مصنوعی گونگوں کی دنیا

650

عارف رمضان جتوئی
کراچی میں گٹگا کھانے والوں کی تعداد دیگر شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ گٹکا کھانے والوں سے بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا اس وقت ان کے منہ میں گٹکا تو نہیں ہے اگر ایسا ہو تو پھر سمجھ صرف ہوں ہوں ہی آتی ہے یا پھر آپ کی گونگوں والی حس بہت تیز ہونی چاہیے۔
دکان دار تو اب اس زبان کو بہت خوبی سے سمجھنے لگے ہیں۔ آپ کبھی منہ بند کر کے دودھ والے کو ایک سیدھا اور ایک آدھے کا اشارہ کریں تو وہ سمجھ جائے گا یہ ڈیڑھ کلو دودھ مانگ رہا ہے۔ ایسے ہی اس کے بعد دو کا اشارہ کردیں تو وہ سمجھ جائے گا ڈیڑھ کلو دو جگہ دینا ہے۔ چائے والے کے پاس جاکر آپ خالی آدھے کا اشارہ کریں تو وہ باخوبی سمجھ جائے گا اس کو پوری نہیں بلکہ آدھا کٹ چائے چاہیے۔ ایسے کئی ایک اشارے ہیں جو اب کئی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ کراچی کی زبان کراچی سے باہر سے آنے والے کو ایک سال تک ٹھیک سے ہرگز سمجھ نہیں آتی خاص طور پر جب آپ اورنگی یا کورنگی میں ہوں۔
گٹکا ہو یا پان دونوں صورتوں میں پیک پھینکنے والے بہت ہی بدتہذیب اور غیر محتاط ہوتے ہیں۔ ہمیشہ بس (مزدا) کے پاس سے گزرتے وقت احتیاط کیجیے کہ اتنا قریب نہ ہوں کوئی پیک پھینکے تو آپ اس میں نہا جائیں۔ یہ حملہ کبھی بھی کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ تب آپ گالی دینے اور لعنت دینے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔
گٹکے کے نقصانات ہی نقصانات ہیں فائدے کوئی نہیں سوائے ایک یا دو کے۔ گٹکے سے کینسر ہوتا ہے۔ کئی افراد اسی کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ گندگی، ماحولیاتی آلودگی، اخلاقی آلودگی نہ جانے کتنے نقصانات ہیں اس گٹکے کے۔ دو فائدے جو ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں انسان کی بولتی مستقل بند رہتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ گٹکے کا فارمولا اہلیہ پر لازمی آزمانا چاہیے۔ ایک تو خاموشی جیسی نعمت بحال ہوگی اور دوسرا جو تنگ ہیں ان کی اہلیہ سے جلد ہی جان چھوٹ جائے گی۔ (یہ بات مزاحاً کہی ہے ایسا ہرگز نہ کیجیے)
موت تو ہے ہی گٹکا۔۔۔ وہ تمام دوست جو گٹکے سے باقاعدہ ناشتہ، لنچ اور ڈنر کرتے ہیں وہ خیال رکھیں۔ اپنا نہیں تو کم از کم اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔ آپ کے ساتھ رہنے والوں پر اس کے کتنے برے اثرات پڑتے ہیں کبھی سوچیں۔ ہم صرف چار منٹ آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوپاتے وہ جو آپ کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں، ان کا خیال کیجیے۔ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں آپ سے دور تو نہیں جاسکتے مگر ان کو اتنا مشکل اور تکلیف میں ڈال کر آپ محبت کا جواب نفرت سے دیتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ آپ ایسی غیر اخلاقی اشیا کھانے اور استعمال کرنے سے گریز کیجیے۔ اس سے آپ مصنوعی طور پر گونگے تو ہو ہی جاتے ہیں باوجود ایک صحت مند زبان رکھنے کے ساتھ ہی آپ اپنوں سے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ کبھی وہ آپ سے گھن کریں گے کبھی آپ ہی ان سے بات کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ کبھی وہ چاہ کر بھی آپ سے بات نہیں کرسکتے کیوں کہ آپ بات کرنی کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ تو ایسی گومگو کی حالت میں آپ بالکل تنہا ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اپنا اور اپنے ساتھ والوں کا خیال کیجیے کسی اور کا نہیں آپ کا اپنا فائدہ ہے۔

حصہ