لالچی دھوبی

1035

انتخاب: مہوش کمال
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں بہت ہی غریب دھوبی رہتا تھا۔کپڑوں کی دھلائی کے ساتھ ساتھ اس کو آسمان کو قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ اور اس کی بیوی روز دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھونے جاتے تھے۔ایک روزجب اس کی بیوی کپڑوں کو سوکھا رہی تھی اْس کی نظر آسمان پرپڑی اور کیا دیکھتی ہے کہ آسمان سے ایک ہاتھی اڑتا ہوا زمین پراْتررہاہے اور جیسے ہی وہ زمین پر اْتراتو وہ غائب ہوگیا۔
دوتین روز تک وہ یونہی ہاتھی کو زمین پر اترتادیکھتی رہی۔ایک رات اس نے یہ سارا ماجرہ دھوبی کوبتایا۔دھوبی پہلے تو بہت حیران ہوا مگر پھر فیصلہ کیاکہ کل وہ اس ہاتھی پرنظر رکھیں گے کہ آیا یہ ہاتھی زمین پر کیوں اْترتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے آخر ایسا کیاہے۔
اگلے دن دونوں شدت سے اْس کا انتظار کرنے لگے۔
آسمان پر بار بار نظر دوڑانے لگے۔آخر انتظار کا وقت ختم ہوا اور ان کو آسمان سے ہاتھی زمین پر اْترتا نظر آہی گیا۔دونوں اس کے پیچھے چل پڑے ہاتھی گنے کے کھیتوں میں گھس گیا اور خوب پیٹ بھر کر گنے کھانے لگا۔
ہاتھی کا پیٹ بھر ااور اْڑنے کی تیاری کرنے لگا جیسے ہی اس نے اْڑان بھری دونوں میاں بیوی نے بھی ہاتھی کی دم پکڑلی اور ہاتھی کے ساتھ اْڑنے لگے۔ہاتھی آسمان کی بلندیوں کو پہنچا تو دھوبی کیا دیکھتا ہے کہ ایک پہاڑ ہیرے سونے کے جواہرات سے چمک رہا ہے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اپنا خزانہ یہاں چھوڑ کر بھول بیٹھا ہے۔
دونوں میاں بیوی حیرت زدہ ہو گئے۔ آخر ہاتھی پہاڑ پر اتر گیا۔ دونوں سونے پر ٹوٹ پڑے اور زیادہ سے زیادہ سونا اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ رات کے بڑھتے اندھیرے سے پریشان ہونے لگے اچانک ان کو خیال آیا کہ صبح ہوتے ہی وہ ہاتھی کی دم پکڑکرزمین پراْتر جائیں گے۔
آخر صبح ہوئی اور ویسا ہی کیا جو انہوں نے ساری رات سوچتے گزار دی۔ خیر زمین پراُترے اور اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہوگئے۔
ایک غریب دھوبی جودن بہ دن امیر ہوتا جارہا تھا اس کو دیکھ کر سارا گاؤں حیران وپریشان ہوگیا کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ دھوبی اتنا امیر ہوگیا ہے۔
گاؤں کے لوگ دھوبی کے پاس آئے اور اس کے یوں اچانک امیر ہونے کا راز پوچھنے لگے۔دھوبی اْن کو کچھ نہ بتاتا۔ایک دن دھوبی کسی کام سے شہر سے باہر نکل گیا۔اس بات کافائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہمسائی دھوبن کے پاس آئی اور باتوں باتوں میں خزانے کاراز اگلوالیا۔
رات کو جب دھوبی واپس آیا دھوبن نے سارا ماجرابتایا۔دھوبی کو اس حرکت پر بہت غصہ آیا مگر اب بات ہاتھ سے نکل چکی تھی۔
صبح سارا گاؤں دھوبی سے مدد مانگنے آگیا کہ وہ ان کے ساتھ کھیتوں میں چلے اور ہاتھی کے ساتھ خزانے تک پہنچانے میں ان کی مدد کرے۔
یہ سب سننے کے بعد دھوبی کے دل میں لالچ پیدا ہوگئی کہ وہ ان کے ساتھ جا کے اور خزانہ اکٹھا کرکے لائے گا۔یہ سوچ کر وہ ان کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہوگیا۔ اگلی صبح سارے گاؤں والے کھیتوں کو نکل گئے اور آنکھیں آسمان پرجمائے بیٹھے تھے۔
ہاتھی زمین پراترا اور گنے کھانے لگا۔سب گاؤں والے اس طاق میں بیٹھے تھے کہ جیسے ہاتھی گنے کھاکے فارغ ہوگا وہ سب اس کی دم پکڑکر اس خزانے تک پہنچ جائیں گے۔جیسے ہی ہاتھی اْڑنے لگا سب نے اس کی دم پکڑلی۔ دھوبی سب سے آگے اس کی دُم پکڑے تھا اور یوں اس کے پیچھے ایک لمبی قطار میں پورا گاؤں ایک دوسرے کو پکڑے ہاتھی کے ساتھ اُڑے چلے جارہے تھے۔
سب گاؤں والے آپس میں باتیں کرنے لگے کہ وہاں اتنا خزانہ ہوگا کہ ہم سب لے کر آسکیں گے کسی نے کہا خود سے سوچنے سے اچھا ہے کہ ہم کیوں نہ دھوبی سے پوچھ لیں۔ایک گاؤں والے نے پوچھا دھوبی وہاں کتنا سونا ہے؟ دھوبی خزانے کی لالچ میں گاؤں والوں کے ساتھ چل دیا تھا۔
دُم کو چھوڑتے ہوئے ہاتھوں کے زاویے سے کہنے لگا‘‘ اتنا زیادہ ‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ سب زمین پر سرکے بل گرپڑے اورہاتھی مزے سے آسمان میں اپنی اُڑان بھرنے لگا اور گاؤں والوں کو ان کی لالچ کی سزا مل گئی۔

حصہ