علی عبداللہ
تبت کے جلاوطن بدھ رہنما اور مذہبی شخصیت ٹینزن یاٹسو نے برطانیہ کے نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں خواتین کے بارے اپنے بیان پر معذرت کا اظہار کیا ہے۔ تبت بدھوں کے یہ 14ویں دلائی لامہ آج کل ہندوستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دلائی لامہ نے عوام سے معذرت کی ہے اور کہا کہ ان کا بیان ہرگز کسی منفی رخ کا حامل نہ تھا۔
انہوں نے کیا بیان دیا تھا اس سے پہلے ایک واقعے پر غور کیجیے۔دو بدھ ایک شام اپنی خانقاہ میں جا رہے تھے، بارش ہونے کی بنا پر راستے کیچڑ سے لت پت اور جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ بنے ہوئے تھے۔ ان بدھوں میں سے ایک نوجوان اور دوسرا ادھیڑ عمر تھا ۔ ایک جگہ گزرتے ہوئے اچانک انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان خاتون گلی سے نکل کر سڑک پر آنا چاہتی ہے، مگر بیچ میں موجود پانی اور کیچڑ کے چھوٹے جوہڑ کو عبور نہیں کر پا رہی۔ یہ منظر دیکھ کر ادھیڑ عمر بدھ اس جانب گیا اور اس عورت کو اٹھا کر دوسری جانب لا کھڑا کیا تاکہ وہ سڑک پر جہاں جانا چاہے جا سکے۔
اس کے بعد دونوں واپس اپنی خانقاہ میں چلے گئے۔ شام ہوئی تو نوجوان بدھ اپنے اس ادھیڑ عمر ساتھی کے حجرے میں آیا اور پوچھا کیا ہمارے مذہب میں عورت کو چھونا منع ہے؟ اس کے ساتھی نے جواب دیا، ہاں بالکل منع ہے۔ تو نوجوان نے کہا، کہ پھر آپ نے آج راستے میں اس عورت کو اٹھا کر دوسری جانب کیوں لا کھڑا کیا جبکہ یہ تو منع تھا؟ ادھیڑ عمر بدھ مسکرایا اور بولا، میں نے تو اسے دوسری جانب لا کر چھوڑ دیا تھا مگر تم تو ابھی تک اسے ہی تھامے ہوئے ہو۔ یہ سن کر وہ نوجوان چپ چاپ اپنے حجرے کی جانب چل دیا کیونکہ اسے اس کی بات کا بہترین جواب مل چکا تھا۔
84 سالہ دلائی لامہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا، اگر اگلی دلائی لامہ خاتون ہو تو اسے نہایت خوبصورت اور دلکش ہونا چاہیے، ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں اور لوگ اس کی صورت بھی نہیں دیکھیں گے۔ یعنی بدھوں کے مذہبی رہنما عمر کے اس حصے میں بھی غالباً نسوانیت کا سحر محسوس کرنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں خاتون دلائی لامہ صرف اپنی ظاہری خوبصورتی سے ہی لوگوں کو متوجہ کر پائے گی۔ وہ بدھا کی حقیقی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ابھی تک عورت کو ہی تھامے ہوئے ہیں جس کی اجازت بدھا نے نہیں دی تھی۔
یاد رہے کہ بدھا نے جہاں مردوں اور عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خانقاہ بنائی تھی، وہاں چند قوانین بھی لاگو کیے تھے جن میں واضح لکھا تھا کہ، کسی عورت کو اجازت نہیں کہ وہ اکیلی دریا کے پار جائے، کہیں رات ٹھہرے یا اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہے۔ شام کے وقت یا بنا روشنی کے، کسی عورت اور مرد کا اکیلے ایک دوسرے سے گفتگو کرنا منع تھا اور اسی طرح کوئی بھکشو تنہائی میں کسی عورت سے کسی بھی قسم کا کھانا لے کر نہیں کھا سکتا تھا۔
اب ایک بدھا کا پیروکار خواتین کے بارے ایسے بیان دے گا تو لازماً عوام اس پر برسیں گے۔ یہاں بھی یہی ہوا، بیان کے کچھ روز بعد ہی دلائی لامہ کو عوام سے معافی مانگنا پڑی اور اپنے بیان پر وضاحت دینا پڑی۔ حالانکہ دلائی لامہ خواتین کے حقوق کے بہت بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیںلیکن خواتین کے حقوق کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ عورت کو اس کے حقوق کے نام پر باہر نکالا جائے اور ایسی دنیا دکھائی جائے کہ پھر وہ اپنے حقوق سے زیادہ اپنی فکر کرنے لگے۔ خیر دلائی لامہ نے دل کی بات کا برملا اظہارکر کے اپنا موڈ بھی بتا دیا ہے اور پھر اس پر معافی بھی مانگ لی۔
دوسری جانب بھارتی اداکارہ زائرہ وسیم نے بھی فلم انڈسٹری کو اسی بنا پر چھوڑا ہے کہ اس کے ایمان کو خطرہ تھا۔ بالی وڈ کی چکا چوند روشنیوں اور آئیڈیل نظر آنے والی زندگی کو الوداع کہنے کا فیصلہ اور اس کی بنیاد مذہب کو بنانا، سیکولر طبقہ کو بہت چبھ رہا ہے۔ چونکہ یہ فیصلہ زائرہ نے اپنی مرضی سے کیا ہے، لہٰذا لبرل طبقہ نہ اسے ہضم کر پا رہا ہے اور نا ہی اسے اگلنے کی حالت میں ہے۔ اسی لیے کئی سینئر اداکار بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں اس کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ شاید وہ چاہ رہے تھے کہ کوئی می ٹو کی مہم چلتی، کئی چہرے بے نقاب ہوتے، کچھ ہلچل پیدا ہوتی تب انڈسٹری سے علیحدگی اختیار کی جاتی، مگر یہاں تو علیحدگی کی وجہ ہی مذہب بن گیا جو اب دیگر خواتین پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔
شاید وہ افسوس کر رہے ہوں گے کہ شکار ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ ایسے طبقے کا کہنا ہے کہ مذہب کو انڈسٹری میں نہیں لانا چاہیے، جو آپ کی پسند ہے اسے اختیارکرنا چاہیے اور کسی بھی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ نیتوں سے خدا ہی واقف ہے اور اگر زائرہ نے واقعی کسی دباؤ یا کسی دنیاوی مطلب سے ہٹ کر یہ فیصلہ لیا ہے تو پھر یہ قابل تحسین ہے اور یقیناً یہی اس کی اصل کامیابی ہے۔ ایسے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ کل کو کوئی بھی می ٹو مہم کا حصہ یا حسین خواتین کو تلاش کرنے والوں کا شکار نہ بن پائے۔