۔”شادی” کو “سادی” بنائیے

1219

ناہید جعفر
اگر ’’شادی‘‘ پر سے نقطے ہٹا دیے جائیں تو وہ ’’سادی‘‘ بن جاتی ہے، لیکن یہ تین نقطے ہٹانے کے لیے عزم و حوصلے کی ضرورت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق مسلمان کو شادی کرنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: ’’حق مہر‘‘ اور ’’ولیمہ‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس کے پاس ان دونوں چیزوں کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام ہو وہ نکاح کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرے۔‘‘
لیکن آج کے مسلمان نے اپنے پیارے دین کی تعلیمات بھلا کر ہندوئوں کی رسومات کے اتنے غیر ضروری پھندے لگا دیے ہیں کہ شادی کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔
جیسے میری دو نندوں کی بیٹیوں کی شادی کی تاریخ مقرر ہوئی تو ان کے گھروں میں گویا بھونچال آگیا، یعنی پورے زور شور سے شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ جب سنو یہ دونوں مائیں اپنی بیٹیوں سمیت کبھی بازاروں میں، کبھی درزن کے پاس، کبھی شادی ہال پسند کرنے، تو کبھی کیٹرنگ والوں کے پاس جارہی ہیں۔ شام ڈھلے گھر پہنچتیں تو گھر الٹا پڑا ملتا، کیوں کہ گھر کی چاروں خواتین صبح ہی گھر سے نکل کھڑی ہوتی تھیں تو گھر کے بکھیڑے کون سمیٹتا؟ نند کے سر میں درد، تھکن سے جسم چُور چُور۔ اب ہانڈی روٹی میں کھپنا پڑتا۔ جلدی جلدی میں الٹی سیدھی ہنڈیا پکا کر روٹی بازار سے منگوائی جاتی، اور بستر میں ڈھیر ہوجاتیں کہ کل صبح نئے مشن پر روانہ ہونا ہے۔
تین مہینے لگا تار اسی جدوجہد میں صرف کرنے کے بعد بھی تیاری مکمل نہیں ہوسکی اور شادی سر پر آگئی تو ان لوگوں کی دوڑ دھوپ میں مزید تیزی آگئی۔ اب دوسری فکروں کے ساتھ ساتھ یہ فکر بھی سوار ہوگئی کہ دور سے آنے والے مہمانوں کو ٹھیرانے کے انتظامات کیسے کیے جائیں۔ اس کے لیے گھر کی صفائیاں بھی ہونی ہیں، ان کے لیے بستر، برتن، ناشتے اور کھانوں کے لوازمات بھی تیار کرنے ہیں۔ اب گھر میں ڈھیروں ڈھیر سودا سلف ڈلوایا جارہا ہے، مختلف قسم کے حلوے، چٹنیاں، مربے، کباب، کوفتے وغیرہ بنا کر رکھے جارہے ہیں۔ ڈھیروں لہسن ادرک چھیلنا پڑ رہا ہے۔
شادی کے فنکشنز کی ترتیب کچھ یوں بنی ہے: بارات سے دس دن پہلے ڈھولکیاں شروع ہوجائیں گی اور سارے خاندان والے روز آیا کریں گے اور گھر میں نوجوان بچیاں ڈانس پیش کرکے انہیں انٹرٹین کریں گی، پھر ایک دن قرآن خوانی ہوگی، اس کے بعد مایوں، مہندی، برائیڈل شاور (یہ ایک نئی رسم ایجاد ہوئی ہے)، بارات، ولیمہ اور چوتھی ہوگی۔
جہیز کی تیاری کے ساتھ ساتھ باقی گھر والوں کے لیے بھی بے تحاشا کپڑوں کی ضرورت ہے۔ مایوں کی کلر تھیم پیلی اور میرون ہے۔ مہندی کی تھیم پرپل ہے۔ سب لڑکوں نے وائٹ شلوار قمیص پر انہی رنگوں کی ویسٹ کوٹ پہننی ہے اور لڑکیوں نے ماتھے پر ایک جیسے جھومر لگانے ہیں اور گھاگھرا چولی بھی انہی رنگوں کی پہنی جائے گی۔
گھر کے مرد ان خرافات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پریشان ہیں، کیوں کہ یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں اتنے لمبے چوڑے خرچ برداشت کرنے میں اچھے اچھوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے… وہ بیویوں سے بجٹ کم کرنے کی درخواست کرتے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے ’’لو جی پہلی پہلی خوشی ہے، یہ سب کچھ نہ کیا تو کیا خاک مزا آئے گا… اب روکھی پھیکی شادی تو کرنے سے رہے، لوگ کیا کہیں گے!‘‘
اتنی بھاری بھرکم تیاریاں دیکھ دیکھ کر میرے تو دانتوں تلے پسینہ آرہا تھا، کیوں کہ کچھ ہی عرصے میں مجھے بھی اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی، اور مجھے تو بازار جانے سے اتنی چڑ ہے کہ اگر ایک دفعہ بازار چلی جائوں تو پورے ایک مہینے تک دوبارہ جانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ ویسے بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جگہوں میں سب سے بری جگہ بازار ہے۔‘‘
تو اب ہمیں چاہیے کہ جیسے واش روم صرف ضرورت کے لیے جاتے ہیں، اور ضرورت پوری ہوتے ہی باہر بھاگتے ہیں، وہاں دل لگا کر نہیں بیٹھ جاتے، ایسے ہی بازاروں میں بھی حتی الامکان کم سے کم وقت لگانا چاہیے۔
انہی دنوں بے تحاشا تھکان کی وجہ سے دونوں بہنوں کی ٹانگوں میں شدید درد رہنے لگا جو کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہورہا تھا تو کسی مہربان نے انہیں حجامہ لگوانے کا مشورہ دیا… میں خود بھی ٹانگوں کے درد کے عارضے میں مبتلا ہوں۔ تو حجامہ کا سن کر ان کے ساتھ ہو لی، کہ جس علاج کی میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی ہے اس میں شفا کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں ہوسکتا، اس لیے میں بھی لگوا لیتی ہوں۔ حجامہ کرنے والی خاتون ایک باعمل عالمہ ہیں اور مدرسے میں پڑھاتی ہیں۔
خیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُن کے گھر پہنچے تو نورانی چہرے والی باجی ایک دم سے دل کو بھا گئیں۔
بڑی نند کا حجامہ شروع ہوا تو ہم نماز پڑھنے کے لیے دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ وہاں صوفے پر شاپر بیگوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جن میں کپڑے، سوئیٹر، جوتے وغیرہ بھرے ہوئے تھے۔
’’اوہو! یہاں بھی شادی کی تیاری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، لو جی! ہماری نندوںکی طرح یہ باجی بھی بازاروں کے چکر میں پاگل ہورہی ہیں تو ان کی اپنی ٹانگوں میں بھی درد بیٹھا ہوا ہوگا، انہیں تو خود حجامہ کی ضرورت ہوگی‘‘۔ ہم ان سے پوچھے بنا نہ رہ سکے ’’باجی! آپ کے ہاں بھی کوئی شادی وادی ہے کیا؟‘‘
وہ مسکرا کر بولیں ’’جی یہ میری سترہ سالہ بیٹی، جو عالمہ بن رہی ہے، اگلے ماہ اس کی شادی ہے۔‘‘
’’اچھا تبھی شاپنگ کی جارہی ہے جہیز کی۔‘‘
اس پر وہ نفی میں سر ہلا کر کہنے لگیں ’’جہیز کے نام پر تو اس کے سسرال والے ایک تنکا بھی نہیں لے رہے، بلکہ یہ خریداری تو انہوں نے اپنی طرف سے کرائی ہے۔‘‘
’’اچھا! آپ نے کون سا ہال… شادی کا فنکشن کون سے ہال میں ہوگا؟‘‘
وہ متانت سے بولیں ’’بارات کا فنکشن نہیں ہوگا، بلکہ فلاں تاریخ کو لڑکے والوں کے دس آدمی آکر مسجد میں نکاح پڑھوائیں گے، پھر میرے گھر آکر کھانا کھائیں گے اور واپس چلے جائیں گے۔ شام کو دلہن گھر میں ہی تیار ہو گی، بیوٹی پارلر نہیں جائے گی، اور ہمارے گھر سے کوئی ساتھ جاکر اسے سسرال چھوڑ آئے گا۔‘‘
ہمیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا ’’ہائیں اس قدر آسان ترین شادی…؟‘‘
ہمیں اتنی دل چسپی پیدا ہوئی کہ پھر تو سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ ولیمے کا کیا ڈریس ہے، اچھا تو ولیمہ کیسے ہوگا…؟ اس پر انہوں نے تفصیل بتائی:
’’لڑکے والے ماشاء اللہ صاحبِ حیثیت ہیں اور مہنگے سے مہنگا لہنگا بنوا سکتے ہیں، لیکن انہوں نے صرف اس لیے کم قیمت لباس خریدا ہے تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جاسکے کہ ایسے لباس پر پیسے کا ضیاع ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کے مہنگے سیکٹر میں ایک کنال کا گھر بنایا ہے اور اس کی بیسمنٹ میں پورا ہال رکھوایا ہے تاکہ ان کی بہو اس میں درس و تدریس کا کام کروا سکے۔‘‘ ہم تویہ سن کر جھوم اٹھے۔ سبحان اللہ! پیسہ لگانا ہے تو اس طرح لگائے بندہ۔
’’اور پھر حق مہر نکاح کے وقت ہی ادا کردیا جائے گا جو کہ سنت طریقہ ہے۔ ہم دونوں خاندان باہمی مشورے سے ایسی شادی کرنا چاہ رہے ہیں جو ساری فضول رسموں کو توڑنے والی ہو اور اُن لوگوں کے لیے مثال ہوسکے جنہوں نے شادی کو اتنا مشکل بنادیا ہے کہ بیس پچیس لاکھ تک اخراجات پہنچ جاتے ہیں۔
میں نے دو ماہ پہلے اپنی بڑی بیٹی کی شادی بھی اسی طرح کی ہے۔ وہ شادی اتنی آسانی سے اور بغیر خرچے کے ہوگئی تھی کہ میں اب دوسری بیٹی کے فرض سے بھی سبک دوش ہورہی ہوں، ورنہ آج کل کی شادی تو دو سال کمر سیدھی نہیں ہونے دیتی۔‘‘
ان کی باتیں سن کر ہم تو حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہے تھے، اور دل سے دعا نکل رہی تھی: اللہ سب کو ایسی شادی کرنے کی توفیق عطا کرے۔
انہی باتوں کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں جن لوگوں کا حجامہ کرتی ہوں ان میں سے 90 فیصدر پر جادو کے اور اوپری اثرات ہوتے ہیں، چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجامہ میں جادو کا توڑ بھی ہوتا ہے، اس لیے میں اپنا حصار کرکے حجامہ کرتی ہوں، مگر بعض خواتین پر اتنا سخت جادو ہوتا ہے کہ اس کے اثرات میرے اوپر بھی ہوجاتے ہیں جس کے لیے مجھے بہت پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔
میں نے پوچھا ’’کون ان پر جادو کرواتا ہوگا؟‘‘
تو وہ بولیں ’’آج کل شیطانی چیزیں ہمارے اردگرد اتنی پھیل گئی ہیں۔ پہلے یہ چیزیں جنگلوں میں رہا کرتی تھیں، لیکن اب ہمارے معاشرے اور گھروں میں ہر وقت میوزک، فلمیں، ناچ گانے اور بے حیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ ان کے بد اثرات کی وجہ سے یہ چیزیں انسانوں پر آسانی سے حاوی ہوجاتی ہیں، اور اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی صبح و شام کی دعائیں پڑھنا چھوڑ دی ہیں جو اتنی زبردست اور جامع ہیں کہ ہر چیز سے حفاظت ہو جایا کرتی ہے۔ اور دوسرے مغرب کے وقت لڑکیاں بال کھول کر ننگے سر گھر سے باہر یا چھت وغیرہ پر جاتی ہیں، اس لیے میری سب لوگوں سے درخواست ہے کہ خدارا اپنی اولادوں کو آقائے دوجہاںؐ کی بتائی ہوئی پیاری پیاری صبح و شام کی دعائیں ضرور پڑھوایا کریں اور اپنے گھروں سے گانے بجانے کے آلات نکال پھینکیں۔

حصہ