ڈاکٹر نثار احمد نثار
معروف شاعرہ تزئین راز زیدی ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں‘ درس و تدریس سے وابستگی کے باعث انہوں نے مختلف کالجوں میں بہ حیثیت لیکچرار علم و آگاہی کے چراغ روشن کیے‘ ان کے تین شعری مجموعے راز داں‘ مضرابِ رگ جاں اور کسک منظر عام پر آچکے ہیں‘ اب انہوں نے افسانہ نگاری شروع کی ہے‘ ان کا یہ تجربہ کیسا ہے‘ اس کے بارے میں سلطان جمیل نسیم نے لکھا ہے کہ تزئین راز زیدی ایک کامیاب شاعرہ ہیں‘ انہوں نے غزل کی وسعت اور تنظم کی گہرائی کو سمجھا اور اب افسانے کی وسیع دنیا میں قدم رکھا ہے‘ ان کے ہر افسانے میں زندگی کے توازن کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے افسانوں میں نہ تو غیر ضروری الفاظ کی بھرمار ہے اور نہ ہی ایک بات کی مسلسل تکرار۔ ہر افسانہ شروع کرنے سے ختم ہونے تک پڑھنے والے کی توجہ اپنی طرف ہی رکھتا ہے کہ یہ ان کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی نے لکھا ہے کہ انہوں نے تزئین راز زیدی کے افسانے یوں ہی پڑھے کہ دیکھو یہ کیا لکھ رہی ہیں‘ اردو افسانہ اپنی چھوٹی سی عمر میں اتنی چھلانگیں لگا چکا ہے کہ اب اس میدان میں تیر مارنا آسان نہیں۔ مگر تزئین کے ایک دو افسانے پڑھ کر ہی میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ عورت بلا کی سفاک حقیقت پسند ہے اور ایسے موضوعات پر افسانہ لکھ سکتی ہے جن پر افسانے کی بُنت ناممکن نہیں تو انتہائی دشوار ہے۔ میں انہیں مستقبل کی ایک اچھی افسانہ نگار دیکھ رہا ہوں۔ سینئر افسانہ نگار اے خیام نے تزئین راز زیدی کے افسانوں کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ راجندر سنگھ بیدی نے کبھی کہا تھا کہ کہانی کا کوئی کلیہ نہیں ہوتا دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ افسانے کی کوئی طے شدہ تعریف نہیں ہے یا اگر ہے بھی تو وہ حتمی نہیں ہے اور تعریف میں ردوبدل کی گنجائش موجود ہے یہ امر بھی مسلم ہے کہ کی تحریر کو پڑھ کے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ افسانہ ہے اور یہ افسانہ نہیں ہے۔ افسانہ نگار کا روّیہ ثابت کرتا ہے کہ وہ فنِ افسانہ پرکتنی دسترس رکھتا ہے۔ اے خیام نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا کہ جب تزئین راز کے افسانے ان کے سامنے آیا تو اردو ادب کی خواتین فکشن نگاروں کے کنٹری بیوشن کی طرف خیال چلا گیا۔ صرف پاکستان کے حوالے سے آج کی فکشن نگاروں میں بہت سے نام ایسے ہیں جو فوری طور پر ذہن میں در آتے ہیں مثلاً بانو قدسیہ‘ خالدہ حسین‘ رضیہ فصیح احمد‘ زاہدہ حنا‘ نسیم انجم‘ شکیلہ رفیق‘ پروین عاطف‘ فاطمہ حسن‘ سائرہ غلام نبی‘ بشریٰ اعجاز‘ نعیمہ ضیا‘ سلطانہ مہر‘ لالی چودھری‘ شہابہ گیلانی‘ سیما پیروز اور کئی دیگر خواتین۔ ذرا اور پیچھے چلیں تو ممتاز شیریں‘ ہاجرہ مسرور‘ خدیجہ مستور‘ جمیلہ ہاشمی‘ صالحہ عابد‘ حجاب امتیاز وغیرہ کے نام زہن میں فوراً اجاگر ہو جاتے ہیں اور پاپولر لکھنے والی خواتین کی بات کی جائے تو اے آر خاتون‘ زبیدہ خاتون‘ حمیدہ جبیں‘ رضیہ بٹ‘ سلمیٰ کنول‘ عفت موہانی‘ دیبا خانم وغیرہ کے نام بہت واضح ہوتے ہیں۔ عواکی مقبولیت حاصل کرنے والی خواتین سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایسی بہت سی خواتین فکشن لکھ رہی ہیں جو کسی بھی معیار پر پوری اترتی ہیں۔ تزئین راز زیدی کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتا ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے ایسے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے جس میں عورت کی مظلومیت سامنے آتی ہے عورت اپنی شناخت اور تشخص چاہتی ہے‘ وہ ذاتی حقوق‘ آزادیٔ فکر و نظر اور کشادہ دلی پر اصرار کرتی ہے۔ وہ اپنے مقام و مرتبے کے حصول کی خواہش مند ہے۔ تزئین راز کے افسانوں میں ’’ثانیثیت‘‘ کے حوالے سے بڑی شدت پائی جاتی ہے انہوں نے طویل افسانے نہیں لکھے‘ ان کے چھوٹے چھوٹے افسانوں میں خوب صورت زبان ہے‘ شفاف بیانیہ ہے‘ کوئی الجھائو یا گنجلک پن نہیں۔ موضوع ابھر کر سامنے آتا ہے اور Feminist روّیہ حاوی نظر آتا ہے۔ ان کے افسانوں میں رشتوں کی اہمیت‘ ان کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نی روز مرہ زندگی کے بے شمار واقعات بیان کیے ہیں جن میں خواتین کی ایثار و قربانی کی مثالیں بھی شامل ہیں۔ شادی شدہ عورتوں کے مسائل بھی لکھے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ جہیز کی وجہ سے کتنی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی‘ انہوں نے ہجرت کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا ہے ان کے اکثر افسانے ایک تخلیقی بہائو کی نشان دہی کرتے ہیں جسے شعور کی رُو سے Stream of Conciousness کی تیکنیک سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ بہائو ایسا ہے جس میں قاری بہتا چلا جاتا ہے اور ایک شعری حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض افسانوں میں تزئین نے آج کی جدید ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی ہے اور اس میں تصنع کا شائبہ نہیں ہوتا۔ سب کچھ بہت فطری معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کے کئی افسانے ایسے ہیں جن کا اختتام قاری کی توقع کے خلاف ہوتا ہے۔ یہ افسانے اپنے اختتام پر اچانک ایک نیا موڑ لیتے ہیں‘ قاری کو چونکا دیتے ہیں اور ایک خوش گوار کیفیت سے دوچار کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کے افسانوں کا مجموعہ ادب میںگراںقدر اضافہ ثابت ہوگا۔
اخبارِ پاسبان ادبی فورم کا نعتیہ مشاعرہ
اخبار پاسبان ادبی فورم کے زیر اہتمام نارتھ کراچی میں اتوار 26 مئی 2019 ایک نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا ‘ یہ نعتیہ پروگرام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا اس لیے اس میں کسی کو بھی صدر نہیں بنایا گیا تمام شعرا‘ مہمانانِ خصوصی تھے۔ مشاعرے کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت قاری محمد حامد کے حصے میں آئی جن شعرا نے نعتیہ کلام پیش کیا ان میں اختر سعیدی‘ محمود غازی بھوپالی‘ علی اوسط جعفری‘ انیس جعفری‘ وقار زیدی‘ نصیرالدین نصیر‘ محمد رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ پروفیسر عزیز الرحمن صادق‘ خورشید نیاز‘ صالحین لیاقت اور انجینئر الحاج نجمی شامل تھے۔ ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ شدید گرمی اور تپش کے باوجود سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوںنے ہر شاعر کو بھرپور داد دی اور نعت رسولؐ سے روحانی استفادہ کیا۔ محمود غازی بھوپالی نے اختتامی دعائیہ کلمات ادا کیے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کے مرکزی چیئرمین الطاف شکور اور مرکزی چیف آرگنائزر اقبال ہاشم بھی خاص مہمانوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں مشاعروں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ مشاعروں کے ذریعے ہم زبان و ادب کو پروموٹ کرتے ہیں۔ شاعری روح کی غذا ہے‘ جو معاشرہ اپنے اربابِ سخن کو نظر انداز کرتا ہے وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعتیہ مشاعروں میں شرکت باعثِ ثواب ہے آج کی محفل میں بہت اچھا کلام پیش کیا گیا۔ الحاج نجمی نے کہاکہ انہوں نے اس مشاعرے کے لیے 50 شعرا کو دعوت دی لیکن بوجوہ وہ تمام لوگ نہ آسکے تاہم میں ان سے عید ملن مشاعرے میں شرکت کی درخواست کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دبستان کراچی میں شاعری کا معیار روز بہ روز بہتر ہوتا جارہا ہے اس شعبے میں اب نئے نئے چہرے نظر آرہے ہیں۔ شاعری کا تسلسل جاری ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کے باعث سامعین کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ مشاعرے کے منتظمین کی کوششوں کے سبب آج کا مشاعرہ بہت کامیاب رہا۔ تقریب کے اختتام پر تمام لوگوں کی خدمت میں افطار ڈنر پیش کیا گیا۔
فرید پبلشرز بزمِ فروغ ادب کا کتب میلہ اور مشاعرہ
فرید پبلشرز کا نام اس حوالے سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ادارہ ہر سال کتب میلے کے علاوہ ایک شان دار مشاعرے کا اہتمام کرتا ہے‘ اسی تناظر میں اس سال بھی ایک مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت اعجاز رحمانی نے کی‘ مہمان خصوصی احمد سلیم صدیقی تھے جب کہ حکیم ناصف اور غضنفر علی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ میزبان تقریب فرید حسین نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ہم قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے میدانِ عمل میں آئے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ کتب بینی فروغ پائے اس لیے ہم اپنے کتب میلے میں بہت معقول رعایت پر کتابیں فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہم نے نسیم شیخ کی وساطت سے مشاعرے کا اہتمام بھی کیا ہے جس میں شہر کے نامور شعرائے کرام شریک ہیں اور میرے لیے بھی بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج یہاں سامعین کی بڑی تعداد موجود ہے جب کہ اکثر مشاعروں کو سامعین کی بڑی تعداد موجود ہے جب کہ اکثر مشاعروں کو سامعین دستیاب نہیں ہوتے‘ آج کا مشاعرہ کس حد تک کامیاب ہوا ہے اس کا فیصلہ اربابِ ہنر کریں گے۔ صاحب صدر نے کہا کہ آج بہت اچھا کلام سننے کو ملا ہے‘ مشاعرے کی فضا قائم ہے اور کہیں بھی مشاعرے کا ٹیمپو خراب نہیں ہوا‘ بلاشبہ فرید حسن کئی برسوں سے فروغ کتب اور ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں‘ مجھے امید ہے کہ ان کی کامیابیوں کا سفر جاری رہے گا۔ اس مشاعرے میں اعجاز رحمانی‘ حکیم ناصف‘ راشد نور‘ غضنفر علی‘ سعید آغا‘ نظر فاطمی‘ قیصر وجدی‘ عبدالمجید محور‘ نسیم شیخ‘ یاسر سعید صدیقی‘ ناہید عزمی‘ گل افشاں‘ روبینہ ممتاز روبی‘ صاحب زادہ عتیق الرحمن‘ عظیم حیدر سید کے علاوہ اداکار سلیم آفریدی نے بھی اشعار سنائے۔
نعتیہ مشاعرے ہماری تہذیب کا حصہ ہیں‘ رونق حیات
نعتیہ مشاعروں سے ایمان تازہ ہوتا ہے‘ نعت گوئی ہماری تہذیب کا حصہ ہے‘ ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کا اظہار کرے‘ شعرائے کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو منظوم رقم کرتے ہیں جس کو نعت نگاری کہا جاتا ہے‘ نعت کے لیے فن شاعری کے آداب‘ رموز و نکات‘ لفظی اور معنوی باریکیوں کے علاوہ اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی لفظ ایسا نہ لکھا جائے جو شرک و کفر کا باعث بنے۔رسالت مآبؐ کا احترام لازمی ہے‘ غزل کے مضامین میںدروغ گوئی کی گنجائش ہے جب کہ نعت رسولؐ میں غلط بیانی جرم ہے۔ ان خیالات کا اظہار نیاز مندان کراچی کے روح رواں رونق حیات نے الطاف احمد کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والی ایک نعتیہ نشست میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں نعتیہ ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں‘ وہ خصوصی طور پر بے حد قابل ستائش ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غیر مسلم شعرا نے بھی نعتیں لکھتی ہیں ان میں بیشتر غیر مسلم شعرا کا نعتیہ کلام نور احمد میرٹھی نے ایک کتابی شکل میں شائع کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ رونق حیات نے مزید کہا کہ اردو زبان وادب کی ترقی کے لیے انہوں نے اپنی تنظیم نیاز مندان کراچی کے پلیٹ فارم سے ایک عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا تاکہ اربابِ اختیار تک ہماری آواز پہنچے اور قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ادارے اپنے من پسند قلم کاروں کے بجائے جینوئن قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری تحریک رنگ لائے گی۔ نظر انداز قلم کاروں کو بھی اسٹیج فراہم کر رہے ہیں‘ بہت سے ایسے سینئر شعرا موجود ہیں جن کو مشاعرے میں بوجوہ نہیں بلایا جاتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ان کی قدر کی جائے‘ نوجوان شعرا کا فرض ہے کہ وہ اپنے سینئرز کا احترام کریں‘ ان کی شاعری سے استفادہ کریں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی تنظیم دراک ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے‘ ہماری تنظیم کا منشور ہی زبان و ادب کا فروغ ہے‘ ہم ہر ماہ تنقیدی نشست اور مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں‘ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی نشست میں معیاری تخلیقات پیش کی جائیں جو ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بنیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت‘ اصنافِ سخن کا اہم جُز ہے‘ نعتیہ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہے کہ شعرائے مقتدین اور شعرائے متوسطین کی نعتوں میں جمالِ مصطفی ایک بڑے مضمون کی شکل میں موجود ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ نعت گو شعرا پر یہ حقیقت کھلی گئی کہ نعت میں جمال مصطفی کے ساتھ ساتھ سیرتِ مصطفی بھی ضروری ہے۔ نعت میں فضائل و مناقبِ رسالت کے ساتھ ساتھ سیرتِ رسول کی تبلیغ اور مقاصدِ نبوت بھی لکھے جارہے ہیں تاکہ معاشرے کی اصلاح ہو سکے۔ اس نشست میں رونق حیات‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ سعد الدین سعد‘ تنویر سخن‘ شاہدہ عروج‘ عارف شیخ عارف‘ ڈاکٹر خورشید‘ اجمل شاہین اور ڈاکٹر اقبال ہاشمانی نے اپنی غزلیں اور نعتیں پیش کیں۔ میزبانِ محفل الطاف احمد نے کہا کہ نیاز مندان کراچی اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرے‘ مذاکرے اور دیگر ادبی پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے‘ جو لوگ ہمارے پروگراموں کا حصہ بنتے ہیں ہم ان تمام کے شکر گزار ہیں۔