باجی کی سنی کہانیوں میں سے ایک اور مزیدار کہانی سنانے لگا ہوں جس کو سن کر بچے ہی کیا، بڑے بھی بہت خوش ہوںگے۔
ایک تھے چچا چھکن۔ بہت ہی چالاک اور عیار۔ جتنے وہ چالاک، عیار اور سفاک تھے اتنے ہی سیدھے بھولے اور عقل سے کورے ان کے چار بھتیجے تھے لیکن تھے اتنے دولت مند کہ خود ان کو اپنی اصل دولت کا کوئی علم نہیں تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب اچھی سی اچھی سو سائٹی میں بھی زمین تین روپے اسکوائر گز مل جایا کرتی تھی یعنی چند ہزار روپوں میں ہزاروں گز کے پلاٹ خریدے جا سکتے تھے۔ ان کے مقابلے میں ان بھتیجوں کے چچا کافی غریب تھے۔ ایک چھوٹا سا مکان تھا اور ایک عدد ان کی بیوی۔ ان کی بیوی یعنی بھتیجوں کی چچی بھی بہت کائیاں خاتون تھیں اور اپنے بھتیجوں کو بے وقوف بنانے میں وہ ان کے چچا سے بھی دو ہاتھ آگے رہتی تھیں۔ چچا کوئی کام دھندہ نہیں کیا کرتے تھے علاوہ نئی نئی ایسی تدبیریں بنانے کے جس سے وہ اپنے دولت مند بھتیجوں سے دولت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ بھتیجے کیونکہ عقل سے خالی تھے اور روپوں پیسوں کی کمی نہیں تھی اس لیے وہ ان کی نت نئی تدبیروں میں ہنسی خوشی پھنس جایا کرتے تھے۔ رہا چند ہزار روپوں کا ہاتھ سے نکل جانے کا سوال تو انھیں اس کی پرواہ اس لیے نہیں ہوتی تھی کہ انھیں اپنی دولت کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ ملیں اور کارخانے ان کی والدہ محترمہ کی وراثت کی تقسیم میں ان کے حصے میں آئے تھے۔ چچا کے بڑے بھائی جن کی یہ چار بیٹے تھے، وہ چچا کی طرح ہی غریب انسان تھے لیکن تھے بہت خوبصورت، شریف اور نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل انسان۔ وہ اپنے ہونے والے سسر کے ایک بہت بڑے کارخانے میں ملازم تھے اور اپنی قابلیت، شرافت، محنت اور دیانتداری کی وجہ سے ان کے دل میں جگہ بنا چکے تھے۔ ان کی کل کائنات ان کی ایک بیٹی تھی جو تھی تو بہت حسین لیکن عقل میں کچھ کمی کی وجہ سے اس کے والد چاہتے تھے کہ کوئی ایسا انسان مل جائے جو نہ صرف ان کی بیٹی کو سنبھال سکے بلکہ ان کے بعد وہ ان کی ملوں اور کارخانوں کی واحد وارث بن جانے والی بیٹی کے کارخانوں کو بھی سنبھال سکے۔ ان کی نظر میں چچا چھکن کے بڑے بھائی کے علاوہ کوئی اپنی بیٹی کے لیے جچھا ہی نہیں لیکن کیا وہ بھی ان کی تجویز یا پیشکش کو قبول کر لے گا؟ یہ سوال اہم تھا۔ انھوں نے چچا چھکن کے بھائی کے آگے اپنی کسی حد تک معذور بیٹی کا رشتہ رکھا۔ چچا چھکن کے بڑے بھائی نے ایک شرط پر یہ رشتہ قبول کرنا پسند کیا جس کو سن کر کارخانوں کے مالک یعنی معذور بیٹی کے والد ششدر رہ گئے۔ ان کے بھائی نے کہا کہ میں آپ کی بیٹی کو قبول کرتا ہوں لیکن کہیں دنیا یہ نہ سمجھے کہ میں مال و دولت کی وجہ سے ایسا کررہا ہوں اس لیے میری شرط ہے کہ آپ وصیت میں یہ بات صاف صاف لکھ دیں کہ آپ کے بعد ساری جائیداد اور دولت کی اصل مالک آپ کی بیٹی ہی ہوگی حتیٰ کے اس کی موت کے بعد بھی صرف اور صرف اس کی اولاد ہی اس کی حق دار ہوگی، اس میں میرا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ان کے ہونے والے سسر اس بات پر حیران رہ گئے کیونکہ وہ تو یہ سوچ رہے تھے کہ اگر چچا چھکن کے بڑے بھائی تیار نہیں ہوئے تو وہ ان کو کارخانوں میں حصہ دار بنانے کا لالچ دے کر اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے۔ ان کے سسر نے ان کی ساری باتیں مان لیں علاوہ یہ کہ وہ بیٹی کی موت کے بعد بھی جائیداد میں حصے دار نہیں ہونگے، یہ نہ مانی اور کہا کہ یہ تقسیم تو شرعی معاملہ ہے اس لیے میں اللہ کے قانون میں ترمیم نہیں کر سکتا۔ اس طرح یہ شادی ہوئی۔ کارخانوں کے مالک کی بیٹی سے چار خوبصورت بیٹے ہوئے لیکن ماں میں کیعقل جو کمی تھی اس کا اثر بیٹوں میں بھی آیا۔
بچوں کے کڑیل جوان ہوتے ہوتے چچا چھکن کے بڑے بھائی اور بھابی کا انتقال ہو گیا تھا۔ بچوں کے نانا یعنی کار خانوں کے مالک کا انتقال تو بیٹی کی شادی کے بعد ہی ہو چکا تھا۔ اس طرح چچا چھکن کے یہ چار بھتیجے جو نرے بیوقوف تھے اس زمانے کے لحاظ سے لکھوکھ پتی بن گئے اور ملیں اور کارخانے ان کے حصے میں آئے۔ چچا کے پاس بھی جو کچھ مکان یا کچھ بینک بیلنس تھا وہ بھی ان کے بڑے بھائی کی عنایت تھا جو انھوں نے اپنی زندگی میں ان کو دیدیا تھا۔
چچا ہر روز اپنے ان عقل سے کورے بھتیوں کو بیوقوف بنا کر ان سے پیشے ہتھیانے کی ترکیبیں سوچا کر تے تھے جس میں وہ اپنی چالاک و عیار بیوی کو بھی شریک رکھتے تھے۔
ایک دن وہ بالکل ایک جیسے خرگوش خرید کر لائے۔ اپنے منصوبے سے اپنی بیوی کو پوری طرح آگاہ کیا۔ ایک خرگوش کو گھر میں چھوڑا اور ایک کو اپنی بغل میں دبا کر بھتیوں کے عالی شان دفتر کی جانب چل دیئے۔ دفتر کا سارا عملہ چچا کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا اس لیے ان کے دفتر کے مرکزی کمرے میں جانے میں ان کو کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ چچا خرگوش کو بغل میں دبائے ہوئے ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو چاروں بھتیجوں نے چچا چھکن کا استقبال کیا۔ چچا چھکن نے باتوں باتوں میں کہا کہ کیوں نہ آج دوپہر کا کھانا میرے گھر میں کھاؤ۔ بھتیجوں کو چچی کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کے آگے کسی کا پکا، یہاں تک کہ اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹل کا تیار کردہ کھانا کبھی اچھا لگا ہی نہیں تھا۔ ان کی بانچھیں کھل گئیں لیکن وہ کہنے لگے، چچا، ہمیں تو آج سہہ پہر بھی بہت اہم میٹنگ میں شریک ہونا ہے۔ ہم یہاں سے آپ کے گھر جائیں گے، پھر آپ ہماری چچی جان سے کھانا تیار کرنے کا کہیں گے، اس طرح کھانے میں کافی دیر ہو جائے گی اور ہم میٹنگ میں شریک نہ ہو سکیں گے اس لیے کیوں نہ ہم اس دعوت کو کل تک ٹال دیں۔ چچا نے کہا، لو یہ بھی کوئی بات ہوئی، میری بغل میں دبا یہ خرگوش نہیں دیکھ رہے ہو۔ تم لوگ اگر ابھی تیار ہوجاؤ تو میں اس کا کمال بھی تمہیں ابھی دکھائے دیتا ہوں۔ چلو ابھی دفتر کے باہر چلو اور خرگوش کا کمال بھی دیکھ ہی لو۔ بھتیجے ان کی باتیں بڑی حیرت سے سنتے رہے۔ سب نے کہا کہ چچا اس خرگوش میں کیا ایسی بات ہے جو آپ آج اور ابھی ہمیں دکھانا چاہتے ہیں۔ چچا نے کہا تم سب بس ایک منٹ کیلیے میرے ساتھ دفتر سے باہر آؤ۔ بھتیجے حیرانی و پریشانی کے عالم میں چچا کے ساتھ باہر آئے۔ چچا نے خرگوش کے کان کے قریب اپنا منہ لاکر زور زور سے کہا کہ یہاں سے سیدھا گھر جاؤ، میری بیوی سے کہو کہ آج دوپہر کے کھانے میں میرے بھتیجے شریک ہونگے ان کیلیے یہ یہ ڈشیں تیار ہونی چاہئیں، کوئی ایک ڈش بھی کم نہیں ہونی چاہیے۔ کھانے کے فوراً بعد بھتیجوں کی ایک اہم میٹنگ ہے اس لیے کھانا ٹھیک فلاں وقت پر تیار ہوجانا چاہیے۔ میرا غصہ تو تمہیں معلوم ہے۔ نہ تو کسی ڈش میں کوئی کمی ہونی چاہیے اور نہ ہی وقت میں کوئی گڑبڑ۔ یہ کہہ کر انھوں نے خرگوش کو بغل سے اتار کر سڑک پر چھوڑ دیا۔ خرگوش دوڑتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوا تو انھوں نے بھتیجوں سے کہا کہ چلو اب آرام سے چل کر کمرے میں بیٹھتے ہیں۔ بھتیجوں کی آنکھیں حیرت پھٹی ہوئی تھیں اور آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی تھی۔ چاروں نے حیرت سے کہا کہ کیا آپ نے جو جو کچھ خرگوش سے کہا ہے وہ سب کچھ خرگوش چچی سے کہہ دے گا۔ کیا یہ انسانوں کی طرح بولے گا۔ چچا چھکن نے کہا اب تھوڑا سا صبر کرلو۔ اپنے اپنے ضروری کام نمٹالو، وقت پر گھر چلیں گے۔ گھر پہنچ کر ساری حقیقت حال خود ہی جان لوگے۔ بھتیجے اس کے بعد سوائے حیرت ظاہر کرنے کے اور کہہ بھی کیا سکتے تھے۔
کھانے کا وقت ہوا تو چاروں بھتیجے دفتر سے باہر آئے۔ کیونکہ ان سب کو اپنے چچا کے گھر ہی آنا تھا اس لیے بڑے بھائی نے اپنی بڑی سی کار نکالی اور چچا سمیت سب کے سب اسی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گھر پہنچے تو گھر کا جو حال ہوگا وہ تو جانے کیا ہوگا، پوری گلی طرح طرح کے کھانوں کی خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ بھتیجے تو مصالحوں کی خوشبوؤں سے ہی خوش ہوگئے۔ گھر کا دروازہ کھلا تو چچی کو دروازے میں اپنا منتظر پایا۔ چچی نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے، ان کی نظر خرگوش پر پڑی اور وہ گھر میں خرگوش کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ابھی ان کی حیرت کم نہیں ہوئی تھی کہ کھانے کی بڑی سے میز پر انھوں نے ساری وہی ڈشیں سجی دیکھیں جن کی ہدایت چچا خرگوش کو دیتے رہے تھے۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ چچی نے کہا کہ آپ کے خرگوش نے جو جو بتایا میں نے وہ وہ کچھ تیار کردیا اور وقت کا بھی لحاظ رکھا۔ اگر کوئی ڈش رہ گئی ہو تو اس میں خرگوش کا ہی کوئی قصور تو ہو سکتا ہے میرا نہیں۔ چچا نے ساری چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ نہیں جو جو میں نے خرگوش سے کہا تھا وہ ساری ڈشیں میز پر موجود ہیں۔ بھتیجوں کا تو مارے حیرت اور خوشی کے برا حال ہوا جا رہا تھا۔ کبھی وہ چچی کو دیکھتے، کبھی خرگوش کو اور کبھی چچا کو۔ ان بیوقوفوں کی موٹی عقل میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ کیا کبھی خرگوش بھی انسانوں کی طرح بول سکتے ہیں؟۔ کیا ایک جیسے دو خرگوش نہیں ہو سکتے؟۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ جو خرگوش وہ اپنی بغل میں دبا کر لے کر گئے تھے وہ تو اللہ جانے کہاں گیا ہوگا اور نہ جانے کس کے ہاتھ لگا ہوگا۔ یہ تو اْس جیسا وہ خرگوش تھا جس کو وہ گھر ہی میں چھوڑ گئے تھے اور اپنی بیوی کو ساری ہدایات جانے سے پہلے ہی دے گئے تھے کہ ان کو آج کیا کیا پکانا ہے اور کس وقت تک پکانا ہے۔
بھتیجے کھانا کھاتے جاتے اور خرگوش کو تکتے جاتے۔ ایسا کمال کا خرگوش تو انھوں نے دنیا میں نہیں دیکھا تھا۔ کھانا کھانے سے فارغ ہوئے تو چاروں کے درمیان کوئی گفتگو ہوئی، پھر چاروں نے یک زبان ہو کر چچا سے درخواست کی کہ خرگوش ان کے حوالے کر دیا جائے۔ چچا نے اتنی زور سے نہیں کہا کہ سارے بھتیجے ڈر گئے۔ ڈرتے ڈرتے انھوں نے چچا سے نہ دینے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا وہ اتنے قیمتی اور تربیت یافتہ خرگوش کو کسی کو ضائع نہ کر دیں گے۔ وہ خوشامدوں پر اتر آئے تو چچا نے کہا کہ وہ اس خرگوش کو کم از کم 60 ہزار میں فروخت کریں گے۔ یہ سن کر منصوبے کے مطابق چچی نے وہ شور مچایا کہ اللہ کی پناہ اور کہا کہ آپ بھی کمال کرتے ہیں ایک لاکھ کی چیز 60 ہزار میں دے رہے ہیں۔ چچا خاموش ہو رہے تو بھتیجوں نے چچی سے کہا کہ وہ اس کے ایک لاکھ بھی دینے کیلیے تیار ہیں۔ اس زمانے کے ایک لاکھ کا مطلب کراچی کی بیسیوں فلیٹوں والی بلڈنگ خرید کربھی پیسے بچا لینا تھا۔ چچی برا سا منہ بنا کر راضی ہو گئیں۔ بھتیجوں کے لیے25,25 ہزار ادا کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ شام سے پہلے ادائیگی ہو گئی۔ بھائیوں میں طے یہ ہوا کہ سب سے پہلے بڑا بھائی اسے رکھے گا، اگلے دن اس سے چھوٹا بھائی، اس سے اگلے دن اس سے چھوٹا اور پھر آخر میں سب سے چھوٹا۔ اس طرح ہر روز بڑے بھائی سے ہوتا ہوا خرگوش سب سے چھوٹے بھائی کے پاس آ جائے گا۔
اگلی صبح بڑا بھائی خرگوش کو کار میں ڈال کر دفتر لایا اور دفتر میں داخل ہونے سے پہلے اسے گود میں اٹھاکر اس کے کان میں رات کے کھانے کی فہرست اسے بتانے لگا۔ فہرست میں سارے فرمائشی کھانے تھے۔ ہدایت تھی کہ اس کی بیوی یہ سب ڈشیں تیار کروا کر رکھے۔ یہ کہہ کر خرگوش کو دفتر سے باہر ہی چھوڑ دیا اور خود دفتر میں داخل ہو گیا۔ خرگوش تو نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ جب حضرت دفتر سے فارغ ہو کر گھر پہنچے اور نہا دھوکے کھانے کی میز پر خوش خوش بیٹھے تو یہ جان کر پارہ آسمان پر جا پہنچا کہ فرمائشی خوان کی جگہ دال روٹی کھانے کی میز پر اس کا انتظار کر رہی ہے۔ بس پھر کیا تھا بیگم پر الٹ گئے۔ میں نے خرگوش کو ایک طویل فہرست بتا کر بھیجا تھا کہ آج کیا کیا پکانا ہے اور تم نے یہ دال پکائی ہے۔ بیگم کسی غریب گھرانے کی تو تھی نہیں جو اونچی آواز میں چیخنا چلانا گوارہ کر لیتی، وہ بھی الٹ پڑی۔ کیسا خرگوش اور کہاں کی فہرست۔ کہہ جاتے تو باورچیوں سے ہر ڈش تیار کر واکر رکھتی۔
کیا وہ خرگوش گھر نہیں آیا جس کو میں کل چچا کے گھر سے لے کر آیا تھا۔
پاگل ہو گئے ہو، کیا جانور بھی انسانوں کی فرفر بولتے ہیں۔ یہاں کوئی خرگوش ورگوش نہیں آیا۔ یہ کہا اور پیروں کو پٹختی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
بھتیجے نے پورا گھر چھان مارا لیکن خرگوش گھر آیا ہوتا تو ملتا۔ اسی وقت گاڑی نکالی اور سب بھائیوں کو جاکر بتایا کہ چچا نے ان کو دھوکا دیدیا ہے۔ ساری صورت حال ان کے سامنے رکھی تو سب کے سب چچا کے خبر لینے ان کے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔
(جاری ہے)