صائمہ مطاہر
گلابی گلابی گال، لمبے گھنے اور سیاہ ریشمی بال، اور مسکراتیں تو رخسار پر گڑھے نمایاں ہوجاتے… یہ تھیں مہک آپی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت حسین بنایا تھا۔ جب وہ نت نئے ڈیزائن اور فیشن کے کپڑے پہنتیں تو ان کا خاندان میں ڈنکا بجا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ صرف خوب صورتی عطا کی ہے بلکہ بہت سی قدرتی صلاحیتیں بھی عطا کی ہیں۔ مگر ایک خلا تھا جو شاید کوئی بھی پُر نہ کرسکتا تھا… مہک آپی جب چھ سال کی تھیں تو ان کی امی اللہ کو پیاری ہوگئیں، اور جب آٹھ سال کی ہوئیں تو ابو بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
مہک آپی میری خالہ کی بیٹی تھیں اور مجھ سے چار سال بڑی تھیں۔ جب مہک آپی نے ہمارے گھر رہنا شروع کیا تھا، وہ آٹھ سال کی تھیں۔ میری اور مہک آپی کی گہری دوستی ہوگئی تھی۔ ہم بہت دیر تک باتیں کرتے اور ایک ساتھ پڑھائی کرتے، اسی وجہ سے امی نے مہک آپی کا داخلہ بھی میرے ہی اسکول میں کروا دیا تھا۔ انٹرتک تو ہم نے ایک ساتھ ہی تعلیم حاصل کی تھی۔
مہک آپی کی سلیقہ مندی نہ صرف پورے خاندان، بلکہ پڑوسیوں تک میں مشہور تھی، لہٰذا جلد ہی وہ دن بھی آگیا کہ جب مہک آپی کی تنہائیوں کا ساتھی اور زندگی کے لمحات کو اور خوب صورت بنانے والا ساتھی مل گیا۔ مہک آپی تو ہمارے گھر سے رخصت ہوگئیں لیکن ہماری دوستی وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھتی چلی گئی۔
مہک آپی جب بھی آتیں مجھ سے اسد بھائی کی باتیں کرتیں۔ وہ بہت خوش تھیں۔ اسی طرح زندگی کے چند سال اور بیت گئے… گھر کے آنگن میں چھوٹے چھوٹے معصوم پھول علی، فائزہ، مریم کی صورت میں مہک اٹھے تھے۔
’’مہک آپی کیا بات ہے، آپ خاموش کیوں ہیں؟‘‘ اب اکثر جب بھی آتیں تو خیالوں میں گم اور نہ جانے کہاں کھوئی سی رہتی تھیں۔ میرے لاکھ پوچھنے پر بھی وہ مجھے نہیں بتاتی تھیں۔ شادی کے بعد چار سال کا عرصہ گزر چکا تھا… شام کے وقت ڈور بیل بجی، دروازہ کھولا تو سامنے مہک آپی بچوں سمیت کھڑی تھیں۔ میں تو بہت خوش ہوئی کہ اسد بھائی مہک آپی کو گھر رہنے کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔
تین دن گزر گئے، نہ تو اسد بھائی ملنے آئے، نہ ہی فون پر رابطہ کیا۔ مہک آپی خاموش اور بہت ہی گہری سوچوں میں بیٹھی رہتیں۔ میرے پوچھنے پر کچھ نہ بتاتی تھیں۔ کچھ دن گزرے تو مہک آپی نے بتایا کہ اسد بھائی غصے کے بہت تیز ہیں اور ہر بات پر ڈانٹتے ہیں، بچوں پر بھی بہت غصہ ہوتے ہیں، بچوں کی فیس دینی ہو تو لڑائی ہوتی ہے، گھر کا سودا سلف لانا ہو تب لڑائی ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کی لڑی سی بن گئی۔ وہ رخسار جو کبھی مسکراہٹوں سے مہکتے تھے، آنسوئوں میں بھیگے تھے۔
ایک ماہ گزرنے کے بعد اسد بھائی مہک آپی سے ملنے آئے۔
اسد بھائی نے کہا ’’شمائلہ میں مہک سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
میں نے آپی سے کہا ’’مہک آپی دیکھیں آپ سے کون ملنے آیا ہے؟‘‘ مگر مہک آپی کے چہرے پر خوشی کے کوئی اثرات نمایاں نہ تھے اور نہ ہی وہ ان سے ملنے گئیں۔ اسی طرح وہ جب بھی ملنے آتے بچے تو ملنے جاتے، مگر وہ خود نہ ملتیں۔ انہی لمحات کے ساتھ دو سال کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران مہک آپی بیمار رہنے لگی تھیں۔ ڈاکٹروں نے ان کے ٹیسٹ کروانے کا کہا۔ پھر ایک دن جو تمام دنوں کو جیسے ختم کرگیا، خوشیوں پر پہرے لگا گیا، دکھ سکھ کے لمحات کو سمیٹ کر چلا گیا، وہ چراغ جو بس بجھنے ہی والا تھا۔ مہک آپی کی رپورٹ میں بلڈ کینسر کی تشخیص نے گویا زندگی کی حقیقتوںکو، بے ثباتی کو کھل کر واضح کردیا تھا۔ ڈاکٹروں نے تین ماہ کی ڈیڈلائن دے دی تھی۔ اس تین ماہ کے عرصے میں مہک آپی نے مجھے جو کچھ بتایا وہ میرے لیے زندگی کے سب سے تلخ حقائق تھے۔ آپی نے بتایا:
’’اسد مجھے اپنی زندگی سے الگ کرچکے، یعنی وہ تین بول جو خوب صورت اور پاک رشتے کو ختم کردیتے ہیں، اُن کے منہ سے ادا ہوچکے ہیں… اب وہ پچھتا رہے ہیں اور مجھ سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ مہک آپی نے درد بھرے لہجے میں بتایا اور اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپا کر رونا شروع ہوگئیں۔
میرا دل تو جیسے کٹ کر رہ گیا… آنکھیں نم ہوگئیں۔ پہلے ماں باپ سے محروم ہوئیں، پھر ہنستا بستا گھر بھی برباد ہوگیا۔
میرے سامنے ہونے والا یہ واقعہ مجھے بہت کچھ سکھا گیا۔ مہک آپی کی موت کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ایک دن صبح میں نے دیکھا کہ امی کو اسد بھائی کچھ باتیں بتا رہے تھے۔ اس دن وہ اپنے بچوں سے ملنے آئے تھے۔ ان کے بچے بھی ہمارے ہی گھر میں پرورش پا رہے تھے۔
’’میرے غصے نے میرا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا، میں تو خوشیوں کو تلاش کرتا ہوا تھک گیا ہوں۔‘‘
انہوں نے ایک بات جو بتائی وہ میری زندگی کے لیے حیران کن تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے بھرپور کوشش کی کہ گھر دوبارہ آباد ہوجائے، دوبارہ سے مَیں، مہک اور بچے ایک ہی گھر میں ہنسی خوشی رہ سکیں۔ میں نے ایک عالم سے پوچھا کہ طلاق کے بعد کوئی حل ہے دوبارہ تعلق جوڑنے کا؟
عالم نے کہا کہ میرا اور آپ کا رب اس معاملے میں رہنمائی کرتا ہے۔ مقدس کتاب قرآن مجید میں حکم ہے کہ جب تمہاری بیویاں تعلق ختم ہونے یعنی تین طلاقوں کے بعد کسی سے نکاح کرلیں اور پھر ان سے بھی طلاق ہوجائے تو پھر اس طرح نکاح سابقہ شوہر سے ہوسکتا ہے۔ ارادتاً حلالہ کے لیے نکاح کیا جائے، تو یہ غلط ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حلالہ کروانے اور کرنے والے دونوں پر لعنت ہے۔‘‘
سبحان اللہ، مہک آپی اس غم میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمان نہ کہلائیں۔