قدسیہ ملک
کہاجاتاہے کہ خوشی اور غم کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔یہ کسی وقت بھی ہوسکتی ہیں۔اگر اس کو عمومی طور پر دیکھاجائے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر اسے مسلمانوں کے مذہبی رسومات سے ان باتوں کا موازنہ کیا جائے تو اس بات کی قطعی طور پر نفی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے عید کے دو تہوار ہیں جن میں مسلمانوں کی یگانگت اخوت بھائی چارے اور محبت کو فروغ ملتا ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ سال کے دو دنوں میں کھیل کود کرتے اور خوشی مناتے تھے۔ آپ نے ان دو دنوں کے بارے میں دریافت فرمایا کہ: یہ کیا ہیں؟ اہل مدینہ نے عرض کیا کہ: ان ایام میں ہم زمانۂ جاہلیت سے کھیل کود کرتے چلے آرہے ہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: تمہیں اللہ تعالیٰ نے ان دودنوں کے بدلے میں ان سے اچھے دو دن عطا فرمائے ہیں، عیدالفطر کا دن اور عید البقر کا دن۔ (ابو دائود)۔
عید آئی اور چلی بھی گئی لیکن امت مسلمہ کی زبوں حالی پہلے کی نسبت اب اور بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں مسلمان ہیں۔ دنیا میں وہ واحد آواز جو ہر وقت گونجتی رہتی ہے اذان ہے۔ دنیا میں اسلام تیسرے بڑے مذہب کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ ایک طرف تو یہ سب امتیازات ہیں تو دوسری طرف کچھ ایسے ہوش ربا حقائق ہیں جن کو سن کر اور پڑھ کر انسانی روح تک کانپ جاتی ہے۔ جن میں سے ایک یہ کہ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان ہی ظلم وستم اوراذیتوں اور محرومیوں اور اپنوں و غیروں کی ایذا رسانیوں کا شکار ہیں۔ خون مسلم کی ایسی ارزانی ہے کہ یک لخت سینکڑوں مسلمانوں کے خون پر بھی عالمی برادری، بین الاقوامی کمیونٹی میں سے کوئی تنظیم اشک بار ہونا دور کی بات اپنا احتجاج تک ریکارڈ نہیں کرواتی۔ دنیا بھر میں موجود انسانیت کے علم بردار، جانوروں کے حقوق کے علم بردار سب کے نزدیک خون مسلم کی کوئی اہمیت نہیں۔ پچھلے ہفتے جانوروں کے حقوق کی ایک تنظیم نے سوشل میڈیا میں یہ اطلاع دی کہ دنیا میں موجود گینڈے کی ایک قسم کی واحد آخری اسپیشی ملائشیا کے پارک سے طبعی موت مرگئی۔ اس کا غم انہوں نے ایسے منایا کہ اس کی شان میں ایک زبردست اجلاس منعقد ہوا۔ ایسا ہی ایک اجلاس چین میں کچھوے کی ایک مادہ جس کا خول نرم ہوتا ہے اس کی آخری مادہ انتقال کرگئی۔ اس پر بھی ان کا اجلاس منعقد ہوا اور سب بڑے عہدیداروں سے عہد لیا گیا کہ جانوروں کے حقوق کے لیے مل کر کام کریں گے۔
اب آتے ہیں مسلمان دنیا کی جانب جہاں ہر طرف آہیں، محرومیاں، کرب ظلم وستم اور آہ و فغاں آسمان سے باتیں کررہیں ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔
برما کے مسلمانوں کے حال سے کون واقف نہیں۔ روہنگیا مسلمان میانمار کی مغربی ریاست راکھین (Rakhine) میں رہنے والے مسلمانوں کو کہتے ہیں، جو میانمار میں اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں جنھیں کبھی بدھوں کے مظالم سہنے پڑتے ہیں تو کبھی سرکاری فوج کی لشکرکشی کے باعث مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میانمار کے علاوہ روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب، پاکستان، بنگلادیش، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور دیگر ملکوں میں قیام پذیر ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ 10 لاکھ کے قریب ہے۔ ان کی زبان ’’روہنگیا‘‘ ہے جو بنگالی سے ملتی جلتی ہے، اسی وجہ سے انھیں روہنگیا مسلم کہا جاتا ہے۔ مختلف مورخین اور خود روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤاجداد کا تعلق راکھین اسٹیٹ سے ہی ہے، لیکن میانمار کے مورخین کہتے ہیں کہ روہنگیا مسلمان کسی اور جگہ سے ہجرت کرکے یہاں آئے۔ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میانمار کے حکمرانوں اور وہاں رہنے والی دیگر قومیتوں نے روہنگیا مسلمانوں کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان سے نفرت کا اظہار مختلف مواقع پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کرکے کیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو روہنگیا مسلمان اراکان میں 16 ویں صدی سے آباد ہیں۔ ان کی کئی نسلیں یہاں پلی بڑھی ہیں لیکن تاحال ان کو حقوق ملے نہ شناخت دی گئی اور نہ ہی انھیں اپنایا گیا۔ انہیں اسی ظالمانہ رویوں کے نتیجے آج بھی روہنگیا مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے اور پورا میانمار اس طرح چپ ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
آئیے اب جرمنی چلتے ہیں۔ جرمن حکومت کے مطابق سال 2017ء جرمنی میں مسلمانوں پر 950 کے قریب حملے ہوئے۔ جن میں 60 کے قریب حملے مساجد اور دیگر اسلامی سنٹرز پر ہوئے۔ خواتین کوحجاب پہننے پر بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ ان حملوں میں34 کے قریب مسلمان زخمی ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
یہ ہے اسپین جہاں 2017ء میں 546کے قریب اسلام فوبیا کے کیس ریکارڈ ہوئے۔ جن میں386 کیس میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے بارے نفرت انگیز پھیلانے کی صورت سامنے آئے۔ ان واقعات میں 21 فیصد اسپین میں بسنے والی مسلم خواتین اور چار فیصد مسلم بچوں اور مساجد کے متعلق واقعات ریکارڈ ہوئے۔ جرمنی اور اسپین کے بعد یہی صورت حال برطانیہ، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، نیدرلینڈ جیسے دیگر یورپی ممالک کا ہے۔ جہاں پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر عوام کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ووٹ کے لیے کمپین چلارہے ہیں۔
مسئلۂ فلسطین دنیا کا سب سے پیچیدہ، قدیم اور حساس مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ اس قضیے میں مذہب، نسل اور کلچر کے تمام تر تضادات اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے مناسب یہ ہے کہ پہلے زمینی حقائق کو سمجھ لیا جائے۔ اس وقت موجودہ اسرائیل کا رقبہ تقریباً اکیس ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی انسٹھ (59) لاکھ ہے۔ اس آبادی میں یہودیوں کی تعداد اڑتالیس (48) لاکھ ہے اور عربوں کی تعداد گیارہ (11) لاکھ ہے۔ یعنی بیاسی (82) فی صد یہودی اور اٹھارہ (18) فی صد مسلمان۔ ایک اندازے کے مطابق ہٹلر نے چھ لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا تھا اور باقی جان بچا کر فلسطین بھاگ آئے۔ 1948ء میں یعنی اسرائیل کے قیام کے وقت وہاں سات لاکھ اٹھاون ہزار یہودی بس گئے تھے۔ جب برطانیہ نے دیکھا کہ اب وہاں ایک یہودی وطن بن سکتا ہے تو اس نے اس پورے علاقے کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا۔ اس وقت صورت حال یہ بنی کہ امریکہ اور روس سمیت تمام طاقت ور ممالک اسرائیل کے حامی تھے۔ چنانچہ نومبر1947ء میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیل کو کل رقبے کا چھپن(56) فی صد دیا گیا، حالانکہ یہودیوں کی آبادی اس وقت کل آبادی کی ایک تہائی تھی اور فلسطینی ریاست کو چوالیس (44) فی صد دیا گیا حالانکہ فلسطینیوں کی آبادی دو تہائی تھی۔ یہ صریحاً ایک ناجائز تقسیم تھی۔ چنانچہ فلسطینیوں اور ارد گرد کے عرب ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم یعنی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی پوری دنیا میں احتجاجوں اور مظاہروں کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے۔ عرب و مسلم ملکوں کے ساتھ ساتھ یوروپی یونین کی جانب سے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ او آئی سی نے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت اعلان کر دیا ہے۔ ادھر فلسطینی عوام نے ایک بار پھر انتفاضہ شروع کر دیا ہے۔ وہ اسرائیلی مظالم کا جواب پتھروں سے دے رہے ہیں۔ اسرائیلی افواج نے ایک بار پھر سفاکی کی حدیں عبور کرنی شروع کر دی ہیں۔ انھوں نے نہتے فلسطینیوں کو بندوقوں اور رائفلوں کی زد پر رکھ لیا ہے۔ متعدد فلسطینی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔
کشمیر جنت نظیر کے موجودہ حالات سے ہم سب واقف ہیں۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ تقسیم ہند کے وقت کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے مگر اس وقت کے وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ کے ساتھ مل کر تقسیم ہند کے ضابطوں کے برعکس کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا۔ یہ شاید بیسویں صدی کی سب سے بڑی بد دیانتی تھی الحاق کی آج تک کوئی تحریری دستاویز سامنے نہیں آئی۔ کشمیری عوام مہاراجہ کی اس بد دیانتی پر سیخ پا ہو گئے اور انہوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ 26 اکتوبر 1947 ء کو مہاراجہ کے الحاق بھارت کے فوراً بعد 27 اکتوبر کو بھارتی فوج نے کشمیر پر یلغار کر دی۔ بھارت کشمیر میں 70 سالوں سے ظلم و ستم کی انتہا کررہا ہے، عالمی برداری مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہی۔ حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ جنگی جنون میں مبتلا بھارت پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے، مسئلہ کشمیر دو ایٹمی ممالک کے درمیان سلگتی چنگاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی میں بربریت کی انتہا کررکھی ہے، مظلوم کشمیروں کو شہید کیا جارہا ہے۔ عالمی برداری مسئلۂ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کسی قسم کا کوئی کردارادا نہیں کررہی۔ رمضان المبارک میں بھارتی مظالم میں تیزی، 2 ہفتوں میں 12 کشمیری نوجوان شہیدکردیئے ہیں۔
یورپ میں حالیہ اسلام دشمنی کی لہر2015ء سے بڑھنا شروع ہوئی۔ چنانچہ پہلی باریورپی ملک جمہوریہ چیک کے صدر اورسابق انگلش ڈیفنس لیگ کے رہنما نے یورپ میں اسلام دشمنی میں تقریریں کیں۔ بعدازاں جرمنی میں پَگِیڈا (PEgida) نامی اسلام دشمن تحریک چلائی گئی۔ یورپی ملک سلواکیہ کی وزیراعظم نے یورپ سے مطالبہ کیا کہ وہ یورپ میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پرپابندی لگائے۔ اسلام دشمنی میں بڑھ چڑھ کر حصے لینے پر ہنگریہ کے وزیراعظم اربن کو یورپ میں ہیرو قرار دیا گیا۔
اب چلتے ہیں ایشیا جہاں ہندوستان کے حالات سے ہم سب واقف ہیں۔ سری لنکا جو بدھ مت مذہب کے پیروکار ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے اب سری لنکا میں مسلم کش فسادات کو بڑھکایا جارہا ہے۔ چنانچہ اب تک 4 کے قریب مسلمان ان فسادات میں شہید کیے جا چکے ہیں اور درجنوں زخمی ہیں۔ 100سے زائد مسلمانوں کے گھر تباہ کیے جا چکے ہیں۔13کے قریب مساجد کو نذرآتش کردیا گیاہے۔کئی مسلمان خوف وہراس کی وجہ سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ سری لنکن حکومت نے100کے قریب شرپسندوں کو گرفتار کرکے پورے ملک میں دس روزہ ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ پھر کیوں نہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہو کر شام، عراق، افغانستان، یمن، کشمیر فلسطین، سری لنکا اور برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا الم محسوس کریں۔ ان کے لیے متحد ہوجائیں۔