قاضی مظہرالدین طارق
آج کل خبروں میں ’بلیک ہول‘کا بڑا چرچا ہے،بلیک ہول،کہتے ہیں کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بلیک ہول کی تصویر اتارلی گئی ہے ،چلیئے !دیکھتے ہیں یہ ہے کیا۔
یہ بہت عجیب و غریب شئے ہے، یہ ایک بہت بھاری کمیت(میسوو)والا وجود ہے،جو اپنے اندر زبردست کشش رکھتا ہے کہ اس کے قریب جانے والی ہر چیزکو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے،روشنی تک کو نہیں چھوڑتا ہے۔
اس کے اندر جو چیز (اَیلیمنٹ)بھی داخل ہو، اس کی زبردست کشش سے جواہر(اَیٹمز) ٹوٹ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں،اَیلکٹرونز،نیوٹرونز اور پروٹوز کو سب اَٹمک ’سب پارٹیکلز‘ میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔
اگر ہم سورج جگہ اُس کا برابر کمیّت(ماس)کا سیاہ جوف رکھ دیں ، تو یہ بلیک ہول زمین کو بلیک ہول چوس نہ سکے گا،زمین بدستور اس بلیک ہول اَطراف مدار(اوربِٹ) گھومتی رہے گی،جیسے اب سورج کے مدار میں گھوم رہی ہے۔
بلیک ہول بنتا کیسے ہے؟
جب ایک بہت بڑے ستارے کے قلب میں لوہے تک کے عناصر (اَیلیمنٹس) بن چکے ہوتے ہیںاور’ اَٹومک ری اَیکشن‘ رک جاتا ہے، تو وہ اس کا قلب اپنے ہی بوجھ سے سُکڑنے لگتا ہے ، اور اِس کے درجۂ حرارت میں زبرسست اضافہ ہونے لگتا ہے ، اس تپش کی مدد سے تقریباً سو تک کے عناصر بن جاتے ہیں، مگر اس ستارے کابیرونی خول زبردست دھماکے (سپر نوا)سے پھٹ کر ’نیبیولا‘ کی صورت چاروں طرف پھیل جاتاہے۔
اُوہ! اس میں بلیک ہول کا تو کوئی تذکرہ ہی نہیں،شائد آپ بھول گئے کہ قلب جو اپنی ہی کشش سے سُکڑ تا جا رہا تھا وہی تو نظر نہ آنے والا سیاہ جوف(بلیک ہول )بن گیاہے۔
جی نہیں ! سیاہ جوف کادیدار تو اب بھی انسان کو نصیب نہ ہو سکا، یہ لوگ جس کو پہلی تصویر کہہ رہے ہیں وہ ہرگز بھی اُس کی تصویر نہیں،بلکہ یہ سیاہ جوف کے کے اُفق(ایونٹ ہورائیزن) کی تصویر ہے،بلیک ہول تو اب بھی سیاہ کا سیاہ ہی ہے ، کالا سیاہ،جس دوربین نے اس کی تصویرلی ، اس دوربین کا نام ہی’ایونٹ ہورائیزن ٹیلس کوپ‘ ہے۔
سچ پوچھئے تو سائنسدان اب بھی اس کی پیدائش کے بارے میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہ سکتے ہیں۔
سب کہہ رہے ہیں،ہم نے بلیک ہول کی پہلی تصویر بنالی ہے ، لیکن ہم پھر بھی یہ کہنے کی جسارت کررہے ہیں کہ اس تصویر میں بھی’سیاہ جوف ‘سیاہ کا سیاہ ہی دیکھائی دے رہا ہے،اس کے اندر کی کیفیت کوئی نہیں دیکھ پایا۔
ہاں! یہ اندازہ ضرور ہے کہ اس کی کششِ ثقل (گرَیوِیٹی)اتنی زیادہ ہے جو چیزاس کے اُفق پر پہنچ جائے حطیٰ کہ روشنی بھی اس سے بھاگ نہیں سکتی۔
اِ س میں داخل ہونے والے کسی مادّے کی حیّت باقی نہیں رہتی ،اُس کے اَیلکٹرونز اورپروٹونز اپنی جگہ پر قائم ہی نہیں رہ سکتے،وہ تقسیم در تقسیم ہوکرابتدائی ذرّات بن جاتے ہیں۔
بالفرض اگر کوئی اس کے پار بچ کر نکل بھی گیا تو وہ کسی دوسرے ہی جہاں میں پہنچ جائے گا،وہاں سے واپس نہیں ہو سکے گا،ہمیشہ کے لئے آجہانی ہو جائے گا۔
ہاں! البتہ یہ صحیح ہے کہ، یہ بلیک ہول کاپہلا بصری ثبوت ہے،اِس ثبوت کو حاصل کر کے لئے زمین کے حجم (سائیز) کی دُور بین( ٹلیس کوپ )کی ضرورت تھی۔
یہ دوربین دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ’ریڈیائی‘ دُور بینیں نصب کر کے، اُن کے نتائج کو جمع کر کے یہ تصویر یا ثبوت حاصل کیا گیا،زمین کے محور پر گھومنے ساتھ ساتھ بلیک ہول کی مزید تفصیلات حاصل ہوتی گئی۔
یہ بلیک ہول کھربوں نوری سال کے فاصلے پر ایک بہت بڑی اُوول’ گے لیکسی‘ M 87کے ’دل‘ میں واقع ہے۔
یہ اتنا بڑا ہے کہ اس کی کمیّت چار ارب سورج کے برابر ہے،مگریہ اتنا چھوٹا نظر آتا ہے اور اتنی دور ہے کہ اس تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔
ہبل خلائی دوربین جس نے کائنات کے بہت سارے راز فاش کیے
وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو سوشل میڈیا پر پھر تنقید کا سامنا ہے۔
وہ ایک مقامی چینل کے ایک پروگرام میں چاند کی شہادتوں کے تنازعے پر قمری کیلینڈر سے متعلق اپنا موقف دے رہے تھے۔ جس میں انھوں نے کہا کہ چاند کو دیکھنے کے مختلف طریقے ہیں ایک زمین پر نصب سو سال پرانی دوربینوں کی ٹیکنالوجی ہے اور ایک طریقہ ’ہبل‘ دوربین کا بھی ہے لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہبل ٹیلی سکوپ کو پاکستانی خلائی ایجنسی سپارکو نے خلا میں بھیجا جو کہ درست نہیں ہے۔ اس کلپ کے منظر عام پر ا?تے ہی سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی اور ہبل ٹرینڈ کرنے لگا۔
ہبل ٹیلیسکوپ کیا ہے؟
ہبل ایک خلائی دوربین ہے جسے امریکہ کی خلائی ایجنسی ناسا نے سنہ 1990 میں خلا میں بھیجا تھا۔ یہ اس وقت کی بڑی اہم پیش رفت تھی کیونکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک دوربین کو خلا میں بھیجا گیا۔ یہ خلائی دوربین زمین کے مدار میں ہی سفر کرتی ہے اور اس میں ایک ڈیجیٹل کیمرا بھی موجود ہے جس سے وہ پچھلے کئی برسوں سے خلا کی تصویریں لے کر زمین پر بھیج رہی ہے۔ ناسا کے مطابق ہبل ایک سکول بس جتنی بڑی ہے اور اس کا وزن دو بالغ ہاتھیوں جتنا ہے۔ ہبل ایک گھنٹے میں 27300 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے لہذا یہ محض 95 منٹ میں زمین کے گرد اپنا چکر پورا کر لیتی ہے۔
ہبل نے کیا کچھ دیکھا ہے؟
ناسا کا کہنا ہے کہ ہبل نے ستاروں کو بنتے اور ختم ہوتے دیکھا ہے اور اس نے ایسی کہکشاؤں کو بھی دیکھا ہے جو اس سے کئی کھرب میل دور موجود ہیں۔ ہبل کی مدد سے پلوٹو کے وہ چاند نظر آئے جو پہلے دریافت نہیں ہوئے تھے، ہبل نے بلیک ہول بھی دیکھیں ہیں۔ اس خلائی دوربین کی بدولت سائنسدان بہتر طریقے سے خلا، سیارے اور کہکشاؤں کے بننے کا مطالعہ کر پائے۔ انہی تصویروں کی وجہ سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات 14 ارب سال پرانی ہے۔
ناسا کے مطابق ہبل نے سنہ 1990 سے اب تک لگ بھگ 13 لاکھ مشاہدات کیے ہیں اور ماہرین فلکیات نے 15،000 سے زائد سائنسی مقالات لکھے ہیں جن کا مزید سات لاکھ 38 ہزار دفعہ دیگر مقالات میں حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ لہذا اس کا شمار سب سے زیادہ تعمیری سائنسی ا?لات میں ہوتا ہے۔
ہبل کا مستقبل کیا ہے؟
ناسا کے مطابق 2009 میں پانچھویں دفعہ جب خلاباز ہبل پہ سوار ہوئے تو اس وقت اس کی مرمت کی گئی تھی، اس میں نئے پرزے، کیمرا اور ٹیلی سکوپ نصب کیا گیا تھا۔ 2018 میں بھی دوربین کا ’جائروسکوپ‘ خراب ہو گیا تھا جو خلائی طیارے کی تیزی کو ناپتا تھا اور جس کی مدد سے وہ نئے ہدف کی طرف اپنا رخ موڑتا تھا۔ بعد میں ناسا نے زمین سے ہی اسے ٹھیک کر لیا۔ تقریباً سنہ 2021 تک ہبل کی جگہ ایک نئی ٹیلی سکوپ ’جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ‘ خلا میں بھیج دی جائے گی۔
یہ دوربین ہبل کی طرح ہماری دنیا کے گرد نہیں گھومے گی بلکہ 15 لاکھ کلومیٹر دور سورج کے گرد گھومے گی۔ یہ ہبل کے مقابلے میں زیادہ بڑی بھی ہو گی اور اس سے کہیں زیادہ دور دیکھ سکے گی۔ اس نئی دوربین کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خلا میں جانے کے بعد یہ ان ستاروں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے گی جو کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔
فضائی آلودگی خون کی رگوں کو سخت اور تنگ بناسکتی ہے
نیویارک: انسانی صحت پرفضائی آلودگی کے ہولناک اثرات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن اب ایک بڑے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ خود فضائی آلودگی دل کی رگوں سمیت تمام شریانوں کی تنگی اور سختی atherosclerosis کی وجہ بن سکتی ہے۔
رگوں کی تنگی کی وجہ خون اور دیگر غذائیت والے اجزا پورے جسم میں درست طور پر نہیں پہنچ پاتے اور اس سے امراضِ قلب اور فالج وغیرہ جنم لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ فضائی آلودگی میں گہری کہر اور اوزون اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگرچہ رگوں میں چربی، چکنائی اور کولیسٹرول وغیرہ جمع ہوتے رہتے ہیں جو پلاک کی صورت میں رگوں کو بند کردیتے ہیں لیکن اب فضائی آلودگی بھی اس میں اہم کردار کی وجہ بن سکتی ہے۔
اس ضمن میں یونیورسٹی آف بفیلو کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر مینگ وینگ نے بتایا کہ انہوں نے امریکہ کے کئی شہروں سے 45 سے 84 سال تک کے 6619 افراد کا ساڑھے چھ سال تک مطالعہ کیا ہے۔ اس میں تمام رنگ و نسل کے لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
تحقیقی سروے کا مقصد اوزون اور شریانوں کی تنگی کے درمیان تعلق دریافت کرنا تھا جس کے لیے شماریاتی ماڈل استعمال کئے گئے۔ اس ماڈل کے تحت ثابت ہوا کہ اگر کوئی بہت طویل عرصے تک اوزون کا سامنا کرتا رہے تو اس سے شریانوں کی سختی اور تنگی کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
مطالعے سے ظاہر ہوا کہ اوزون کے درمیان رہنے والے افراد کی رگوں میں خصوصاً کیروٹڈ شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو گردن سے دماغ کو خون پہنچاتی ہیں اور اس کی دو اہم رگیں گردن کی اطراف میں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے مطالعے میں بعض اموات کو بھی نوٹ کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق مختلف ذرائع سے اوزون ہماری فضا تک آتی ہے اور بالخصوص خشک ، گرم اور دھوپ والے دنوں میں فضا میں اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے جبکہ بعض ممالک میں اوزون کی سطح ویسے ہی بلند ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں امراضِ قلب اور دیگر بیماریاں سر اٹھارہی ہیں۔