(قسط نمبر 3)
بکری کے ڈرامے کو کئی ماہ گزر چکے تھے۔ اس زمانے کے یہ تین چار لاکھ گوکہ آج کل کے کروڑوں سے بھی زیادہ تھے اور اس رقم سے تمام زندگی بہت عیش و آرام سے گزاری جاسکتی تھی لیکن جب انسان کی آنکھوں میں لالچ کے پردے پڑجائیں تو دولت کے پہاڑ بھی رائی کا دانہ بن جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ چچی چچا نے ایک نہایت ہی خوفناک منصوبہ بنایا جس کا انجام بہت ہی بھیانک ہو سکتا تھا۔ چچی چچا کو اس کی بھیا نکی سے کیا مطلب ہو سکتا تھا اس لیے کہ بھتیجوں کی جائیداد اپنانے کیلیے ایسا کرنا تو بہت ضروری تھا۔ ڈرامے کا سارا پلاٹ جب خوب اچھی طرح تیار ہو گیا تو چچا ایک بار پھر بھتیجوں سے ملنے ان کے آفس جا پہنچے۔ دعا سلام کے بعد کہا کہ آج رات کا کھانا ان کو ان کے گھر ہی کھانا ہے۔ چچی کے ہاتھ کے پکے پکوان ان کی کمزوری تھی اس لیے وہ بصد خوشی تیار ہو گئے۔ رات جب وہ چچا کے گھر پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ ان کی چچی نے ان کا استقبال بہت روکھے انداز میں کیا۔ انھوں نے اپنے بھول پن میں یہی خیال کیا کہ چچی کی طبیعت شاید خراب ہو۔ دستر خوان بچھا دیا گیا۔ چچا نے کھانا لگانے کا کہا توچچی نے ایک دیگچی لاکر رکھی اور دسترخوان میں لپیٹی روٹیاں رکھ کر چلتی بنیں۔ روٹیاں کھولی گئیں تو وہ بازار کی تنوری روٹیاں تھیں اور دیگچی میں دال پکی ہوئی تھی۔ چچا کا پارہ آسمان پر جا پہنچا۔ ان کی تو جیسی بڑی بے عزتی ہوگئی تھی۔ بھتیجوں کو دعوت پر بلاکر یہ خاطرداری۔ اس کا تو جیسے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اب بھولے بھالے اور عقل سے کورے بھتیجوں کو یہ کون سمجھاتا کہ ان کے ساتھ یہ سب ڈرامے بازیاں ہو رہی ہیں۔ نہایت زوردار آواز کے ساتھ انھوں نے اپنی بیوی کو آواز دی۔ وہ آئیں تو کچھ ان کا موڈ بھی بھتیجوں کو خونخوارانہ لگا۔ حالات کچھ زیادہ ہی خوفناک لگ رہے تھے۔ یہ تم نے کیا پکایا ہے۔ چچا نے آسمان سر پر اٹھاتے ہوئے کہا۔ کیوں اس میں کیا خرابی ہے۔ چچی نے بھی درودیوار ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ جب گھر میں کچھ نہیں ہوگا تو جو ہوگا وہی تو پکاؤں گی۔ کیا تمہارے یہ لاڈلے بھتیجوں نے دال کبھی نہیں کھائی۔ کیا یہ دال کھائیں گے تو مر جائیں گے۔ چچا یہ سن کر آستینیں چڑھاتے ہوئے چچی کی جانب جونہی بڑھے، چچی نے بھی بیلن سنبھال لیا۔ اچانک بھتیجوں نے دیکھا کہ چچا کے ہاتھ میں ایک خوفناک شکل والا تیز دھار چاقو ہے۔ چچا نے چیختے ہوئے کہا کہ تیری یہ ہمت کہ تو مجھ سے زبان چلائے گی۔ میں تیرا گلا کاٹ کر رکھ دونگا۔ چچی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ تیری یہ ہمت کہ میرا گلا کاٹے۔ میں بیلن سے تیرا سر توڑ کر رکھ دونگی۔ اِدھر چچا چچی میں یہ چیخ و پکار اْدھر بھتیجوں کی حالت غیر۔ ابھی انھوں نے یہ سوچا ہی تھا کہ وہ اٹھیں اور چچا چچی کے درمیان صلح صفائی کرائیں، چچا نے طیش میں آکر چچی پر چاقو سے حملہ کردیا اور پلک جھپکنے سے بھی پہلے چچی کو زمین پر گراکر چاقو سے ان کا گلا کاٹ دیا۔ اِدھر گلے پر چاقو پھرا اْدھر ان کے گلے سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا اور چچی چند لمحوں تڑپ کر ٹھنڈی پڑ گئیں۔ بھتیجوں کی تو جان ہی نکل گئی۔ قتل تو ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ہو گیا تھا۔ مارے خوف کے اگر ان کو کاٹو تو ان کے جسم سے خون نہ نکلے۔ ایسی کپکپی بدن پر چڑھی جو تپِ محرقہ میں بھی نہیں چڑھتی۔ آنکھیں تھیں کہ پھٹی ہوئی تھیں اور گلا تھا کہ بالکل خشک۔ زبان میں بھی جیسے کانٹے پڑ گئے ہوں۔ ان کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ رکیں، بھاگیں یا پولیس کو اطلاع کریں۔ اچانک انھوں نے چچا کے ہنسنے کی آواز سنی۔ فوری طور پر تو وہ یہی سمجھے کہ چچا پاگل ہو گئے ہیں لیکن جب انھوں نے چچا کی جانب دیکھا تو وہ تو بہت خوش اور مطمئن نظر آرہے تھے۔ انھوں نے بھتیجوں کی جانب دیکھ کر کہا کہ میرا یہ چاقو جادو کا ہے۔ میں نے تمہاری چچی پر جب اس کو دھار والی جانب سے پھیرا تو ان کی گردن کٹ گئی اور وہ ہلاک ہو گئیں اب دیکھو جب میں اسے الٹی جانب سے پھیروں گا تو وہ زندہ ہو جائیں گی۔ بے لگام بیویوں کو لگام دینے کا یہی طریقہ ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ بیوی شوہر سے زبان درازی کرے۔
بھتیجے آنکھیں پھاڑے چچا کی باتیں سن رہے تھے۔ چچی کی لاش ان کی آنکھوں کے سامنے پڑی تھی۔ ان کی کٹی ہوئی گردن صاف دکھائی دے رہی تھی۔ بھلا کٹی گردن والا مردہ بھی زندہ ہو سکتا ہے۔ چچا نے ان کی آنکھوں میں چھائی بے یقینی محسوس کر رلی تھی۔ اس لیے وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی بیگم کی لاش کے قریب پہنچ کر جب گردن پر چاقو کو الٹی جانب سے پھیرا تو چچی کے بدن میں حرکت ہوئی، وہ اٹھ کر بیٹھیں، عجیب نظروں سے ماحول کا جائزہ لیا اور تیزی کے ساتھ گھر کے اندر لوٹ گئیں۔ بھتیجے تو جیسے بولنا ہی بھول گئے۔ چچا نے چاقو بند کیا۔ کمرہ صاف کیا اور خود بھی گھر کے اندر چلے گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں چچا اور چچی واپس آگئے۔ چچی نے بھتیجوں سے مہمان نوازی کا خیال نہ رکھنے پر معافی مانگی اور چچا کے سامنے بھی ہاتھ جوڑے کہ وہ آئندہ ان کے ساتھ گستاخی سے پیش نہیں آئیں گی۔
بھتیجوں نے کرشماتی چاقو کا کرشمہ دیکھا تو اسے خریدنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ وہ اپنی اپنی بیویوں کو ان کی زبان درازیوں کا سبق سکھا سکیں۔ چچا نے نہایت سختی کے ساتھ انکار کردیا اور کہا کہ تم لوگ ماضی میں میرے قیمتی خرگوش اور بکری کو ضائع کر چکے ہو۔ معلوم نہیں اس کرشماتی چاقو کے ساتھ نہ جانے تم لوگ کیا کرو اس لیے یہ چاقو میں تم لوگوں کو کسی قیمت میں بھی نہیں دونگا۔ اِدھر چچی کا اصرار تھا کہ دیدو، بچے کوئی غریب تو ہیں نہیں کہ منہ مانگی قیمت نہ دے سکیں۔ بچوں نے بھی چچی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ چچا نے کہا کہ مجھے رقم نہیں چاہیے بلکہ اس بات کی ضمانت چاہیے کہ یہ چاقو صرف اور صرف بیویوں کے خلاف ہی استعمال ہوگا تاکہ گھر کے نظم و نسق کو قابو میں رکھا جا سکے۔ بھتیجوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ چچا ایسا ہی ہوگا۔ چچا نے کہا زبانی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا یہ کہہ کر اپنی فائل سے چار اسٹامپ پیپر نکالے اور چاروں بھتیجوں کے سامنے رکھ دیئے اور کہا کہ ان پر دستخط کرو باقی تحریر میں خود ہی کسی وکیل سے لکھوالونگا۔ بھتیجوں کے پاس دولت کی تو کوئی کمی نہیں تھی لیکن دماغ میں بھوسا ہی بھرا ہواتھا۔ سب نے جوش میں آکر خالی اسٹامپ پیپروں پر دستخط کرکے چچا کے حوالے کر دیئے۔ چچا نے ان کو چاقو تھمادیا اور بھتیجے خوش خوش اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔
قتل کا یہ ڈرا مہ اتنا حقیقی تھا کہ کسی بڑے سے بڑے ہشیار انسان کو بھی سمجھ میں نہیں آسکتا تھا۔ چچا نے چچی کے گلے میں ایک مصنوعی گلا لگادیا تھا۔ خون کا ایک بڑا بیگ چچی کے پیٹ پر باندھ دیا تھا جس میں گائے بھینسوں کا خون بھرا ہوا تھا۔ وہ بیگ ایک پلاسٹک کی نالی کے ساتھ مصنوعی گلے سے جڑا ہوا تھا۔ چچانے جونہی مصنوعی گلا کاٹا اور پیٹ پر بندھے خون بھرے بیگ پر گھٹنے سے دباؤ ڈالا تو خون مصنوعی گلے سے فوارے کی صورت میں نکل کر فرش اور چچی کے لباس پر پھیلنے لگا اور اس طرح چچی ہلاک ہو گئیں۔ چچی کا تڑپنا اور تڑپ کر مرجانے کی اداکاری بھی اتنے کمال کی تھی کہ بھتیجے ہی کیا، کوئی بھی اس پر شک کر ہی نہیں سکتا تھا۔
اِدھر بھتیجے گھر سے روانہ ہوئے اْدھر چچی چچا پر الٹ پڑیں۔ یہ تم نے کیا کیا۔ ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ محض ضمانت لی گئی کہ وہ اپنی بیویوں کے علاوہ کس اور پر تمہارا چاقو استعمال نہیں کریں گے۔ چچا نے ایک شیطانی ہنسی کے ساتھ اسٹامپ پیپرز سنبھالتے ہوئے چچی کے کان کے قریب اپنا منہ لیجاتے ہوئے بہت راز داری کے ساتھ وجہ بتائی تو چچی کئی فٹ اچھل کر رہ گئیں۔ چہرہ شیطانیت سے تمتما اٹھا اور آنکھیں ایک خوفناک چمک سے لہرا اٹھیں۔ کیوں کہ خبر ان کی شیطانی کھوپڑی کیلیے بہت ہی خوش کن تھی۔ وہ خبر کیا تھی، کہانی کے آخر میں یہ بات آپ کی سمجھ میں خود ہی آ جائے گی۔
یہ چاروں بھائی بیشک آپس میں سگے بھائی ہی تھے لیکن ایک جانب عقل سے کورے تھے تو دوسری جانب ایک دوسرے سے حاسد۔ اگر کسی کو اپنے کاروبار میں کوئی گھاٹا ہو جاتا تو اس کی یہی خواہش ہوتی کہ باقیوں کا بھی اتنا ہی نقصان ہو۔
حسب سابق یہی طے ہوا کہ یہ کرشماتی چاقو پہلے بڑا بھائی رکھے گا اور اس کے بعد بڑے سے ہوتے ہوئے چھوٹے تک پہنچے گا۔ اگلے دن دفتر سے واپسی پر جب گھر میں معمولی کھانا پکا دیکھا تو سب سے بڑے بھائی نے چچا چھکن کی طرح اپنے بیوی پر چیخنا چلانا شروع کردیا کہ یہ تم نے کیا کیا۔ پہلے تو بیوی حیران رہ گئی اس لیے کہ ایسا رویہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ بیوی کوئی کسی عام گھرانے کی تو نہیں، وہ بھی شوہر پر الٹ پڑی۔ پھر کیا تھا بڑے بھائی نے پھرتی کے ساتھ چاقو نکالا۔ یہ دیکھ کر بیوی ڈری تو ضرور لیکن اس نے غصے میں ایک تھپڑ میاں کے گال پر رسید کردیا۔ اس غریب کو کیا معلوم تھا کہ میاں صاحب اس کو سچ مچ جان سے ہی مار دیں گے۔ شوہر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بیگم کو زمین پر لٹا دیا اور تیزدھار چاقو سے اس کا گلا کاٹ دیا۔ بیوی کچھ ہی دیر میں ٹھنڈی ہو گئی۔ اِدھر شوہر صاحب ایسے ہنسے جیسے بیوی کو سبق سکھانے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔ تھوڑی دیر میں اکڑتے ہوئے اٹھے اور بیوی کے گلے پر الٹا چاقو پھیرنے لگے۔ چاقو واقعی کرشماتی ہوتا تو بیوی زندہ بھی ہو جاتی۔ اب گھبرا کر کبھی الٹا اور کبھی سیدھا چاقو پھیر تے رہے لیکن مری ہوئی بیوی کو کہاں زندہ ہونا تھا۔ وہ سب کچھ سمجھ گئے۔ جلدی جلدی صحن میں بڑا سارا گڑھا کھود کر بیوی کو اس میں گاڑدیا۔ گھر کو صاف کیا۔ اپنے خون آلود کپڑے نذر آتش کئے تاکہ حقیقت کو جہاں تک بھی ہو سکے چھپایا جا سکے۔
اگلے دن جب اس سے چھوٹا بھائی آیا اور پوچھا کہ بھائی کیا رہا تو اس نے چاقو کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاکر رکھ دیئے۔ بھائی مطمئن ہو کر خوشی خوشی چاقو کو گھر لے گیا۔ اس کے ساتھ بھی وہی کہانی ہوئی اور اس نے بھی ساری حقیقت چھپانے کیلیے وہی کچھ کیا جو بڑے بھائی نے کیا تھا۔ اسی طرح چاروں نے ایک ہی جیسا عمل کیا۔ جب سب کی بیویاں قتل ہو گئیں تو وہ سب جمع ہوئے اور ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے گھر سے یہ عہد کرکے نکلے کہ ان اسی چاقو سے اپنے چچا چچی کی گردنیں کاٹیں گے اور پھر ان کی گردنوں پر چاقو کو الٹا پھیر پھیر کر انھیں زندہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
(جاری ہے)