ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
آج مسجد پہنچے تو ایک ہدیہ خوب صورت کاغذ میں ملفوف نظر آیا۔ معلوم ہوا کہ ایک خاتون نے پانچ پارے حفظ کرلیے ہیں، ان کو دیا جائے گا۔ اور پھر جب ان خاتون نے اپنے حفظِ قرآن کی وجہ بتائی تو ان پر رشک آیا۔ ایک ہی جملہ سب کو آئینہ دکھا گیا کہ ’’جب بھی مجھے لوگوں کی باتیں تکلیف دیتی تھیں میں چند آیات حفظ کرنے کا ٹارگٹ بنا لیتی تھی۔ یہ میرے ہر غم کا مداوا ہوجاتا تھا۔‘‘
انسان کے لیے غم سے نجات کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ وہ کسی ایسے کام میں مصروف ہوجائے جس سے اس کی توجہ، ذہن بٹ جائے۔ کچھ لوگ اپنے قریبی دوست سے ملنے چلے جاتے ہیں۔ اور بے شک قلبی ساتھی کو دل کا حال سنا کر ذہن کو یکسوئی ملتی ہے، اپنے خیرخواہ کی طرف سے تسلی کے دو بول جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ کوئی ڈائری لکھتا ہے۔ کہیں پینٹنگ سے دل بہلایا جاتا ہے۔ غرض ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق اپنے دکھ کا مداوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن پاک کی آیات کو یاد کرنا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ کوئی بھی تحریر زبانی یاد کرنے میں انسان کی ذہنی صلاحیت اور یکسوئی جب تک مکمل طور پر استعمال نہ ہو، کچھ یاد نہیں ہوسکتا۔ ایک آیت کو بھی یاد کرنا ہو تو اس پہ پوری توجہ درکار ہوتی ہے، پھر اس کی تکرار اور دہرائی باقی غیر ضروری اور تکلیف دہ باتوں سے غافل کردیتی ہے۔ اللہ کا کلام زبان کی بہت سی برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ دل کو سکینت ملتی ہے۔ ہر حرف پہ دس نیکیاں ملنے کی امید لوگوں کی کڑوی باتوں کو پس منظر میں لے جاتی ہے۔ اللہ رب العزت سے بڑھ کر کون ہمارا دوست، خیرخواہ اور مشیر ہوسکتا ہے! ہر پریشان بندے کو ایک سننے والا کان درکار ہوتا ہے جو اس کا دکھ سنے اور اس کا مداوا کرنے میں پوری رازداری رکھے، عزتِ نفس کا خیال رکھے، اس سے باتیں کرکے حوصلہ دے۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی باتیں اس کا کلام ہی تو ہے، جس میں دل کی تسکین بھی ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ سبحان اللہ! روزانہ ایک آیت یاد کرنا اور اس کے ترجمے پہ غور کرنا کوئی کٹھن کام نہیں۔ کام کاج کرتے اس کو دہراتے رہنے سے دماغ میں شیطانی خیالات جگہ نہیں پا سکتے، وقت میں برکت ہوتی ہے، کام کاج آسان لگتا ہے، کیوں کہ دل و دماغ میں منفی سوچیں پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔ اور یہ اہم نہیں ہے کہ کس نے کتنا قرآن حفظ کیا اور کتنی مدت میں کیا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کی زندگی کا کتنا حصہ قرآن سے مربوط رہا، اور جب دنیا سے رخصت ہوئے تو کس کام میں مشغول تھے؟ اداروں ، گھروں، خاندانوں میں، یا جہاں بھی لوگوں کے مشترکہ مفاد ہوں، باہم چپقلش ہونا فطری امر ہے، اور کچھ لوگوں کے مزاج میں رعونت ہوتی ہے جو دوسروں کے لیے باعثِ آزار بنے رہتے ہیں۔ فسادی اور حاسد لوگ بھی لوگوں کی اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ معمولی باتوں کو وجہ نزع بنانا، بے قصور کو ملوث کرنا، طرح طرح سے زچ کرنا ان کا وتیرہ ہوتا ہے۔ کبھی ادارے یا گھر کا سربراہ اپنے ماتحتوں کو تختۂ مشق بناتا ہے، بلاوجہ ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ اُس سے الجھنا خود کو مزید عذاب میں گرفتار کرنا ہے۔ اس کا بہترین علاج یہی ہے کہ اللہ کے کلام کو اپنی زبان پہ جاری رکھا جائے اور عمل میں لانے کی کوشش کی جائے۔ ذہن کو اس آیت کے ترجمے پہ مرکوز رکھا جائے اور دل کو اس کلام کی حلاوت سے آشنا کیا جائے۔ ایک آیت یاد کرنے میں کتنے دن لگتے ہیں یہ اہم نہیں ہے، اہم یہ ہے کہ زبان اللہ کے کلام سے تر رہے، ذہن میں پریشان کن خیالات نہ آئیں اور دل میں غصہ اور انتقامی کارروائی کے منصوبے پروان نہ چڑھ سکیں۔
رمضان المبارک قرآن پاک کا مہینہ ابھی حال ہی میں گزرا ہے، آئندہ رمضان المبارک کے استقبال کے لیے دورانِ سال قرآن پاک کا کچھ حصہ یا کوئی سورت یاد کرنے کی ابتدا کردی جائے، اور اپنا ارادہ مضبوط کرتے رہنا چاہیے اس دعا کے ساتھ:
’’اے اللہ قرآن پاک کو میرے دل کی بہار، آنکھوں کی ٹھنڈک، سینے کا نور اور قبر کی وحشتوں کا ساتھی بنادے، اور میں چلتا پھرتا قرآن بن جائوں۔ اس کلام کی محبت سے میرے ہر غم کا مداوا ہوجائے۔‘‘