۔ویسٹا کا زخم” سیّارچہ ویسٹا ویسٹا پر کاری ضرب

647

قاضی مظہر الدین طارق
سب سے بڑے سیّارچے (اَیسٹرائڈ) کو اس سے دس گنا چھوٹے سیّارچے نے ٹکّر ماری، ’ویسٹا‘ سیّارچوی پٹّی (اَیسٹرائڈ بَیلٹ) کے سیّارچوں (اَیسٹرائیڈز) میں سب سے بڑا اور روشن ہے، یہ وقفے وقفے سے بغیر دوربین کے بھی دیکھا جاسکتا ہے، ۲۰۱۱ء؁ میں ناسا کے ’ڈان مشن‘کے خلائی جہاز نے اس سیّارچے (اَیسرائیڈ) کے گرد چکّر لگایا اور اس کی مزید تفصیلات بھیجیں۔
………
۱۵۹۶ء؁ میں ’جونز کیپلر‘ نے کہا کہ مریخ(مارس) اور مشتری(جوپیٹر) کے درمیان میں کوئی اور سیّارہ موجود ہے،اس کے دو سو سال بعد دو ہیّت دانوں (ایسٹرونمرز) ،جونز ڈانیال ٹیئیٹس اور جونز ایلرٹ بوڈ نے ریاضی کے حساب کی مددسے کیپلر کی تائید کرتے نظر آتے ہیں کہ مریخ اور مشتری کے درمیان کوئی ہے۔
………
اگست ۱۷۹۸ء؁ میں ایک آسمانی جاسوسی ٹیم بنائی گئی جس کا کام اِس گمنام سیّارے کو تلاش کرنا تھا۔
اس ٹیم میں ایک جرمن’حین رِخ البرص‘ بھی تھا، جس نے ۲۹؍مارچ ۱۸۰۷ء؁ میں اس سیّارچے ’ویسٹا‘ کو دریافت کیا‘قبل اس کے البرص نے ایک اور سیّارچے ’پلاص‘ کو دریافت کیا تھا۔
اس طرح ’البرص‘دو سیّارچے در یافت کرنے والاپہلا انسان قرار پایا ۔
ویسٹا کا قطر(ڈائی میٹر)۳۲۹؍ میل ہے۔
اس کی کمیّت(ماس)۲۶۷؍ارب ٹن ہے۔
اس کا درجۂ حرارت منفی ۱۱۸؍ سے منفی ۱۸؍ سنٹی گریٹ تک رہتا ہے۔
یہ اپنے محور پر گھماؤ(روٹیشن) سوا پانچ گھنتے میں کرلتا ہے۔
ایک کے چکّر(اَوربِٹَل)میں ساڑھے تین سال لگتے ہیں۔
اس پر ایک بہت بڑا اور گہراگڑھا(کریٹر)ہے جو اس کے قلب(کور) تک پہنچ گیا ہے۔
اس کا قلب(کور) لوہے اور نِکل سے بنا ہوا ہے جیسے دوسرے چٹانی سیّاروں کاہوتا ہے۔
اس پر کبھی لاوا بہتا تھا جس کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔
جب ویسٹا ۱۹۹۶ء؁ میں زمین کے قریب ترین ہو کر گزرا توخلا میں موجود’ حبل ٹلیسکوپ‘ نے اس کا نقشا بنایا،جس سے معلوم ہوا کہ اس کے جنوب میں ایک گڑھا دو سو چیاسی ۲۸۶میل چوڑا ہے ،یاد رہے کہ یہ سیّارچہ خود تین سو تیس ۳۳۰میل چوڑا ہے۔
………
یہ گڑھا آٹھ ۸ میل گہرا ہے،اس کا مطلب کسی سیّارچے کی ٹکر سے اس پر یہ کاری زخم لگا،یہ زخم چار ارب سال پرانا ہے جب یہ ڈھیلے ڈھالے مائع کی شکل میں تھا،اس کی اطلاع ہم کو اب ملی ہے۔
اس چوٹ سے جواس کا جو مواد ٹُکڑیوں کی صورت میں نکلاکچھ اس کے اطراف گھومنے لگے اور اس کے چاندبن گئے اور کچھ شہاب ثاقب (میٹورائیٹس) بن کر زمین پر آدھمکے۔
………
زیادہ تر سیّارچوں کے بر خلاف اس سیّارچے کی بناوٹ مختلف ہے، اس کی بناوٹ چٹانی سیّاروں جیسی ہے، اس لئے کچھ ہیّت دانوں کے مطابق یہ ایک مُنا سیّارہ ہے، اگر قریب میں مشتری نہ ہوتا تو واقعی یہ مُنّا سیّارے کی تمام خصوصیات پوری کرتا ہے۔
………
اس کا قَشر(کرسٹ) ٹھنڈے لاوے کا ہے جو گرم چٹانی ’مِنٹَل‘ کو ڈھانک رہا ہے،اور اس کا قلب (کور)لوہے اور نِکل کا ہے، اندازہ ہے کہ یہ ٹھنڈا ہونے سے پہلے ہزروں برس تک دیگر سیّاروں طرح مائع (لِیکوِیڈ) حالت میں رہا، اسی وجہ سے بھاری لوہا اور نِکل اس قلب (کور) میں اُتر گیا،اس کا قلب (کور) زمین کے قلب سے صرف ایک تہائی کم ہے۔
………
سیّارچوی پٹّی(ایسرائیڈ بیلٹ) کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ سیّارچے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک سیّارہ نہیں بن سکتے، ۱۹۶۰ء؁ میں ایک شہاب(میٹرائیڈ)اَوسٹریلیا میں نازل ہوا،جو ساخت میں باکل ویسٹا جیسا تھا،قرار پایا کہ یہ اس کا ایک تُکڑا تھا۔
………
ناسا ،ڈان مشن کے خلائی جہاز نے اس سیّارچے کے گِرد (آربٹ) ۲۰۱۲ء؁میںچکّرلگایا،اس نے ایک حیرت انگیز چیزدریافت کی کہ اس کی سطح پر ہائیڈروجن کی بڑی مقدار پائی گئی،ہائیڈروجن کی زیادتی کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ سورج کی زبردست تابکاری(ریڈی ئیشن) کی بنا پر سطح پر آنے والا پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم ہوجاتا ہے، اس پر لاوا اور پانی کے نشانات ہیں، اس کامطلب ہے کہ کبھی اس پرپانی بہتا تھا،اس پر پانی موجود ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے اس میں ایسے معدنیات (منرلز) پائے جاتے ہیں جس میں پانی موجود ہے ۔
………
اس پر ایک بہت بڑا پہاڑ کھڑا ہے، جس کی بلندی دو ماؤنٹ ایویرسٹ سے زیادہ ہے ۔
………
غور فرمائیے کہ یہ تفصیلات ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ نہ صرف خالق موجود ہے، بلکہ واحد ہے،نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ ہی جیسا کوئی اور ہے۔

حصہ