قرآن اسٹڈی پراجیکٹ

604

یوں اچانک QSP کا پتا چلنا اور اس میں شرکت کرنا کچھ الگ سا ہی محسوس ہونے لگا تھا۔ زندگی میں بھاگ کر اتنا تھک گئی تھی کہ جیسے ایک بہترین موقع میسر آگیا ہو۔ اندھیروں سے روشنی کے سفر کا احساس شرکاکی شرواط وین میں بیٹھنے کے ساتھ بیٹھے ہی محسوس ہونے لگا ایک مختلف کیفیت میں مبتلا دل ہزار سوال کررہا تھا۔ تین دن میں جیسے ماضی کے اندھیروں میں گزرے ہر لمحے کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آتا چلا گیا۔ اسٹیج کی روشنیاں چمکتے پرنور چہرے سب کچھ خوشنما سا تھا۔ اللہ، رسولؐ اور دین کی محبت ہر چیز سے جھلک رہی تھی۔ مختلف طرز کے روح جگانے والے پروگرام کبھی ماضی کی غلطیوں پر شکستہ کردیتے تھے کبھی جنت کے تصور سے دل آشنا، اپنی ہی ہم عمل لڑکیوں کو یوں دین کے لیے محنت کرتے دیکھ کر میں بھی ان کی ساتھی بننا چاہتی تھی۔ اس سفر میں شرکت کرکے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے، واپسی کے سفر میں یہ سوچ مجھے مطمئن کررہی تھی کہ میں جنت کے سفر میں نکل چکی ہوں اور میری تاریکیاں اب قرآن کی روشنی دور کردے گی۔
قرۃ العین عباسی
…٭…٭…

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے نبیؐ، کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ (قرآن) اُس نے بھیجا، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ (10:58)
وہ کتاب جس کا موضوع انسان ہے جسے باری تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل کیا تا کہ بنی نوع انسان کو تاریکیوں سے روشنیوں کی جانب رہنمائی ملے، جہنم سے نجات کا راستہ سمجھ آسکے، نور و روشنی کا وہ سفر جو چودہ صدیوں سے جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے باریاب ہوتے ہوئے کچھ دن گزارنے کا موقع دوبارہ آگیا ہے۔ ہدایت و حکمت سے موتی چنتے ہوئے قرآن کریم کی ایک نئی دنیا منتظر ہے ان لوگوں کی جو اپنی زندگیاں سنوارنا چاہیں اور خدائے بزرگ و برتر کی لازوال محبتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیں۔ وہ زندگی جس کا ایک ایک لمحہ رب تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔
قرآن اسٹڈی پراجیکٹ اسلامی جمعیت طالبات کا اٹھارہ برس سے نور پھیلانے کی کاشش کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہر وہ لڑکی جو اپنے رب کو جاننا چاہے، قرآن کی دنیا میں داخل ہونا چاہے، جنت کی دلفریبیوں اور رعنائیوں کو محسوس کرنا چاہے، ان باغات اور محلات میں گھومنا چاہے جو اب عرشِ عظیم نے اپنے بندوں کے لیے آراستہ کیے ہیں، زندگی کے ہر رُخ کو بیان کتاب الٰہی سے آگاہی حاصل کرنا چاہے، اس اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہے جو اپنے بندوں سے بے پایاں محبت کرتا ہے، زندگی کو سمجھنا اور مقصد زندگی سے واقفیت اور زندگی جینے والا طریقہ سمجھنا چاہے تو وہ اس سفر میں شامل ہوسکتی ہے۔
نور کی کرنوں میں بھیگتے ہوئے لمحہ لمحہ رب تعالیٰ کی باتوں کو سنتے ہوئے بسل ہونے والے وہ دن قریب آگئے ہیں وہ نور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ التغابن میں فرمایا ہے:
’’ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘۔
کراچی کے 16 مقامات پر منعقد ہونے والے قرآن اسٹڈی پراجیکٹ میں جمعیت منتظر ہوگی ان لڑکیوں کی جو قرآن کریم کے نور سے منعکس ہونے کا شوق دل میں لیے شرکت کریں۔

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
…٭…٭…

سینہ تیرا قرآن کے جواہر کا نمونہ

گاڑی درمیانی رفتار سے رواں دواں تھی۔ تقریباً تمام سیٹوں پر بیٹھی لڑکیاں ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھیں۔ بس وہ اکیلی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے تک وہ بہت بور اور اکتائی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ صبح امی سے ہونے والی بحث تھی۔ وہ اسے یہاں بھیجنے پر بضد تھیں اور اس کا خیال یہ تھا کہ یہ بھی کسی ایسے درس قرآن کی طرح ہوگا جس میں قرآن پاک کی چند آیات کا مطلب بتادیا جاتا ہے۔ امی کے بہت اصرار پر وہ آنے کے لیے تیار ہوئی تھی۔ گاڑی میں اس کا موڈ آف ہونے کی وجہ بھی یہی تھی لیکن اسے تب بہت حیرانی ہوئی جب سفر شروع ہونے پر ایک لڑکی نے سب سے سفر کی دعا پڑھنے کا کہا۔ ایک لمحے کے لیے اسے دعا یاد نہیں آسکی۔ دل میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اس نے ذہن پر زور دیتے ہوئے دعا پڑھ لی تھی۔ اس کے بعد بھی وہ کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہی تھی لیکن اب اکتاہٹ قدرے کم ہوگئی تھی۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل جمع ہورہے تھے۔ دھوپ تھوڑی کم تھی۔ کبھی آسمان کو اور کبھی بھاگتے درختوں کو دیکھتے دیکھتے بالآخر یہ سفر آدھے گھنٹے میں مکمل ہوا۔ وہ کوئی ہال تھا۔ اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے بہت حیرانی سے سوچا ’’یہ کیسا درس ہے؟‘‘۔ داخل ہو کر اس کی حیرت مزید بڑھی تھی۔
ہال میں چاروں طرف بہت خوب صورت انداز میں آیات قرآنی اور اشعار سے مزین پوسٹرز لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف کچھ اسٹالز تھے۔ کچھ پر اسکارف اور رنگ برنگے سادے عبایا سجے ہوئے تھے۔ اسٹیج پر بڑا سا ایک رنگین بینر لگا ہوا تھا۔ کوئی پرجوش سا ترانہ بھی فضا میںگونج رہا تھا۔ ایک نظر پورے ہال کو دیکھنے سے خوش گوار سا احساس ہوتا تھا۔ وہ حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ تب ایک اور بات نے اسے چونکا دیا، وہاں موجود تمام لڑکیاں ایک دوسرے سے گلے مل رہی تھیں، مسکراتے ہوئے خیریت معلوم کر رہی تھیں ایسے جیسے ان کے درمیان کوئی اجنبی نہ ہو۔ اسے بے اختیار یہ احساس ہوا کہ یہ ماحول بہت الگ اور پیارا ہے۔ دل پر زبردستی بھیجے جانے سے جو کلفت چھائی ہوئی تھی وہ کچھ اور کم ہوگئی۔ لبوں پر خودبخود مسکراہٹ آگئی۔ اس کے قدم اندر کی جانب اٹھنے لگے۔ تبھی ایک لڑکی مسکراتے ہوئے اس کے قریب آئی، ’’السلام وعلیکم، کیسی ہیں؟‘‘ کہتے ہوئے بہت گرم جوشی سے اسے گلے لگا لیا۔ وہ اس بے تکلفی پر مزید حیران ہوئی۔ اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور جواباً خیریت معلوم کی۔ اسی اثناء میں اسٹیج سے پروگرام شروع ہونے کا اعلان ہونے لگا، آئیے ادھر بیٹھتے ہیں، وہ بے تکلف لڑکی اس کا ہاتھ تھامے ایک طرف کو بڑھتے ہوئے بولی، اس نے حتیٰ الامکان خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنی حیرانی نہیں چھپا پارہی تھی۔ اس رویے سے اسے بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا اللہ کے کلام کی بازگشت پورے ہال کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی تو ایسا لگنے لگا گویا پہلے سے منفرد محسوس ہوتا یہ ہال نور کا مرقع بن گیا ہو۔
…٭…٭…
تلاوت کے بعد کمپیئرنگ کرنے والی اُس لڑکی نے چند ہلکی پھلکی باتوں کے بعد یہ شعر پڑھا تھا۔

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِراہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

اس نے بے اختیار دل میں اس انتخاب پر داد دی تھی۔ اس کے بعد تفسیر سیشن تھا۔ اسٹیج پر کنڈکٹ کرانے کے لیے آنے والی اسپیکر بہت باوقار تھیں۔ سورۃ حدید موضوع تھا۔ اس کے ذہن میں دوبارہ درس قرآن کا نقشہ بننے لگا لیکن جیسے جیسے اسپیکر نے بولنا شروع کیا اس کی ساری توجہ ان کے الفاظ کی سمت ہوگئی وہ کہہ رہی تھیں، ’’جو اللہ پر ایمان اور یقین رکھتا ہو وہ ہر چیز میں اسے پالیتا ہے۔ مخفی سے مخفی تر چیز میں بھی۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہم آسانیاں ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں حالانکہ رب کی جنت آسانی سے نہیں ملتی۔ دل کی دُنیا کو بدلنا پڑتا ہے۔ سورۃ کے مضامین کو کھول کھول کر بیان کرتے ہوئے انہوں نے اس کی ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ اس نے ’’درس قرآن‘‘ کو اتنا دلچسپ اس سے پہلے نہیں پایا تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں، ’’ہم لاحاصل آرزوئوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ شیطان کے دھوکے کو پہچان نہیں پاتے۔ وہ ہمارے اندر رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ مومن کے لیے قدم قدم پر امتحان ہیں‘‘۔ وہ حیران تھی کہ قرآن کریم ایسے بھی پڑھا جاتا ہے۔ ہال میں روشنی بڑھ گئی تھی وہ پوری توجہ سے سنتی اب نوٹ بھی کررہی تھی۔ پہلے والی بے زاری اب دور دور تک بھی نہیں تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا سننے کا، تفسیر سیشن کے بعد بہت دلچسپ ایکٹیوٹی ہوئی تھی۔ پھر تدبر سیشن ہوا تھا۔ شروع سے لے کر آخر تک تمام کام لڑکیوں نے سنبھالے ہوئے تھے وہ تھوڑی حیران لیکن خوش بھی تھی اتنی مہارت اور سلیقے سے کام کرنا انہوں نے کہاں سے سیکھا ہوگا؟ اس نے یہ سوال برابر میں بیٹھی لڑکی سے پوچھا۔ ’’ہماری جمعیت نے ہمیں سکھایا ہے!‘‘۔ مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا تھا۔ جمعیت…؟؟ وہ قدرے رشک اور دلچسپی سے سوچنے لگی۔ اس کے بعد ایک ورکشاپ ہوئی تھی جس میں اس کی دلچسپی کا سارا سامان موجود تھا۔ وہ میٹرک کرنے کے بعد طے نہیں کر پارہی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے۔ کیریئر پلاننگ کی اس ورکشاپ میں اُسے سمجھ آگیا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ کنڈکٹر کہہ رہی تھیں ’’دنیا میں ہر شخص کسی چیز کے لیے دوڑ دھوپ کررہا ہے۔ لوگ آپس میں مقابلہ کرتے ہیں مارکس کے لیے، پوزیشن کے لیے، داخلے کے لیے، جاب کے لیے، مال اور اسٹیٹس کے لیے، ہر چیز میں بہت مقابلے ہوتے ہیں لیکن سورۃ مطففین میں اللہ تعالیٰ جنت کا ذکر کرکے کہتے ہیں ’’اور یہ وہ چیز ہے جس کے لیے مقابلہ کرنے والے مقابلہ کرتے ہیں‘‘ اس کے دماغ کے دریچے کھل رہے تھے۔ آپ کی جستجو کس چیز کے لیے ہے؟ کیا آپ کی کوششیں اور مقابلہ جنت کے لیے ہے یا دنیا میں نام کمانے کے لیے؟ قرآن کو اپنا رہنما بنالیں تو آپ بہترین کیریئر پلاننگ کرسکتی ہیں۔ ورکشاپ کے اختتام پر اس کا ذہن بالکل صاف تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ اس کی آگے کی زندگی کیسی ہونی چاہیے۔ ذہن پر چھائی کلفتیں مٹ چکی تھیں۔ دعا کے بعد پروگرام ختم ہوگیا تھا لیکن اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی مزید ہونا چاہیے۔ جانے سے پہلے وہ سب سے ملی تھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر امی کو کال کرکے خوشی سے سب بتانے لگی۔ آخر میں انہوں نے کہا، ’’بس اب کل تو نہیں جائو گی نا؟‘‘ تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا، ’’نہیں امی میں ضرور جائوں گی‘‘ پھر۔ ادھر امی بھی مطمئن انداز میں ہنس رہی تھیں۔
…٭…٭…

پیغامات

میں نے 2017ء میں قرآن اسٹڈی پروجیکٹ میں شرکت کی۔ وہ میرا دوسرا سال تھا۔ ہر انسان کو خاص طور پر لڑکیوں کو صراط مستقیم کی طرف قدم بڑھانے کے لیے کسی نہ کسی رہنماء کی ضرورت ضرور پیش آتی ہے اور مجھے وہ رہنمائی قرآن اسٹڈی پروجیکٹ میں ملی۔ میں حیاء کے حقیقی معنیٰ سے بھی یہیں آکر متعارف ہوئی اس سے پہلے میں نے آنکھوں اور زبان میں اتنی حیاء کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے پہلی بار قرآن اسٹڈی پروجیکٹ میں شرکت کی تھی تو مجھے لگا تھا کہ میں ایک الگ ہی دنیا میں آگئی ہوں جسے صرف یہ لڑکیاں چلا رہی ہیں۔ جتنا کہ سوچا جاسکتا ہے اس سے زیاداہ کام یہ لڑکیاں کررہی تھیں بے شک قرآن اسٹڈی پروجیکٹ فلاح کے کاموں میں سے ایک ہے۔ (نادیہ نظیر)
قرآن اسٹڈی پروجیکٹ میں جب میں ہال میں داخل ہوئی تو ایک الگ سا منظر دیکھنے کو ملا جیسے میں کسی اور ہی دنیا میں آگئی۔ صرف اور صرف لڑکیوں سے بھرا ہال۔!! اور پھر جس گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا وہ تو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ دل کو بہت اچھا محسوس ہوا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سب سے اچھی ورکشاپ نماز پر تھی اور کنڈکٹر کے انداز سے میں بہت متاثر ہوئی۔ ویسے تمام پروگرامات ہی اچھے تھے آخر میں ہمیں بھی حفظ کروائی گئی۔
مختصراً یہ کہ میں اس پروجیکٹ سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ خصوصاً لڑکیوں کے لیے اس طرح کی پروگرامات ہی ہوتے ہیں اس لیے میں اسلامی جمعیت طالبات کا اس طرح کے پروجیکٹ منعقد کروانے پر شکریہ ادا کرتی ہوں۔ (سدرہ قاسم)
QSP کے بارے میں پہلی بار جب سنا تو مجھے لگا کوئی بورنگ قسم کا پروگرام ہوگا لیکن چوں کہ میری ایک دوست نے دعوت دی تھی تو میں اسے منع نہ کرسکی۔ مگر وہاں جا کر بالکل ہی ایک نئی دنیا سامنے آئی۔ داخل ہوتے ہی ایک باجی نے گلے لگا کر خوش آمدید کہا۔ وہاں کا ماحول انتہائی خوبصورت تھا۔ جن ورکشاپس کو میں بورنگ سمجھ رہی تھی ان کو سننے کے بعد اپنی سوچ پر پچھتائی۔ وہاں کا ماحول نہ صرف خوبصورت اور پرسکون تھا بلکہ پراثر بھی تھا۔ اور تو اور QSP میں جانے کے بعد میرے پاس جو دوستوں کی کمی تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔ QSP کے وہ دن میرے سال کے کچھ یادگار دنوں میں سے تھے۔ (امامہ کامران)
QSP بہت ہی منظم تھا۔ ورکشاپس کے موضوعات نہایت پر اثر تھے۔ کلاس کے دوران ایکٹیویٹیز اچھی اور دلچسپ تھیں۔ نظم و ضبط کا کوئی مسئلہ نہ تھا سب کچھ بہت اچھے سے ترتیب دیا ہوا تھا۔ قرآن اسٹڈی پروجیکٹ میرے لیے متاثر کن اور علم میں اضافے کا ذریعہ رہا۔ (عائشہ بتول)

حصہ