میں موجود ہے
سارتر کہتا ہے کہ انسان کا وجود لایعنی ہے ،وہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتا ہے، وہ یہاں کیوں آتا ہے، اسے کیا کرنا چاہیے، اور وہ کہاں جارہا ہے ۔ یہ صورتحال بلاشبہ غیریقینی صورتحال کو جنم دیتی ہے جہاں بے معنی پن، غیر ضروری ہونا اور کرب احساس پیدا ہوتا ہے ۔ ابرار احمد کی خوبصورت نظم “پھینک دے تیشہ اپنا” اس منظر نامے کو کہ وجود بذات کی تلاش بے معنی ہے، عمدگی سے بیان کرتی ہے
وجودیت میں انسان کے وجود کو اول اور اس کے جوہر کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے جس نے انسان کو بطور فرد اپنی اہمیت کا احساس دلایا اور مخفی صلاحیتوں کا ادراک اور انتخاب کی آزادی نے انسان کو جینے کا حوصلہ عطا کیا ۔ انسانی وجود کو ہر دور میں فوقیت حاصل رہی ہے – وجودی فکر محض “فرد کے وجود” پر اصرار کرتی ہے اور اسی کے زیر اثر ادب مایوسی، کرب اور بے بسی جیسی صورتحال سے دوچار ہے یعنی انسان تمام عمر ایک صورتحال سے گزرتا ہے، وہ ایک کا خاتمہ کر بھی لے تو نئی صورتحال حال اس کی منتظر ہوتی ہے گویا انسان تمام عمر آزاد نہیں ہو سکتا ۔ نظم “کسی انتظار کی جانب” میںیہ فکر رچی ہوئی ہے
بے شک وجودی فکر میں فرد کی آزادی سب سے پر کشش نعرہ ہے مگر سماج کے مفادات اور آزادی فرد کے ذاتی مفاد پر مقدم ہیں بلکہ سماج کی آزادی ہی معاشرے کے تمام افراد کے لیے نئی راہیں متعین کر تی ہے لہذا فرد کی معاشرے سے الگ رہنے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی رہی ہیں ۔ چونکہ وجودی مفکرین فرد کے اجتماعی فرائض اور نئی اقدار کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں لہذا وجودیت کا نقطہ نظر دم توڑ رہا
جدید شعری ادب میں ابرار احمد منفرد اسلوب اور لب و لہجے کے حامل شاعر ہیں ۔ آپ کی نظمیں اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ پوری کائنات انسان کو میسر ہے مگر بہت کچھ پا کر بھی فرد اپنے احساس تشنگی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا ۔ہر خواہش عدم تکمیل سے ٹکراتیرہی، فرد اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے، دہشت اور خوف کی فضا میں زیست اور فنا کے درمیان معلق ہے ۔ نظم “ہم نہیں جانتے” ایسا ہی بیانیہ ہے
ہم نہیں جانتے
آسمانوں سے ادھر کیا ہے
اور مٹّی کی گود سے اتر کر ہمیں اور کہاں جانا ہے
ٹھوکریں کھاتے ہوئے ہم نہیں جان پاتے
سیدھی راہ کو
اور نہ یہ کہ اس پر
کیسے اور کیوں کر چلا جا سکتا ہے
روئیدگی کی صورت
زمین پر پھر سے نمودار ہوں گے
ہمیں کن موسموں کا سامنا ہوگا
ہم نہیں جانتے
ہم کہاں موجود ہیں
ایسی ہی کیفیت شعرا کے یہاں “لایعنیت کی شاعری” کے در کھولتی ہے ۔ حساس فرد کا خود کو تنہا اور لاچار محسوس کرنا اور اسی کے زیراثر انسانیت پر تباہی، بے بسی، بے یقینی، رائگانی عمر، تنہائی اور دہشت کا جو پہاڑ ٹوٹتا ہے تو فرد کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ “میں نے بہت وقت ضائع کردیا”
ایک راستے کو جدا کرکے
کسی اور طرف نکل جانے میں
اپنے لہو میں ایک آگ کو سرد کرنے میں
ایک خواب کی پکڑ سے نکلنے میں
اور بے اماں دنوں کے ساتھ
قدم ملا کر چلنے میں
دل اور دنیا کے درمیان
ایک پل بنانے میں
اور اس پل پر سے گزرنے کی اذیت میں
جوتے چمکانے اور اپنا میلہ لباس تبدیل کرنے میں
میں نے بہت وقت ضائع کردیا
اپنی مٹی سے دور
ایک گھر کے لئے اینٹیں اکھٹی کرنے میں
اور دوسروں کے درمیان
جگہ بنانے میں
اسے دیکھنے
اور دیکھ کر گزر جانے میں
حال آں کہ
اتنے وقت میں ۔۔۔۔ بہت سے
باغ لگائے جا سکتے تھے
بہت سی دھوپ جمع کی جاسکتی تھی
اور کہیں بھی پہنچا جا سکتا تھا
افسوس
تاسف کے دھویں سے
میرا دم گھٹنے لگا ہے
اور اس جلتے مکان میں
شاید تم بھی
مجھے باہر نہیں نکال سکتے
نظم “سیربین” ابرار احمد کے تخیل پرواز کی بلند ترین سطح کو چھوتی ہوئی نظم ہے جہاں وہ قاری کو بحیثیت تماش بین مخاطب کرتے ہیں اور دنیا کو تماش گاہ طور پر پیش کرتے ہوئے ایسے ایسے اساطیری، مابعد الطبیعیاتی، فلسفیانہ اور کائناتی رازوں کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ جہاں تحت شعور اور لاشعور معنی کی ترسیل پیکر کی صورت میں ڈھلنے لگتے ہیں اور تماش بین روزمرہ کے حالات و واقعات کو (جن پر وہ کبھی غور نہیں کرتا) سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ منتخب سطریں دیکھیے
ہے کوئی؟ زندہ ہے کوئی؟
جاگا ہے کوئی؟ سنتا ہے کوئی؟
ان قصبوں اور شہروں کے آسیب سے نکلو
اپنے گھر کی مہک سے اور دھویں سے نکلو
اپنی دیواروں تک ٹھہری نظروں کے آشوب سے نکلو
لوٹو، اپنی حیرانی کی جانب لوٹو
اپنی رونق، اپنی ویرانی کو لوٹو
نکلو اس وحشت سے تھوڑی دیر کو نکلو
آنکھیں رکھتے ہو تو دیکھو
دیکھو، دیکھنے والوں، دیکھو
شاعر کی شعری کائنات نے جہاں شعور اور لاشعور کی ملی جلی رو سے عصر حاضر کی تلخ و شیریں حقیقتوں سے پردہ اٹھایا وہاں کمال مہارت سے علامتوں، پیکروں اور تمثالوں کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے ۔ سیربین” کی مزید سیر کرتے ہیں
آنکھ کی زد سے باہر کیا ہے
دل کی حد کے اندر کیا ہے
تو کیا چیز ہے خواہش کیا ہے
عمر کییہ گنتی کیا ہے
ماہ و سال، کلینڈر کیا ہے
شام و سحر کا چکر کیا ہے
سر میں کیا طوفان مچا ہے
اور سینے کے اندر کیا ہے
ظاہر کیا ہے
باطن کیا ہے
کون سا پل کیا کر جائے گا
کس لمحے کیا ہو جائے گا
کون کہاں پر مل جائے گا
انہونی کے حلیے دیکھو
اپنی خاک کے ٹیلے دیکھو
شاعر کی ذہنی کیفیات اور جمالیاتی حسیات کی تمام جہتیں تہ در تہ معنی میں ضم ہوتی جاتی ہیں ۔ نظم “میرے پاس کیا کچھ نہیں” شعوری ارتقا کی شعری تعبیر ہے ۔ آگہی ذات و کائنات دراصل دل و ذہن کو کشادگی عطا کرتی ہے ۔ چشم باطن بےحجاب ہوتی ہے تو روحانی ادراک کی شعری تشکیل انجام پاتی ہے ۔ شاعر کے تخلیقی جوہر کا طلسم ایسے مقام تخلیق سے ہمیشہ دور رکھتا ہے، تخلیق کا سرچشمہ وقت کا وہ دھارا ہے جو کبھی تخلیق کار کے ہاتھ نہیں لگتا کہ جہاں تخلیقی اکتشاف وجود کے داخلی اور خارجی منظرنامے کی تعبیر پیش کرتے ہیں ۔ ایسی ہی کیفیت میںگندھی ایک خوبصورت نظم “میرے پاس کچھ نہیں”
میرے پاس
راتوں کی تاریکی میں کھلنے والے پھول ہیں اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی روشنی ہے اور بینائی
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے اور یاد
میرے پاس معروضیت کی تمام تر رنگارنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ
میں آسمان کو اوڑھ کر چلتا اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں عبدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
میری آنکھوں میں
ایک گرتے ہوئے شہر کا ملبہ ہے
ایک مستقل انتظار
اور آنسو
میری آواز میں بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر
تیار کیا گیا ہے
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لئے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لئے کچھ باتیں
میں رد کیے جانے کی خفت سے آشنا ہوں
اور پذیرائی کی دلنشین مسکراہٹ سے بھرا رہتا ہوں
میرے پاس
ایک عاشق کی وارفتگی
درگزر
اور بے نیازی ہے
تمہاری اس دنیا میں میرے پاس کیا کچھ نہیں
وقت
اور تم پر اختیار کے سوا ۔۔۔۔۔۔
ادب براۓ زندگی کا پرچار کرتی ابرار احمد کی نظمیں تخلیقی پیرائے میں ثقافتی اور سماجی شعور کی جھلک پیش کرتی ہیں جہاں خود شاعر دوران تخلیق معنی کی کثرتیت سے بےخبر رہتا ہے اور جب عالم ہوش میں آتا ہے تو چونک اٹھتا ہے کہ نظموں کا تجزیاتی مطالعہ قاری کومن چاہی تعبیریں اور تشریح کی آزادی فراہم کرتا ہے – “حرف گماں” اسی پس منظر کی عکاس ہے
رقص تھا میرے چار سو
دھول ہے ہر طرف رواں
نکلے تھے خواب صبح میں
آ گئیں، شب کی بستیاں
گردش بے اماں میں ہیں
لڑھتے، بکھرتے کارواں
سیل وصال و ہجر میں
بندش ماہ وسال ہے
خوں میں ہے عمر کی دکھن
سانس میں وقت کی چبھن
دل جو رہا، تمہارا گھر
مسکن آرزو بھی تھا
گھر میں مکیں رہا کہاں
اور مکیں کو گھر کہاں
روح فلک ہو یا زمیں
دائمی کیا رہا یہاں
رسم فنا پذیر ہے
حرف گماں رہا یہاں
ابرار احمد کے مجموعہ کلام میں تازگی کا احساس نمایاں ہے ۔ آپ کی نظم کا مرکزی خیال “مغائرت” ہے جو لاشعوری طور پر متن کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ محض خوبصورت تشبیہات اور استعاروں کا استعمال ہی کلام کو جاذب فہمی عطا نہیں کرتا بلکہ لفظی پیکروں کو مفہوم کی آواز عطا کرنا دراصل کامیابی ہے جہاں الفاظ سے ماورا احساسات، حسیات اور لفظیات بصیرت اور بینائی سے منور ہوتے ہیں ۔دنیائے ادب میں سرفرازی اور نیک شہرت کے لیے ہزاروں دعائیں۔