ادارۂ فکرِ نو کے زیراہتمام ماہانہ طرحی مشاعرہ

1345

ڈاکٹر نثار احمد نثار
بزمِ جہان حمد و نعت ایک ایسا ادارہ ہے جو حمد و نعت کی ترقی میں مصروف عمل ہے اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ادارہ حمدیہ طرحی مشاعرے ترتیب دیتا ہے۔ طرحی ردیفوں اور طرحی مصرعوں کا سالانہ چارٹ تمام شعرا کو مہیا کر دیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار بزم حمدونعت کے روحِ رواں معروف شاعر طاہر سلطانی نے ادارۂ فکر نو کے زیر اہتمام بزمِ جہانِ حمد و نعت کے طرحی حمدیہ مشاعرے کے موقع پر کلماتِ تشکر پیش کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی نظریات پر مشتمل شاعری بھی ہماری ضرورت ہے‘ حمد و نعت کے مشاعروں میں شامل ہو کر ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے اور ہماری معلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ محمد علی گوہر نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ گزشتہ 35 سال سے ادارۂ فکر نو ادبی خدمات انجام دے رہا ہے اس ادارے کی بنیاد معروف ادیب و نقاد نور احمد میرٹھی نے رکھی تھی‘ ان کے انتقال کے بعد ہم اختر سعیدی کی سربراہی میں اس ادارے کو چلا رہے ہیں‘ ہم ہر سال ایک حمدیہ مشاعرہ بھی کراتے ہیں جس میں آج آپ لوگ شریک ہیں۔ معروف صحافی و شاعر اختر سعیدی نے کہا کہ شاعری روح کی غذا ہے‘ نعت و حمدکہنا باعثِ ثواب ہے جو لوگ حمدیہ و نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس کا صلہ دے گا انہوں نی مزید کہا کہ طرحی مشاعروں کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے ایک زمانے میں طرحی مشاعرے عروج پر تھے اب لوگ تنِ آسان ہو گئے ہیں اس لیے طرحی مصرعے پر اشعار نہیں کہہ رہے۔ طرحی مشاعروں سے مشقِ سخن میں اضافہ ہوتا ہے دوسروں کے استعارے سن کر یہ اندازہ ہوتا ہے ہے قافیہ کے ساتھ طرحی ردیف کو کس طرح استعمال کیا گیا ہے۔ مشاعرے کی صدارت سید آصف رضا رضوی نے کی۔ پیرزادہ سید خالد حسین رضوی مہمان خصوصی تھے۔ رفیق مغل ایڈووکیٹ مہمان اعزازی تھے جب کہ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عقیل احمد عباسی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سید آصف رضا رضوی نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ مذہبی شاعری ہر زمانے میں ہوئی ہے تاہم اس دور میں حمد و نعت کے مشاعرے تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ طاہر سلطانی بھی حمد و نعت کے لیے وقف ہیں۔ یہ بڑے باصلاحیت انسان ہیں اور ذوق و شوق سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں یہ ایک قابل ستائش کام ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ آج کی محفل میں ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا۔ نئے نئے زاویوں سے ردیف و قافیے استعمال کیے گئے کئی شعرا کے مصرعے آپس میں ٹکرائے کہ اس طرح تو ہوتا ہے ایسے کام میں۔ طرحی مشاعروں کا اصول یہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی مصرع آپ سے پہلے کسی شاعر نے پڑھ دیا ہے تو آپ اپنے اشعار میں سے وہ مصرع کاٹ دیں۔ بہرحال آج ایسا نہیں ہوا لیکن مشاعرہ بہت کامیاب رہا۔ میں آج کے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اس مشاعرے کا مصرع طرح تھا ’’زندگی روشن ہے تیرے نام سے‘‘ اس مصرع طرح پر حمدیہ کلام پیش کرنے والوں میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ یامین وارثی‘ طاہر سلطانی‘ ڈاکٹر نثار‘ یوسف چشتی‘ نعیم الدین انصاری‘ شارق رشید‘ نجیب قاصر‘ عزیز الدین خاکی‘ شجاع الزماں خاں‘ عبدالجبار نادم‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر اور زبیر صدیقی شامل تھے۔ آسی سلطانی اور تنویر پھول کا حمدیہ کلام بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ اس موقع پر ادارۂ فکر نو کے نئے دفتر میں نوراحمد میرٹھی لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ بعدازاں شان دار عشائیہ پیش کیا گیا۔

بزمِ تقدیس ادب کا مشاعرہ

احمد سعید خان کی رہائش پر بزم تقدیس ادب کا ماہانہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں پروفیسر منظر ایوبی‘ رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ سید آصف رضا رضوی‘ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ سید فیاض علی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حامد علی سید‘ عبدالمجید محور‘ سعدالدین سعد‘ ریحانہ احسان‘ کشور عدیل جعفری‘ خالد مہر‘ شاہدہ عروج‘ احمد سعید خان‘ تنویر سخن‘ مہر جمالی‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر‘ شاہین شمس زیدی‘ چاند علی اور زوہیب حسن نے بہاریہ کلام نذرِ سامعین کیا اس مشاعرے کی صدارت پروفیسر منظر ایوبی نے کی۔ رونق حیات مہمان خصوصی اور اختر سعیدی مہمان اعزازی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کی۔ نعت رسول کی سعادت سعد الدین سعد نے حاصل کی۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ بزمِ تقدیس ادب کے مشاعرے بہت کامیاب ہوتے ہیں آج بھی بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو پا رہے جس کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ آیئے آج ہم عہد کریں کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے میدان عمل میں آئیں گے۔ صاحب صدر نے کہا کہ مشاعرے کے آداب کی پاسداری بہت لازمی ہے آج کچھ لوگوں نے اپنے اشعار سنانے کے بعد دوسروں کے کلام پر توجہ نہیں دی یا تو وہ اپنے سیل فون سے کھیلتے رہے یا پھر باتوں میں مصروف رہے اس قسم کے اقدام سے مشاعرے کی فضا نہیں بن پاتی اب تو یہ حال ہے کہ مشاعروں سے سامعین غائب ہو گئے ہیں ہم خود ہی سامعین ہیں اور خود ہی شاعر بھی۔ انہوں نے بزمِ تقدیس ادب کے عہدیداران و ممبران کو مبارک باد پیش کی کہ انہوں نے شعر و سخن کی محفل سجائی۔

سہ ماہی رسالہ ’’انشا‘‘ کا سلور جوبلی نمبر شائع ہوگیا

پروفیسر صفدر علی انشا طنز و مزاح کی شاعری کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں لیکن یہ ایک ماہر تعلیم بھی ہیں ابھی حال ہی میں ساٹھ سال کی عمر ہونے کے سبب اپنی تدریسی سرگرمیوں سے ریٹائرہو کر پنشن یافتہ افراد کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ سہ ماہی انشا ان کا ادبی رسالہ ہے جس کے یہ اعزازی مدیر ہیں یہ رسالہ تواتر کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اب اس کا سلور جوبلی نمبر منظر عام پر آیا ہے جس کو تمام ادبی حلقوں میں پزیرائی مل رہی ہے۔ یہ پرچہ امریکا‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور دیگر یورپی ممالک کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں دستیاب ہے۔ موجودہ شمارے میں افسانے‘ مضامین‘ انشایے‘ غزلیں‘ تبصرے‘ نعتیں اور حمدیں شامل ہیں۔ ڈاکٹر جمال نقوی‘ مسلم شمیم ایڈووکیٹ‘ شفیق احمد شفیق‘ قمر وارثی‘ عشرت رومانی‘ ڈاکٹر عتیق جیلانی‘ کرامت بخاری اور سلمان صدیقی شامل ہیں۔ 248 صفحات پر مشتمل رسالہ انشا حیدرآباد سندھ سے شائع ہوا ہے جب کہ گلزار ہجری‘ گلشن اقبال ٹائون کراچی میں بھی اس کا آفس قائم ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک آج کل ادبی رسالہ نکالنا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ کاغذ مہنگا ہے اور پرنٹنگ کے اخراجات بھی زیادہ ہیں‘ اشتہارات کا حصول بہت دقت طلب کام ہے اس ماحول میں صفدر علی انشا کا یہ رسالہ حبس زدہ ماحول میں آکسیجن ہے۔ میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

بزم نگار ادب اور بزم سراج الادب کا مشترکہ عید ملن مشاعرہ

بزمِ نگار ادب پاکستان اور بزمِ سراج الادب نے مشترکہ طور پر الفاء اسکول گلستان جوہر کراچی میں عید ملن مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی مجلس صدارت میں پروفیسر منظر ایوبی اور رشید اثر شامل تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان خصوصی تھے جب کہ نسیم نازش اور راشد نور مہمانان اعزازی تھے۔ سخاوت حسین ناصر نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ واحد رازی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس موقع جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں پروفیسر منظر ایوبی‘ رشید اثر‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ نسیم نازش‘ راشد نور‘ فیروز ناطق خسرو‘ ریحانہ احسانی‘ عبدالمجید محور‘ سخاوت علی نادر‘ جعفر عسکری‘ ضیا شہزاد‘ سخاوت حسین ناصر‘ کاشف ہاشمی‘ زیب النساء زیبی‘ رضی عظیم آبادی‘ واحد رازی‘ سراج الدین سراج‘ طاہرہ سلیم سوز‘ ہمااعظمی‘ یاسر سعید صدیقی‘ وسیم احسن‘ وقار زیدی‘ حمیدہ کشش‘ مہر جمالی‘ اطہر عباس کاظمی اور چاند علی شامل تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشاعرہ اپنے وقت پر شروع کیا گیا سخاوت علی نادر اور سراج الدین سراج کی جانب سے وقت پر آنے والے شعرا عبدالمجید محور‘ رضی عظیم آبادی‘ وسیم احسن اور پروفیسر شاداب احسانی کو تحائف پیش کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسند نشینوں کو سندھی ٹوپی‘ اجرک اور گھڑیاں پیش کی گئیں۔ سخاوت حسین ناصر نے اظہار تشکر کیا۔ صاحبِ صدر نے کہاکہ سخاوت علی نادر معروف شاعر ہیں‘ اپنی تنظیم کے ممبران و عہدیداران کے تعاون سے شہر بھر میں ادبی پروگرام منعقد کر رہے ہیں باالفاظ دیگر ادب کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقتِ مقررہ پر مشاعرے شروع ہو جائیں تو بہت بڑی بات ہے۔ سخاوت علی نادر نے کہا کہ عید ملن مشاعرے کی کامیابی کا سہرا آپ حضرات کے سر ہے کہ آپ نے مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہمارے مشاعرے کو کامیاب بنایا ہمارا منشور ہے ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ مشاعرے کے بعد شاندار عشائیے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

غزلیں

ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر

اوروں کے لیے جینا، اوروں کے لیے مرنا
یوں دل میں جگہ پانا، یوں رشکِ جہاں بننا
آنکھوں میں محبت ہو، لہجے میں حلاوت ہو
جو کِبر کا رستہ ہو، بچ بچ کے ذرا چلنا
کانٹوں سے اگر الجھے، دامن ہی الگ کرنا
یوں راہِ محبت میں، قطرے سے گہر بننا
یہ حسنِ ادا بھی تو قدرت کی عنایت ہے
اک سوزِ دروں رکھنا، آنکھوں میں نمی رکھنا
اللہ کے بندوں میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں
جینا ہو تو یوں جینا، مرنا ہو تو یوں مرنا
اللہ کی رحمت کے سائے میں گزر جائے!
کیا اس کے سوا رہبر ،کچھ اور دعا کرنا !

سبیلہؔ انعام صدیقی

کب کس نے روکی ہے دنیا
دریا ہے‘ بہتی ہے دنیا
جس رخ سے منظر تھا بہتر
اْس رخ سے دیکھی ہے دنیا
جتنی اِس کو سمجھی ہو تم
ٓٓٓٓٓٓاتنی کب اچھی ہے دنیا؟
جس میں رہتی ہوں میں خوش خوش
میرے خوابوں کی ہے دنیا
تم تو سب سے ہٹ کے ہو ناں؟
تم میں کیوں رہتی ہے دنیا
جذبوں کو بے وقعت جانے
دولت پر مرتی ہے دنیا
ظاہر ، باطن ایک نہیں ہے
سچ بولوں ! جھوٹی ہے دنیا
جتنا اس کو پکڑو گے تم
اُتنا ہی اڑتی ہے دنیا
ٹھہری کب ہاتھوں میں آ کر
اک بہتا پانی ہے دنیا
قیمت دے کر لے لو سب کچھ
منٹوں میں بکتی ہے دنیا
اتنا کیوں سامان سبیلہؔ
بالاخر فانی ہے دنیا

حصہ