ڈاکٹرعزیزہ انجم
’’ابا میاں! سحری کرلیں۔‘‘ نایاب نے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولتے ہوئے جھانکا۔
ابا میاں حسب معمول جائے نماز پر بیٹھے دعا میں مصروف تھے۔ ’’سحری کا وقت تھوڑا رہ گیا ہے ابا میاں آجایئے۔‘‘
عثمان آنکھیں ملتے ہوئے سحری کھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ مسکرائی ’’کتنی نیند آتی ہے انہیں‘ اتنی مشکل سے اٹھتے ہیں سحری کرنے بس چلے تو بغیر سحری کا ہی رکھ لیں روزہ … وہ تو دن بھر کام اتنے ہوتے ہیں اور گرمی کہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے ورنہ نیند کے ہاتھوں عثمان اٹھیں ہی نہ۔‘‘
’’ابا میاں یہ دہی لیجیے اور یہ گرم پھلکا‘ پیاس کم لگے گی‘ گرمی بہت ہے آج کل‘ پانی بھی ٹھیک طرح سے پی لیجیے۔‘‘
’’خوش رہو گوہر نایاب تم ہمارا بہت خیال رکھتی ہو۔‘‘ ابا میاں محبت سے کہہ رہے تھے۔
’’بس آپ دعا دیا کریں مجھے۔‘‘
’’صرف انہیں اور میں کچھ نہیں لگتا ابا میاں کا۔‘‘ عثمان نے غصہ دکھایا۔ ابا ہنس پڑے۔
سحری ختم ہونے پر ابا میاں نے کہا ’’گوہرِ نایاب نماز پڑھ کر میرے میں آنا۔‘‘
’’جی ابا میاں۔‘‘
گوہر نایاب عثمان کے ساتھ شادی کے خوب صورت بندھن میں بندھ کر سسرال آئی تو دو بہنوں‘ دو بھائیوں اور ابا اماں پر مشتمل ہنستا کھیلتا گھرانا تھا۔ بڑے بھائی غفران اور بڑی نند بشریٰ کی شادی پہلے ہی ہو چکی تھی۔
غفران سعودیہ میں انجینئر تھے اور اپنی فیملی کے ساتھ وہیں سیٹل تھے۔ شادی میں شرکت کے لیے آئے اور چلے گئے‘ چھوٹی نند عظمیٰ کی شادی نایاب کے ولیمے کے دن ہوئی یوں وہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی۔ ساس‘ سسر مزاجاً اچھے تھے اسے کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ تین سال پہلے ساس کا اچانک انتقال ہو گیا اور نایاب کی ذمے داریوں میں سسر کی ذمے داری بھی شامل ہوگئی۔ تین شریر بیٹوں کے کام نمٹاتے نمٹاتے نایاب تھک جاتی لیکن سسر کے آگے چائے یا کھانا رکھتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہی ہوتی۔ ابا میاں صلح جو‘ کم گو انسان تھے۔ زمانے کے نشیب و فراز سے واقف تھے‘ بہو سے مطالبات کم کرتے لیکن نایاب توواقعی گوہرِ نایاب تھی وہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی۔ ظہر کی نماز کے فوراً بعد تازہ کھانا‘ فجر کے بعد نمکین بسکٹوں کے ساتھ چائے کا گرم کپ نایاب سسر کو ضرور دیتی۔ رات کا کھانا سب ساتھ مل کر کھاتے اس میں بھی نایاب ابا میاں کی پسند ذہن میں رکھتے ہوئے کھانا بناتی۔ اس کی اسی نیکی اور خدمت کو دیکھتے ہوئے ابا میاں نے اس کا نام گوہرِ نایاب رکھ دیا تھا‘ وہ اسے گوہر نایاب ہی کہا کرتے اور ان کی دعائوں کا بڑا حصہ نایاب کے لیے وقف ہوتا۔
فجر پڑھ کر وہ اشتیاق سے ابا میاں کے کمرے میںداخل ہوئی۔ بہت سے پیکٹ بیڈ پر رکھے تھے۔ وہ سمجھ گئی بہو اور پوتوں کے عید کے کپڑے اس سال بھی ابا میاں عظمیٰ کے ساتھ جا کر لا چکے ہیں۔
’’نایاب یہ تمہارا سوٹ اور یہ تمہارے شہزادوںکا۔‘‘
’’آپ کے شہزادے کا سوٹ کہاں ہے ابا میاں؟‘‘ عثمان بھی نایاب کے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوا تھا اور شرارت سے چھپا بیٹھا تھا‘ پیچھے سے سر نکال کر بولا۔
’’نالائق نہ پاس بیٹھتاہے نہ بات کرتا ہے‘ ہر وقت نہ جانے کہاں مصروف رہتا ہے۔‘‘ وہ اس کا سوٹ الماری سے نکال رہے تھے۔
’’یہ دو ایک جیسے کرتا شلوار کس کے ہیں؟‘‘
’’ایک تمہارا ایک غفران کا… کیا کروں تمہارا لیتا ہوں تو غفران کا لیے بغیر رہا نہیں جاتا‘ پچھلی عید بھی غفران نے وہیں کی تھی اب کی بار آنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔‘‘ ابا میاں اداس ہو گئے۔
’’صوفیہ کی بھائی بہن وہیں ہیں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن غفران کو تو سوچنا چاہیے کہ باپ کو کتنا انتظار اور اداسی دیدی ہے اس نے‘ جاب کی مجبوریاں اپنی جگہ‘ سال میں ایک بار تو اکٹھا ہوا جا سکتا ہے۔ ماشاء اللہ اچھا کماتا کھاتا ہے۔‘‘
’’ابا میاں…‘‘ عثمان نے ماحول بدلا ’’آئندہ ہمیںسرپراز دینے کے لیے آپ اکیلے شاپنگ نہیں کریں گے‘ ہم سب آپ کے ساتھ جائیں گے اور مل کر کریں گے عید کی شاپنگ‘ وہ بھی آپ کے خرچ پر۔‘‘ ابا میاں ہنس دیے اور عثمان یہی چاہتا تھا۔
٭
’’عثمان آپ بات کریں نا غفران بھائی سے۔‘‘ الماری میں کپڑے رکھتے ہوئے وہ بولی۔
’’کوئی فائدہ نہیں ان سے بات کرنے کا۔‘‘
’’اچھ‘ امیں خود بھابھی سے بات کروں گی۔‘‘ نایاب نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’مجھ سے ابا میاں کی اداسی نہیں دیکھی جاتی۔‘‘
’’سونے بھی دو اتنی مشکل سے چھٹی کا دن آتا ہے۔‘‘ عثمان نے تکیہ منہ پر رکھا اور سو گیا۔
بھابھی کے پاس حسبِ معمول شکایتیں تھیں‘ شکوے تھے‘ عذر تھے‘ مجبوریاں تھیں‘ وہ سنتے سنتے تنگ آگئی۔ ’’آپ صرف ابا میاں کا سوچیں اور ایک بات بتائیں کیا ابا میاں نے غفران کی تعلیم پر بے تحاشا پیسہ خرچ نہیں کیا جو وہ آج اتنی بڑی پوسٹ پر ہیں‘ پھر بھی آپ حساب کتاب میں لگی رہتی ہیں۔ ابا میاں کی آنکھوں میں جو انتظار ہے وہ صرف محسوس کرنے والا ہی دیکھ سکتا ہے‘ وہ ہر وقت غفران بھائی کے بچپن کی باتیں کرتے ہیں‘ وہ کتنا لائق تھا‘ وہ میری انگلی پکڑ کر اسکول جاتا تھا‘ عثمان آگے بھاگ جاتا لیکن غفران میرے ساتھ ساتھ چلتا رہتا…‘‘ وہ کہتے کہتے روہانسی ہوگئی۔‘‘
’’ارے ارے تمہیں کیا ہوگا اتنی جذباتی ہوگئیں۔‘‘ صوفیہ بھابھی نے قہقہہ لگایا۔
’’جذباتی ہونے کی بات نہیں‘ ماں باپ کے لیے بچے کتنے قیمتی ہوتی ہیں یہ ہم جب سمجھیں گے جب ہمارے اپنے بچے بڑے ہوں گے۔‘‘
’’بھئی دیکھو اتنا پیسہ خرچ کرکے آئو پھر کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے کہ تلخیوں کے ساتھ واپس جانا پڑتا ہے‘ پچھلی دفعہ بھی بشریٰ نے…‘‘
’’ارے بھابھی چھوڑیں…‘‘ نایاب نے بات کاٹ دی۔ ’’زندگی رہی تو گلے شکوے چلتے رہیںگے‘ میںچھوٹی ہوں پھر بھی کہہ رہی ہوں یہ عید آپ لوگوں کو ہمارے ساتھ کرنی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں غفران سے بات کرتی ہوں پھر بتاتے ہیں۔‘‘ صوفیہ بھابھی فون بند کرتے ہوئے بولیں۔
’’ہو گئیں کامیاب تم اپنی مہم میں۔‘‘ عثمان تولیے سے منہ پونچھتا ہوا بولا۔ بھابھی نہیں ماننے والی‘ انہیں تو میرا غفران بھائی کو فون کرنا‘ ان سے بات کرنا‘ ہنسنا بولنا پسند نہیں‘ وہ چاہتی نہیں کہ بھائی ہم لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں اور بھائی اتنے سیدھے ہیں کہ بھابھی کے آگے اپنی بات نہیں چلاتے‘ انہیں خود بھی سوچنا چاہیے۔‘‘
’’عثمان معلوم نہیں کیوں عورتوں کے دل اتنے تنگ ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’تمہارا تو نہیں ہوتا۔‘‘ عثمان نے محبت بھری نظر نایاب کے معصوم چہرے پر ڈالی۔
’’عثمان میں تو ابا میاں کو اپنا ابا کی جگہ ہی سمجھتی ہوں‘ بس وہ میرے ابا ہے۔ بشریٰ باجی اور عظمیٰ میری بہنیں ہیں۔ رشتے کتنی خوشی دیتے ہیں اگر اچھی طرح نبھائے جائیں۔‘‘
’’ہر کوئی تمہاری طرح نہیں سوچتا نایاب جبھی تو ابا میاں نے تمہارا نام ’’گوہر نایاب رکھا ہے۔‘‘
آج 28 واں روزہ تھا‘ عید کی خوشی قریب آ لگی تھی۔ نایاب نے آج افطار کا اہتمام لان میں کیا تھا۔ ڈھائی سو گز کے بنگلے کے سامنے کے حصے میں بنے لان کو ہرا بھرا اور خوب صورت رکھنے میں نایاب کے شوق کا بڑا حصہ تھا۔ گرین جالی کے شیڈ کے نیچے پلاسٹک کی کرسیاں اور میز رکھی تھیں‘ پیڈسٹل فین چل رہے تھے‘ ابا میاں پائپ ہاتھ میں پکڑے پودوں کو پانی دے رہے تھے‘ آٹھ سالہ عدیل دادا کے پاس آکر پائپ پکڑتے ہوئے کہنے لگا ’’لائیں دادا مجھے دیں پائپ میں ڈالوں گا پانی… دادا کل چاند نکلے گا نا‘ میرا دوست کہہ رہا تھا اس بار 29 روزے ہوں گے۔‘‘ دادا پوتے کی باتوں پر ہنس دیے۔
’’معلوم نہیں بیٹا کل چاند نکلے گا یا پرسوں مگر لوگوں کو 29 کے چاند کا شوق بہت ہوتا ہے۔‘‘
’’ابا میاں چاند کبھی کبھی 28 کو بھی نکل جاتا ہے۔‘‘ نایاب کی مسکراہٹ گہری تھی۔
’’یہ عثمان نہیں آج افطار پر… اب تک نہیں آیا‘ کہاں گیا ہے؟‘‘
’’ابا میاں آپ کی خوشیوں کا چاند نکالنے کے لیے گئے ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب نایاب۔‘‘ ابا میاں حیران تھے۔
’’اذان ہو چکی تھی‘ نایاب نے کھجور منہ میں ڈالی ہی تھی کہ گیٹ سے دو گاڑیاں اندر داخل ہوئیں ’‘وہ دیکھیے ابا میاں سامنے…‘‘ نایاب کی خوشی دیدنی تھی۔
آگے والی گاڑی کا دروازہ کھلا اور ابا میاں کا چاند سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ابا میاں کبھی غفران کو دیکھتے‘ کبھی پوتا پوتیوں کو‘ کبھی سلام کرتی بہو کو۔
غفران نے اندر آکر گرم جوشی اور بے قراری سے باپ کو بازوئوں سے تھاما اور سینے سے لپٹ گیا۔ خوشی کے آنسو باپ بیٹے دونوں کی آنکھوں میں جھلملا رہے تھے۔
’’تم واقعی گوہرِ نایاب ہو۔‘‘ عثمان نے قریب آکر اس کے کان میں سرگوشی کی۔
اور گوہر نایاب سوچ رہی تھی ہم عورتوں کے دل تھوڑے سے بڑے ہو جائیں تو زندگی کے سارے موسم کتنے خوب صورت اور خوش گوار ہو جائیں۔
کامیاب زندگی کے اصول
خدا کے حقوق کے بعد بندوں کے حق میں سب سے زیادہ مقدم حق جو انسان پر ہے‘ وہ والدین کا حق ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ توحید کے حکم کے بعد اس کو بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں بیان کیا:
’’اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر اس کی اور والدین ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘
احادیث میں والدین کے جو حقوق بیان کیے گئے ان میں ان کی رو سے اولاد کا فرض ہے کہ:
٭ ہر جائز امر میں والدین کی اطاعت کرے۔
٭اپنے امکان کی حد تک ان کی مالی اور جسمانی دونوں طرح کی خدمت کرے۔
٭ انہیں احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھے۔
٭ ان سے دلی محبت رکھے۔
٭ ان کے متعلقین اور احباب سے حسن سلوک کرے۔
٭ ان کے حق میں دعائے خیر کرے۔
٭ ان کی بددعا سے بچنے کی کوشش کرے۔
اگرچہ احادیث کے مطابق حسن سلوک کا خصوصی استحقاق ماں ہی کو حاصل ہے تاہم باپ کے احسانات کا بدلہ اولاد کے لیے بے انتہا مشکل ہے۔ ترمذی میں ایک حدیث میں بیان کیا گیا حضرت ابوالددار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’باپ جنت کے دروازوں میں سے بہتر دروازہ ہے۔‘