طلعت نفیس
۔2008ء کی بات ہے کہ میں لیاقت آباد سے دستگیر شفٹ ہوئی۔ شفٹ ہوئی تو نگراں نشرواشاعت دستگیر زون کی ذمے داری گویا ہمارے لیے ہی خالی تھی۔ اب نیا نیا دستگیر اور نئی نئی ذمے داری۔ حیران و پریشان کیا کریں؟ کیسے کریں؟
جس فرد کا تھوڑا تعلق بھی لکھنے لکھانے سے نکلتا، چل پڑتے ملاقات کے لیے۔ سب سے پہلا نام جس نے ہمیں اپنی طرف کھینچا وہ تھا عزیز آباد کی رکن بہن اسماء عبدالقادر کا۔ کیوں کہ ہم ان کے مضامین جسارت میں بہت دفعہ پڑھ چکے تھے اور ان سے ملنے کا شوق بھی بہت تھا۔
2008ء میں نائن زیرو کی اگلی گلی میں کسی رکنِ جماعت کا رہنا اور وہ بھی فعال کارکن کا، ایسا تھا جیسے انگاروں پر کھڑا رہنا۔ اس کا اندازہ ہمیں پہلی ملاقات میں ہوگیا۔
ڈرائیور صاحب تین گلیاں پہلے اتار کر پیدل ہمارے ساتھ چل دیے، کیوں کہ گاڑی اس سے آگے نہیں جاسکتی تھی۔ ناکے کے کونے پر کھڑے لڑکوں نے ہمارا بیگ چیک کیا اور کہا کہ یہ بیگ آپ اندر نہیں لے جاسکتیں۔ لہٰذا بیگ ہم نے ڈرائیور کے حوالے کردیا۔ ہم خالی ہاتھ ہولائے بوکھلائے ان کے دروازے پر گھنٹی بجاتے ہوئے اپنی سانسیں بحال کررہے تھے۔
ایک مسکراتے چہرے یعنی اسماء بہن نے گیٹ کھول کر ہمارا استقبال کیا۔ ہم نے گھبراتے ہوئے ان کو پوری داستان سنائی تو وہ زور سے ہنس کر بولیں ’’طلعت بہن ہمارا تو یہ روز کا معمول ہے۔ سب پہچانتے ہیں کہ میں یہیں کی رہائشی ہوں، مگر آتے جاتے اتنے مراحل کا شکار ہوتی ہوں۔ بعض اوقات میرے لکھے ہوئے مضامین بیگ سے نکال کر پھاڑ دیے جاتے… مگر کیا کریں، اس کام سے تو پیچھے نہیں ہٹ سکتے ناں۔ وہ اپنا کام چھوڑتے ہیں نہ میں اپنا۔‘‘
ان سے جب بھی ملاقات ہوئی ایک پیاری سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر موجود ہوتی۔ اس ملاقات میں ہی مجھے پتا چلا کہ ان کے مضامین بھارت اور بنگلہ دیش کے اخبارات کی بھی زینت بنتے ہیں۔ اتنے نامساعد حالات کے باوجود وہ جہاد بالقلم کے ساتھ ساتھ الیکشن کی ڈیوٹی اور ڈور ٹو ڈور رابطوں میں بھی سرگرم رہتیں۔
وہ گھٹنوں میں شدید درد کے باوجود آخر تک تمام پروگرامات، خاص کر ادبی پروگرامات میں لازمی شرکت کرتیں۔
مرتے دم تک تحریک سے وابستہ رہیں۔ اللہ رب العالمین ان کی تمام کوششوں کو قبول فرمائے اور باطل کے سامنے کلمۂ حق پر ڈٹ جانے والی بہن اسماء عبدالقادر کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے، اور ان کی اولادوں میں بہترین صدقہ جاریہ عطا فرمائے، آمین۔