مثالی قائد! ڈاکٹر سید وسیم اختر

703

احمد علی محمودی
۔3؍جون 2019ء بعد نمازِ مغرب جب موبائل فون پر نیٹ آن کیا تو یہ خبر پڑھ کر دل کو انتہائی صدمہ پہنچا کہ بہاولپور کی ہر دل عزیز شخصیت ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب اس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے ہیں ۔ اوّل تو دل کو یقین نہیں آرہا تھا مگر جب اس حوالہ سے بہت سی پوسٹیں نظر سے گزریں تو تب اطمینان ہوا کہ یہ خبر واقعی سچ ہے تو زبان سے بے ساختہ یہ کلمات ادا ہوئے انّا لِلٰہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔
ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب سے میرا تعلق 1988ء سے ہے جب میں جماعت اسلامی سے قریب ہوا تھا ان دنوں امیر ضلع حکیم محمد عمران صاحب ہوا کرتے تھے ۔ حکیم محمد عمران صاحب کے بعد سید رحمت اللہ شاہ صاحب امیر ضلع بنے۔ یہ دونوں ہستیاں اس دارِ فانی سے رُخصت ہوچکی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ سبحانہُ وتعالیٰ انہیں قبر میں کروٹ کروٹ راحت و آرام نصیب فرمائے۔ جن دنوں حکیم محمد عمران صاحب اور ان کے بعد سید رحمت اللہ شاہ صاحب امیر ضلع ہوا کرتے تھے تو انہی دنوں ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب کی ذمہ داری امیر شہر بہاولپور کی تھی۔ بعدازاں ڈاکٹر صاحب امیر ضلع اور پھر امیر صوبہ پنجاب منتخب ہوئے اور اب حال ہی میں تنظیمی لحاظ سے پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا تو ڈاکٹر صاحب جنوبی پنجاب کے امیر تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو روزِ اوّل سے ہی میںنے بہت فعال دیکھا، عوامی حلقوں میں ڈاکٹر صاحب کو بڑی پذیرائی حاصل تھی، ڈاکٹر صاحب ایک عمدہ شخصیت کے حامل تھے، عوام اور خواص میں ان کا بڑا احترام پایاجاتاتھا، ہر شخص ہی یہ تصور کرتا تھا کہ میرا ڈاکٹر صاحب سے زیادہ گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب عوام کے محسن تھے، مجھ ناچیز پر بھی ڈاکٹر صاحب کے بہت سے احسانات ہیں، جن کا صِلہ مجھ سے تو ادا نہ ہوسکا، البتہ دعاگو ہوں کہ رب تعالیٰ ان کے احسانات کا انہیں بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب کے احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ میری شادی جو کہ تحریکی بنیادوں پرہوئی۔ اس رشتہ کی نشاندہی مولانا فاروق احمد صاحب نے کی، جبکہ رشتہ کروانے والے ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب اور نکاح پڑھانے والے سید رحمت اللہ شاہ صاحب تھے۔
ڈاکٹر صاحب حصول تعلیم کے لیے لاہور سے بہاولپور آئے اور پھر بہاولپور کے عوام کے دلوںکی دھڑکن بن کر بہاولپور کے ہی ہو لیے۔ ڈاکٹر صاحب تین مرتبہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1990ء میں ڈاکٹر صاحب نے جب صوبائی اسمبلی کا پہلا الیکشن لڑا تو الیکشن مہم میں یہ عاجز بھی شامل تھا۔ بہاولپور میں ڈاکٹر صاحب کا والہانہ استقبال اور بھرپور انتخابی جلسے ہوا کرتے تھے، اس الیکشن مہم اور بعدازاں الیکشن میں بھرپور کامیابی کے بعد ڈاکٹر صاحب کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے آفس واقع مسجدالحق نزد ایس سی کالج بہالپورجب بھی جانا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کے ارد گرد عوام کا جم غفیر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب ایک چاند ہیں اور ان کے گر د ستاروںکا جھرمٹ ہے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ بعض بندوں کو پیدا ہی اپنی مخلوق کی خدمت کے لیے کرتے ہیں، ان بندوں میں سے ایک ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں یہ تخصص نہیں تھی کہ یہ بندہ میرے حلقہ کا ہے یا نہیں؟ اس کا تعلق کس برادری یا مسلک سے ہے؟ یہ کون سی زبان بولنے والا ہے؟ اس نے مجھے الیکشن میں ووٹ دیا تھا یا نہیں؟یہ جماعت اسلامی کا حامی ہے یا مخالف؟ غریب ہو یا امیر… ڈاکٹر صاحب سب کے سچے اور بے لوث خادم تھے، دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، سفر ہو یا حضر، گرمی ہو یا سردی، ان کا ایک ہی مشن تھا، خدمت، خدمت اور خدمت۔ آلِ نبیؐ کے در سے کوئی بھی سائل خالی اور مایوس ہو کر نہیں جاتا تھا۔ آپ کسی کو خط لکھ کر دے رہے ہیں تو کسی کے متعلقہ افسر کو فون کررہے ہیں کسی کی فائل لے کر خود اس کی پیروی کررہے ہیں، صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں آپ پوری تیاری کر کے جایا کرتے تھے۔ صرف حلقہ کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب کے عوام کو نظر آتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اسلام اور اہالیان بہاولپور کی توانا آواز ہیں۔ بحالی صوبہ کی تحریک ہو یا بہاولپور کے مسائل، کسانوں کا مسئلہ ہو یا چولستان میں پانی کا مسئلہ یا غریب ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا مسئلہ، ڈاکٹر صاحب اسمبلی کے ایوان اور اسمبلی کے دروازے پر تن تنہا احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ایوان میں بہترین کارکردگی پر آپ نے ایوارڈز بھی وصول کیے۔
ڈاکٹر صاحب کا عظیم کارنامہ مئی2018ء میں صوبائی اسمبلی سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی لازمی تعلیم کا بل منظور کروانا تھا، آپ نے بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کے لیے تین ارب روپے کی لاگت سے کڈنی ٹرانسپلانٹ، جدید سہولیات سے آراستہ کارڈیک سینٹر، تھلیسیمیا یونٹ اور اسی ہسپتال میں سی ٹی سکین اورایم آر آئی مشین کی تنصیب کے لیے شدید تگ و دو کی۔ برن سینٹر کی عمارت کا افتتاح آپ نے اپنے ہاتھوں سے کیا، بہاولپور شہر کے لیے 30کروڑ روپے کا سیوریج میگا پراجیکٹ، اوور ہیڈ برج، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پراجیکٹ، ماڈل بازار کا آغاز، سدرن ریلوے پھاٹک کی منظوری کے ساتھ ساتھ صحافی کالونی کے لیے آپ نے جگہ مختص کروائی تھی۔ بلاشبہ نواب آف بہاولپور سر محمد صادق خان خامس عباسیؒ کے بعد اس خطہ کے محروم عوام کے مسائل کے حل کے لیے جس شخص کو بے چین دیکھا وہ ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب تھے۔ اقبالؒ نے سچ کہا ؎

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آپ مظلوم، یتیم، مسکین، بیوہ اور بے سہارا کا سہارا تھے۔ غریب لوگوں کے گھروں میں راشن پہنچانا، بچیوں کی شادی کے لیے جہیز فنڈ مہیا کرنا، سیلاب کے دنوں میں میڈیکل و امدادی کیمپ لگانا، چرمہائے قربانی جمع کرنے کے لیے اوّل گھر گھر جا کر اپیل کرنا، اور بعدازاں چرمہائے قربانی وصول کرنا، بیماروں کی تیمارداری ، فوت شدگان کے نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا، نمازِ جنازہ پڑھانا، میت کو کندھا دینا،عید کے موقع پر نماز عید پڑھانا، تربیت گاہوں میں خطاب اور کارکنان میں خود کھانا تقسیم کرنااور سب سے آخر میں بچا ہوا کھانا کھانا اور کبھی کھانے سے محروم رہ جانا، ممبر صوبانی اسمبلی ہوتے ہوئے عام ٹرین یا بس میں عوام کے ساتھ سفر کرنا، چراغ لے کر ڈھونڈنے نکلیں تو تب بھی ایسا قائد نہ ملے۔
چار جون صبح آٹھ بجے عیدگاہ بہاولپور میں ڈاکٹر صاحب کا تاریخی نمازِ جنازہ اداکیاگیا۔ جس میں نہ صرف بہاولپور بلکہ دور دراز علاقوںسے بھی عوام کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر سید حافظ عمر عبدالرحمن صاحب نے پڑھائی، اس موقع پر کوئی بھی ایسی آنکھ نہ تھی جو اشک بار نہ ہو۔ کئی لوگ دھاڑیں مارمار کر رو رہے تھے، بڑے ہی جذباتی مناظر تھے جواس موقع پر دیکھے گئے۔ آہوں اور سسکیوں کی برسات میں اس نفس مطمئنہ کو بہاولپور ماڈل ٹائون اے میں رشیدیہ آڈیٹوریم ہال کے عقب میں واقع قبرستان میں سپرد خاک کیاگیا۔ اسی قبرستان میں آپ کے والد صاحب، والدہ محترمہ اور بھائی جان بھی دفن ہیں۔آپ کے گھر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھاہواہے۔ آپ کے فرزندِ ارجمند سے بہاولپور کے عوام کی بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ دعا ہے کہ آپ کا فرزند ڈاکٹر سید حافظ عمر عبدالرحمن ثانی ڈاکٹر سید وسیم اختر ثابت ہو۔

حصہ