افروز عنایت
ثمینہ جیسے ہی پہلی منزل پر پہنچی ساجدہ آنٹی کو دیکھا، جو اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر اندر جارہی تھیں۔ آواز پر پلٹیں اور اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ثمینہ سے حال احوال پوچھنے لگیں۔
ثمینہ: السلام علیکم آنٹی! آپ کیسی ہیں؟
آنٹی ساجدہ: الحمدللہ، آپ کیسی ہیں؟ بیٹا گھر میں سب ٹھیک ہے؟
ثمینہ: جی آنٹی، آج آپ اسکول سے جلدی آگئیں؟
آنٹی: ہاں بچے تو آ نہیں رہے، امتحان ہوچکے ہیں اس لیے جلدی چھٹی ہوگئی۔
ثمینہ آنٹی کو خدا حافظ کہہ کر اوپر آگئی۔
…٭…
آنٹی ساجدہ کو اس محلے میں آئے پانچ، چھ مہینے ہی ہوئے تھے۔ اسکول سے واپسی پر یا کسی شام کو آنٹی کے ساتھ ثمینہ کی مڈبھیڑ ہوجاتی۔ ثمینہ کو جلدی گھر پہنچ کر کھانا بنانا ہوتا، اس لیے وہ رسمی سلام دعا کے بعد خدا حافظ کہہ کر اوپر آجاتی۔ بس اسے اتنا ہی معلوم ہوسکا تھا کہ وہ اس اپارٹمنٹ میں تنہا رہتی ہیں اور محلے کے پرائمری اسکول کی پرنسپل ہیں۔ وہ ثمینہ سے بڑی اپنائیت سے ملتیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ثمینہ کا تعلق بھی درس و تدریس سے تھا۔
…٭…
آج بہت دنوں کے بعد ثمینہ کا آنٹی ساجدہ سے سامنا ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے ثمینہ کو اپنے گھر آنے کا کہا۔ ثمینہ نے معذرت کی کہ اس وقت تو میں نہیں آسکتی، آپ میرے پاس اوپر کبھی تشریف لائیں۔ آنٹی نے ہنس کر اس کی دعوت قبول کی کہ ہاں کل سے اسکول بند ہیں، ہوسکتا ہے کہ آج یا کل میں چکر لگائوں۔
…٭…
شام کو ثمینہ ابھی اپنے کاموں سے فارغ بھی نہیں ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے چائے کا کپ شوہر کو تھمایا اور دروازہ کھولنے کے لیے باہر آئی۔ دروازے پر ساجدہ آنٹی تھیں۔ ثمینہ کو دیکھ کر مسکرائیں۔ ’’لو بیٹا! آپ تو نہیں آئیں، میں ہی آگئی۔‘‘
ثمینہ (خوش دلی سے): ’’خوش آمدید آنٹی، آئیں اندر آئیں۔‘‘
آنٹی نے ثمینہ کے اپارٹمنٹ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ ’’ماشاء اللہ اور یہ … یہ بچے تمہارے بہن بھائی ہیں؟ کبھی سیڑھیوں میں نظر تو نہیں آئے۔‘‘
ثمینہ (ہنس کر): ’’آنٹی یہ میرے بچے ہیں۔‘‘
آنٹی (حیرانی سے): ’’تم… تم شادی شدہ ہو! میرا مطلب ہے کہ تم شادی شدہ لگتی تو نہیں… (پھر ہنس کر) اور اتنے دنوں میں، مَیں نے تم سے پوچھا بھی کب…! میں سمجھی… خیر۔
(بچے بھی آنٹی کو ادب سے سلام کرکے دوسرے کمرے میں باپ کے پاس چلے گئے تھے)
ماشاء اللہ ثمینہ بیٹا! تم نے بچوں کی تربیت اچھی کی ہے، ورنہ ساری بلڈنگ کے بچوں کی چیخ پکار… اُف توبہ… تمہارے بچوں کی تو نہ میں نے کبھی چیخ پکار سنی اور نہ اوپر نیچے بھاگتے دیکھا (پھر چاروں طرف دیکھ کر) تم نے گھر بھی صاف ستھرا رکھا ہے۔‘‘
ثمینہ: شکریہ آنٹی… میں آپ کے لیے چائے لائوں۔ (ثمینہ چند منٹ میں ہی واپس آئی تو ٹرے میں چائے کے ساتھ بسکٹ کی پلیٹ بھی تھی) چائے کا کپ آنٹی کو دیتے ہوئے بولی: آنٹی آپ یہاں اکیلی رہتی ہیں…؟ میرا مطلب ہے کہ آپ کے بچے وغیرہ؟
ثمینہ کی بات پر آنٹی کے چہرے پر غم کے سائے اور آنکھوں میں ہلکی نمی اُن کے دل پر بیتے غم کے افسانے عیاں کررہی تھی جسے چھپانے کی وہ ناکام کوشش کررہی تھیں۔
ثمینہ کوئی اَن پڑھ خاتون نہ تھی، اگرچہ اس کی عمر زیادہ نہ تھی لیکن وہ خود بھی زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھ چکی تھی، لہٰذا اس نے بات کا رُخ بدلنے کے لیے اگلا سوال کیا: آنٹی آپ کو اس جگہ ملازمت کیے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟
ساجدہ آنٹی (جو بہت حد تک اپنے آپ کو سنبھال چکی تھیں): بیٹا درس و تدریس کا مجھے شوق تھا، شادی سے کچھ عرصے پہلے ہی میں نے ٹیچنگ شروع کردی تھی، اُس وقت تو یہ میرا شوق تھا لیکن آنے والے وقت میں… اور ملازمت میری ضرورت بن گئی۔ احمر نو یا دس سال کا تھا کہ احمر کے والد نے… اپنی زندگی کے راستے بدل لیے۔ احمر (کچھ سوچتے ہوئے) بہت ذہین بچہ تھا۔ میں اماں اور پاپا کے پاس آگئی۔ وہ بھی تنہا تھے۔ بڑی بہن لاہور میں رہتی تھی… اماں پاپا نے بہت زور لگایا کہ میں دوسری شادی کرلوں، لیکن میں بیٹے کو مزید دکھ دینا نہیں چاہتی تھی، یہ وہ عمر تھی جب اسے باپ کی اشد ضرورت تھی جس کی وہ انگلی تھام کر آگے بڑھتا۔ (ثمینہ بڑے انہماک سے آنٹی کی کہانی سن رہی تھی۔) لہٰذا میں نے احمر کی تعلیم و تربیت کرنے کو ترجیح دی۔ آخر اماں اور پاپا بھی میری ضد کے آگے ہار گئے۔
زندگی بڑی پُرسکون گزر رہی تھی، میں ٹیچر سے پرنسپل بن گئی اور بیٹا جوانی کی دہلیز پر پہنچ گیا۔ اماں کے انتقال کے بعد پاپا اور احمر کی ذمے داری میں بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہی تھی۔ آپا لاہور میں معاشی طور پر مستحکم تھیں، لہٰذا انہی کی منشا پر پاپا نے اپنا اپارٹمنٹ میرے نام منتقل کردیا۔ احمر اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر آگے بڑھتا گیا، وہ مزید تعلیم کے لیے لندن یا امریکا جانے کا خواہش مند تھا، یہ وہ وقت تھا جب میں چاہتی تھی کہ اب وہ ملازمت کرکے اپنی ذمے داریاں سنبھال لے۔ لیکن اس پر تو لندن یا امریکا کا بھوت سوار تھا جس کے لیے ایک بڑے سرمائے کی بھی ضرورت تھی جس سے میں محروم تھی۔ نانا کا وہ شروع سے ہی لاڈلا تھا۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ یہ اپارٹمنٹ بیچ کر اسے بیرون ملک پڑھنے کے لیے بھیجا جائے اور ہم باپ بیٹی کرائے کے فلیٹ میں چند سال گزاریں۔ احمر واپس آکر ہمیں ایک عالیشان گھر خرید کر دے گا… میں اپنے بیٹے کو اپنے سے دور نہیں بھیجنا چاہتی تھی… لیکن یہ سوچ کر، کہ کہیں وہ یہ نہ سوچے کہ باپ کے پاس ہوتا تو وہ میری اس خواہش کو ضرور پورا کرتے، میں نے دل پر پتھر رکھ کر اس کے لندن جانے کے لیے ہامی بھرلی۔
ہم باپ بیٹی ایک چھوٹے دو کمرے کے اپارٹمنٹ میں منتقل ہوگئے۔ پاپا کی پنشن اور میری تنخواہ سے ہماری ٹھیک ٹھاک گزر بسر ہورہی تھی۔ احمر باقاعدگی سے ہم سے فون اور خطوط کے ذریعے رابطے میں تھا، وہ پل پل سے مجھے باخبر رکھ رہا تھا۔
ایک ڈیڑھ سال کے بعد اُس کے فون اور خطوط آنے میں وقفہ آتا گیا۔ میری شکایت پر ہنس کر کہتا کہ میں ملازمت بھی کررہا ہوں اور اب جو ملازمت ملی ہے اس میں مجھے زیادہ وقت درکار ہے، آپ فکر نہ کریں۔ اماں کے بعد پاپا بیمار تو رہتے تھے، آخر ایک دن وہ بھی مجھے بیچ منجدھار میں تنہا چھوڑ گئے (آنکھوں میں آئے آنسوئوں کو انہوں نے انگلیوں کے پوروں سے صاف کیا)۔ یہ وقت میرے لیے بڑا اذیت ناک تھا… جس کو میں بیان نہیں کرسکتی۔
ثمینہ: آپ کے رشتے دار بھی تو ہوں گے؟
آنٹی: ہاں لیکن کم … آپا لاہور سے آئیں، ایک مہینہ میرے ساتھ رہیں۔ آخر ان کی اپنی ذمے داریاں بھی تھیں۔ ان کا بڑا عیال ہے، جس میں وہ ہر وقت مصروف رہتی ہیں۔
ثمینہ: پھر آپ کا بیٹا اس نازک وقت میں آپ کے پاس آیا؟
آنٹی: میرے مسلسل کہنے پر وہ آیا لیکن… میں بہت خوش تھی، اسے دیکھ کر میں تمام غم بھول گئی اور دوبارہ جیسے جی اٹھی تھی۔ اسے آئے ہوئے دو دن ہوئے تھے، ہم لائونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے، میں نے اس سے کہا کہ تم مستقل آگئے ہو، اب واپس نہ جانا، میں اب تمہارے بغیر نہیں جی پائوں گی۔ تمہاری پڑھائی مکمل ہوگئی ہے… ملازمت تو تمہیں یہاں بھی اچھی مل جائے گی، ہم دو ماں بیٹے تو ہیں۔ میں نے بڑی امید سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا… ٹھیک ہے ناں، اب تم واپس تو نہیں جائو گے؟ لیکن اس نے کہا کہ ماں! مجھے واپس تو جانا ہے، میں صرف آپ کے لیے ایک ہفتے کی چھٹی لے کر آیا ہوں۔
اس کی بات سے میرے دل کو دھچکا لگا۔ میں نے اپنے آنسوئوں کو ضبط کرکے کہا: میں نے یہاں تمہارے لیے ایک اچھی تعلیم یافتہ لڑکی دیکھی ہے، تمہارا گھر بس جائے تو میں سُکھ کا سانس لوں گی۔
میری بات سن کر وہ ہچکچایا اور ایک تصویر جیب سے نکال کر میرے سامنے رکھ دی جس میں ایک یورپین لڑکی دو سالہ بچے کو گود میں اٹھائے ہوئے تھی۔ میں بڑی حیرانی سے یہ دیکھ رہی تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس صورت حال پر اپنے آپ کو کیسے سنبھالوں۔ احمر نے بتایا کہ یہ میری بیوی جوزفین اور بیٹا یوسف ہے۔ میں آپ کو… بہت عرصے سے یہ بتانا چاہ رہا تھا لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی… میں آپ کو اپنے پاس بلائوںگا دو تین مہینے میں۔
میں جو اس کے لیے مہینوں سے سپنے بُن رہی تھی، وہ سب چکنا چور ہوچکے تھے، میں اسے کیا جواب دیتی! اس کے لیے سب کچھ قربان… خیر کیا بتائوں مجھ پر کیا بیتی۔
ثمینہ جو ہمیشہ اس عورت کو مسکراتا دیکھتی تھی، آج اس کے غم کو سن کر افسردہ ہوگئی، فریج سے ٹھنڈا پانی لائی… آنٹی یہ پانی…
آنٹی نے ٹھنڈے پانی کا گلاس تھرتھراتے ہونٹوں سے لگایا۔
ثمینہ: آنٹی حوصلہ رکھیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ (اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس غمگین عورت کی کس طرح دل جوئی کرے) آپ پھر اپنے بیٹے کے پاس چلی جاتیں، اس کے ساتھ رہتیں…
آنٹی (ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے): ہاں گئی تھی، لیکن وہ آزاد دیس کے پنچھی ہیں، شاید جوزفین کو میرا وہاں رہنا گراں گزر رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ یوسف کو میرے پاس چھوڑیں، میں اس کی دیکھ بھال کروں، لیکن جوزفین نے کہا کہ آپ تو دو، تین دن میں چلی جائیں گی، میں یوسف کی عادتیں نہیں بگاڑنا چاہتی، وہ ’’ڈے کیئر‘‘ میں ٹھیک ہے۔ یہ جوزفین کی کی میرے لیے ’’ہری جھنڈی‘‘ تھی۔ بس اب زندگی کے دن پورے کررہی ہوں۔ میرے جیسے ہزاروں اور بھی لوگ ہیں، اللہ کا شکر ہے بہت سے لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہی ہوں۔
میرا بیٹا بھی مجبور ہے، وہ اس عورت کو بچوں کے لیے خصوصاً بیٹی کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا، جب کہ جوزفین کو یہاں آنا یا میرا وہاں رہنا پسند نہیں (قہقہہ لگا کر) وہ لوگ اپنے ماں باپ کو برداشت نہیں کرتے، شوہر کے ماں باپ کو کیا برداشت کریں گے!
چلو کچھ گزر گئی، باقی بھی گزر جائے گی… شام تو ڈھل چکی ہے۔
ثمینہ کو اداس دیکھ کر آنٹی کو اس پر پیار آگیا… تم میری وجہ سے اداس ہوگئیں؟
نہیں آنٹی، آپ بہت باہمت اور مضبوط خاتون ہیں، آپ کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ اپنے اندر اس قدر……
آنٹی: میری کوئی بیٹی نہیں۔ آج تم سے اپنی زندگی کو شیئر کرکے دل چاہا کہ بیٹی کا ہونا بھی ضروری ہے جس سے ماں اپنے دل کی باتیں کر پائے۔
ثمینہ نے اٹھ کر آنٹی کو گلے لگالیا اور بولی ’’کیا میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں…؟ مجھے آپ اپنی بیٹی ہی سمجھیں۔‘‘